میاں نظیر

میاں نظیرشاید اردو کے تنہا شاعر ہیں جنہوں نے کسی مسئلے سے سروکار نہیں رکھا، سو پڑھنے والے کے لئے بھی مسئلہ نہ بن سکے۔ ایک مدت تک ان کے تئیں جو بےنیازی عام رہی، اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ انہوں نے اپنے پڑھنے یا سننے والوں سے کبھی کوئی ایسا مطالبہ نہیں کیا جو اسے کسی شرط کو قبول کرنے کا تجربہ دے سکے۔ نظیر کے الفاظ، ان کے الفاظ میں گھری ہوئی رنگارنگ دنیا اور اس دنیا کے ہر دیار اوردائرے سے گزرتا ہوا، ہر لفظ کے روزن سے جھانکتا ہوا آدمی اتنا عام، مانوس اور معمولی دکھائی دیتا ہے کہ اس کے بارے میں سوچ بچار کی ضرورت بڑی مشکل سے سر اٹھاتی ہے۔


وہ گئے بیتے شاعربھی، جن کے پاس بالعموم کہنے کو کچھ نہیں ہوتا تھا اور جوصرف لفظوں کے داؤں پیچ پرگزران کرتے تھے۔ گھما پھرا کر زبان کا ایک مسئلہ پیدا کر لیا کرتے تھے۔ نظیر کی قلندری اس لسانی جمع خرچ کی متحمل بھی نہ ہوئی۔ انہوں نے جو کچھ دیکھا، برتا اور محسوس کیا، اسے جوں کا توں ایک جانے بوجھے لسانی خاکے میں سمو دیا اور یہ سب کچھ انہوں نے اس طمانیت، سکون اور سادگی کے ساتھ انجام دیا کہ ایک لمحے کے لئے بھی، کیا جذبہ و فکر اور کیا زبان وبیان، کسی کے ہاتھوں پریشان نہ ہوئے۔ جو جیسا کچھ جی میں آیا، بے جھجک کہہ دیا اور کبھی اپنی سادہ کاری پر پشیمان نہ ہوئے۔ اپنے آپ میں ایسی بے حد و حساب گم شدگی اردو کے بڑے سے بڑے شاعر کے اکا دکا، دس بیس یا زیادہ سے زیادہ سو پچاس اشعار میں تو دکھائی دیتی ہے، لیکن ایک میر صاحب کے استثنا کے ساتھ کسی کے پورے کلام کا مزاج نہیں بنی۔


کہنے کو تو آدمی نامہ میاں نظیر کی صرف ایک نظم ہے لیکن دراصل ان کے تمام تر کلیات پر اس ایک عنوان کا اطلاق ہوتا ہے۔ وہ عمر بھر اس آدمی کی سرگزشت بیان کرتے رہے جو راہ و مقام کی قید سے آزاد، بے ارادہ اور بے انتخاب چاروں کھونٹ مارا مارا پھرتا رہا اور جس نے عقائد و اقدار، رسوم و روایات، افکار و آثار، مظاہر اور مناظر کے کسی مخصوص اور معینہ علاقے کو اپنی آخری حد کے طور پر قبول نہ کیا۔


ایسا نہ ہوتا تو نظیر کے تجربوں اور واردات میں بلندوپست کے اجتماع کی اس درجہ گنجائش نہ نکلتی۔ وہ جس قلندرانہ استغنا کے ساتھ زندگی کی نعمتوں کا اور اس کے الطاف کا ذکر کرتے ہیں، اسی فقیرانہ شان کے ساتھ اس کے دکھ درد کی روداد بھی بیان کرتے ہیں، جس استغراق کے ساتھ مظاہر کے شور میں چھپے ہوئے سناٹے اور حقیقت کے فریب کا حجاب اٹھاتے ہیں، اسی سرمستی اور لذت کے ساتھ دنیا کی دل فریبیوں پر نظر ڈالتے ہیں، اور حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ تجربے کے ان دونوں منطقوں پر ان کی ذات محفوظ دکھائی دیتی ہے۔


یہ کثرت میں وحدت سے زیادہ، وحدت کی بوالعجبی اور اس کے فطری اور ناگزیر اندرونی تضادات کا عرفان ہے جو فتح و شکست، نیک وبد اور اندھیرے اجالے کو یکساں طور پر ان کے لئے قابل توجہ بناتا ہے۔ وہ سکھ سے مغرور ہوتے ہیں نہ دکھ سے مغلوب اور ایک سچے کھلاڑی کی طرح جو کھیل کے آداب سے بہ خوبی واقف ہو، اور ہار جیت دونوں کو ایک سی خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کر سکے، کائنات کے تماشے سے دو چار، کامیابی اور ناکامی کے مختلف مراحل سے گزرتے ہیں۔ ان کے لئے بنیادی حقیقت تماشا ہے، جس میں نشاط والم، بہ یک وقت دونوں کے پیوند لگے ہوئے ہیں۔۔۔ عام صوفی شاعروں کی طرح نظیر یہاں مقدر پرست اور مجبور نظر نہیں آتے کہ اس طرح تماشے میں خود ان کا اشتراک بے جواز ہو جاتا اور ایک ہزیمت زدہ لاتعلقی، خودنگری اور دنیا بے زاری ان کا مزاج بن جاتی۔


ان کا رویہ ازاول تا آخر ایجابی ہے، سو وہ ہررنگ اور ہر رس کے جویا بھی ہیں، مظاہر کے ہر محور سے اپنے اعصاب و حواس کی تمام تربیداری کے ساتھ متعلق اور ان کی حقیقتوں میں آلودہ بھی ہیں اور اسی کے ساتھ ساتھ اپنی بے نیازی کا بھرم بھی قائم رکھتے ہیں۔ یہ بے نیازی، ان کی دنیا آگہی کا عطیہ ہے، جو بالآخر ایک خود آگہی کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ میاں نظیر اپنی دنیا کے ہر زاویے اورتماشے سے یکساں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان کے نظارے کی پیاس کسی موڑ پر بجھتی نہیں۔ اکتاہٹ، بے دلی، تھکن کا احساس یا سب کچھ جان لینے کا غرور، انہیں ایک لمحے کے لئے بھی کبھی اپنی دنیا سے الگ یا اس سے اوپر نہیں لے جاتا۔ اس کے باوجود ان کے یہاں حیرت کا عنصر کم وبیش نایاب ہے۔


انہیں کوئی جستجو بے چین نہیں کرتی اور غم آلود تجربوں سے گزرتے اور ان کی کہانی سناتے وقت بھی نظیر اپنی طبیعت کے سکون کو برقرار رکھتے ہیں اور جذبے کی تنظیم پر حرف نہیں آنے دیتے۔ وہ اپنے خلوت کدے میں دنیاکی بے ثباتی، موت کی حقیقت، مفلسی، بندگی اور بے چارگی پر دھیان میں مست ہوں یا آگرے کے بازاروں میں خوانچہ فروشوں کے بیچ اور تیراکی یا بلدیوجی کے میلے میں مگن ہوں، ان کی نگاہ توجہ اور طبیعت کے ٹھہراؤ میں فرق نہیں آتا۔ وہ جس آسودہ خاطری کے ساتھ فنا اور بقا کی گتھیاں سلجھاتے ہیں، جس ہیجان سے یکسر عاری لہجے میں کاروبار دنیوی کی مذمت کرتے ہیں، اسی انہماک اور بےلوثی کے ساتھ بے زاری کے ذرا سے شائبے کے بغیر مکھیوں اور کن کھجوروں پر بھی شعر کہتے ہیں۔


برسات کی بہاریں اور برسات کی امس دونوں میں وہ مذاق اور مزے کے ایک سے پہلو نکال لیتے ہیں۔ جوانی کا جوش اور بڑھاپے کی تھکن دونوں میں وہ ایک سی دلچسپی کے بہانے ڈھونڈ لیتے ہیں۔ زہدوعبادت کا ذکر ہو یا عورتوں کی ہم جنسی کا، نظیر کے لب ولہجے اور رویے میں کوئی تبدیلی یا ان کے ردعمل میں شدت کی کوئی لہر بھی نمودار نہیں ہوتی، نفرت، گھن، غصے اور ناپسندیدگی کا کوئی غبار ان کے آئینہ شعور کی ہم وار، صاف اور منزہ سطح کو ایک آن کے لئے بھی دھندلاتا نہیں۔


اصل میں نظیر ہمارے ادبی کلچر کے شاید سب سے بڑے تماشابیں ہیں۔ زماں کا ہر لمحہ اور مکان کا ہر گوشہ ان کی نظر میں متحرک، سرگرم اور توجہ طلب ہے۔ اس معاملے میں وہ کسی انتخاب کے قائل ہیں نہ کسی معیار کو روا رکھتے ہیں۔ معیار اور انتخاب کامسئلہ وہیں پیدا ہوتا ہے جہاں اقدار کا کوئی بندھا ٹکا تصور یا کوئی بیرونی یا ذاتی شرط آڑے آ جائے اور جیسا کہ شروع میں عرض کیا جا چکا ہے کہ نظیر نے حقیقت کو اپنا مسئلہ نہیں بنایا، اس لئے نظیر کے یہاں قدر اور معیار کا کوئی سوال بھی سر نہیں اٹھاتا۔ ان کے تجربوں میں جیسی ششدر کر دینے والی بوقلمونی ملتی ہے، اس کی مثال اردو سے قطع نظر دوسری زبانوں کے بڑے سے بڑے شاعر کے یہاں مشکل سے دکھائی دےگی۔ اس ہمہ گیری اور تنوع کی اساس اسی واقعے پر قائم ہے کہ نظیر نے کسی بھی مسئلے کے دائرے کو اپنی حد و انتہا نہ جانا اور سپردگی کے تمام مقامات سے آسان گزر گئے۔


عظمت بیشتر صورتوں میں اختصاص کا صلہ ہوتی ہے اور اختصاص اس امر کا متقاضی کہ شعر کہنے والا کہی جانے والی باتوں کے ساتھ ساتھ نہ کہی جانے والی باتوں کا شعور بھی رکھتا ہو اور کسی بھی ایسے خیال، تجربے اور اظہار کے سانچے کو منہ نہ لگائے، جس سے عامیانہ پن یا عمومیت زدگی کی بو آتی ہو۔ بڑی حد تک یہ رویہ لکھنے والے کو ایک نفسیاتی خوف میں مبتلا رکھتا ہے اور اس خوف کے نتیجے میں وہ توازن، احتیاط، لسانی مہارت اور تجربات کے معاملے میں سطح اور جہت کے انتخاب کے سہارے تلاش کرتا ہے۔ میاں نظیر نہ کبھی عظمت کے چکر میں پڑے، نہ اس مسئلے میں الجھے کہ ان کے اگلوں نے جوشعر کہا اس سے معیار کی صورتیں متعین ہوتی ہیں۔ نہ ہی انہوں نے کبھی اس قسم کا کوئی دعویٰ کیاکہ ان کی طرز سخن ان کے بعدآنے والوں کی زبان ٹھہرے گی۔


وہ اپنے معمولی پن پر قانع رہے کہ اس طرح ان کی آزادگی کا تحفظ بھی ہو اور ان کی دنیا بھی اچھے برے یا اہم اور غیر اہم کے خانوں میں تقسیم ہونے سے بچ گئی۔ ادب کے سنجیدہ، تربیت یافتہ اور عالم فاضل، قاری کے وجود سے ایسی بے نیازی اور مسلمات کی حقیقت سے مکمل گریز کی یہ صورت نظیر کے بعد ہماری ادبی روایت میں دیکھنے کو نہیں ملتی، نہ ہی مجردات کی مقبولیت اور برتری کے دور میں اب اس کا کوئی امکان رہ گیا ہے۔


اس سلسلے میں قابل قدر بات یہ ہے کہ نظیر اپنے قاری پر بھی کسی نہ کسی معیار یا کسی نئی بوطیقا کا حکم نہیں لگاتے۔ انہو ں نے بڑی خاموشی اور آہستگی کے ساتھ خیال اور مادے کا فرق مٹا دیا۔ اشیا، موجودات اور اسماء کی ترتیب میں معنی کی ایک غیرمادی دنیا کا سراغ لگایا اور بھانت بھانت کی جن فکروں سے ان کا ذہن بھرا ہوا تھا، ان کے اظہار کی خاطر مظاہر کے تماشے کی سیر کرتے رہے جبھی توان کے شعر فقیروں نے بھی گائے اور کاروبار دنیا میں گردن تک ڈوبے ہوئے اہل بازار نے بھی۔ میر صاحب کی طرح نظیر بھی دراصل کلیات کے شاعر ہیں، اس فرق کے ساتھ کہ میر صاحب اپنی خواص پسندی کے اسباب و عناصر کی خبر بھی رکھتے تھے اور نظیر اپنے آپ میں اتنے مگن رہے کہ اپنے تجزیے کا انہیں کبھی خیال نہ آیا۔ انہوں نے اپنا تعارف کرایا بھی تو اس طرح کہ،


کہتے ہیں جس کو نظیر، سنیے ٹک اس کا بیان
تھا وہ معلم غریب، بزدل و تر سندہ جاں


کوئی کتاب اس کے تئیں، صاف نہ تھی درس کی
آئے تو معنی کہے، ورنہ پڑھائی رواں


فہم نہ تھا علم سے کچھ عربی کے اسے
فارسی میں ہاں مگر سمجھے تھے کچھ این وآں


لکھنے کی یہ طرز تھی کچھ جو لکھے تھا کبھی
پختگی و خامی کے، اس کا تھا خط درمیاں


شعر و غزل کے سوا، شوق نہ تھا کچھ اسے
اپنے اسی شغل میں رہتا تھا خوش ہرزماں


سست روش، پستہ قد، سانولا، ہندی نژاد
تن بھی کچھ ایسا ہی تھا قد کے موافق عیاں


ماتھے پہ اک خال تھا، چھوٹا سا، مسے کے طور
تھا وہ پڑا آن کر، ابروؤں کے درمیاں


وضع سبک اس کی تھی تس پہ نہ رکھتا تھا ریش
مونچھیں تھیں اور کانوں پر پٹے بھی تھے پنبہ ساں


پیری میں جیسی کہ تھی اس کو دل افسردگی
ویسی ہی تھی ان دنوں، جن دنوں میں تھا جواں


جتنے غرض کام ہیں، اور پڑھانے سوا
چاہئے کچھ ا سے ہوں، اتنی لیاقت کہاں


فضل سے اللہ نے اس کو دیا عمر بھر
عزت وحرمت کے ساتھ پارچہ و آب ناں


یعنی کہ کوئی تعلی نہیں، نہ شیخی بازی، نہ کسی امتیازی وصف کی نمائش۔ سیدھی سادی دوٹوک باتوں میں عمربھر کا حساب سامنے رکھ دیا۔ اب اس فخر و مباہات اور انکسار وعاجزی سے بہ یک وقت عاری تعارف کے مقابلے میں جوش صاحب کی معروف نظم ’’پروگرام‘‘ کے اشعار یاد کیجئے تو ہنسی آتی ہے۔ جوش صاحب صبح سے شام تک مشاغل اور مسائل کے جتنے میدان فتح کر جاتے ہیں، میاں نظیر ایک بھری پری زندگی کے حساب نامے میں بھی انفرادیت و فوقیت کا کوئی نشان نہ پا سکے اور اپنی اس بے بضاعتی پر متاسف بھی نہیں۔ جوانی سے بڑھاپے تک رفاقت کا حق ادا کرتی ہوئی ایک افسردگی کی جانب اشارے کے سوا میاں نظیر مجموعی طور پر مطمئن، قانع اور شاد کام نظر آتے ہیں۔ رہا ذہنی واردات اور تجربوں کا معاملہ تو نظیر نے انہیں قابل ذکر نہ سمجھا کہ یہ ان کے نزدیک شاید کوئی بڑی بات نہ تھی۔


میاں نظیر یہ بھید پا گئے تھے کہ زندگی کی دلچسپیوں کو اپنا آسیب بنائے بغیر کچھ خوش وقتی اور دل لگی کی فضا میں بھلے مانسوں کی زندگی گزار دینا بھی بجائے خود ایسی گئی گزری بات نہیں کہ کسی اور بات کی تمنا کی جائے۔ وہ اس آدمی کی داستان سناتے ہیں جو محیر العقول قوتوں کا مالک یا کسی عظیم الشان منصب کا امین نہیں، پھر بھی اس قصے کا مرکزی کردار ہے ؛جو خوشی و ناخوشی، نعمتوں کی فراوانی اور ان کے فقدان، میلوں ٹھیلوں کی چہل پہل، اور ’’ہنس نامہ‘‘ کے بیچارے ہنس کی مانند تنہا اور ملول آدمی کی افسردگی، جرائم اور نیکیوں، قہقہوں آنسوؤں سے لبا لب بھری ہوئی دنیا کا مستقل اور کلیدی حوالہ ہے۔ یہ آدمی اپنی ذات کو دنیا ناپنے کا پیمانہ نہیں بناتا بلکہ دنیا سے اپنے روابط اور دوستانہ و حریفانہ رشتوں کی روشنی میں خود کو جانتا اور اپنی ہستی کے رمز کو پہچانتا ہے۔


یہ آدمی چاہے نمازی اور قرآن خواں ہویا مسجد میں نمازیوں کی جوتیاں چرانے والا، نعمتو ں کا مالک و مختار ہو یا ٹکڑ گدا، اپنی دونوں صورتوں میں ایک سی قدر و توجہ کا مستحق اور ہم مرتبہ ہے۔ نظیر نہ ایک سے مرعوب ہوتے ہیں نہ دوسرے کو حقیر گردانتے ہیں۔ ’’سو ہے وہ بھی آدمی‘‘ کے بار بار دوہرائے جانے والے وظیفے میں میں ہر چند کہ اندھیرے اور اجالے نیز حرماں نصیبی اور خوش بختی کے ایک دوسرے سے متصادم موڑ سامنے آتے ہیں لیکن ہر موڑ پر دیدکا نقطہ آدمی ہی بنتا ہے۔


نظیر اپنے داخلی نظم و ضبط کو برقرار رکھتے ہوئے اس آدمی کے ساتھ اس کی زمین کے تمام جلووں کا نظارہ کرتے ہیں کہ ان کے لئے ہر وہ حقیقت جو اس زمین پر موجود ہے، اپنے معنوی تضادات، اختلافات اور درجات کے فرق کے باوجود، یکساں قیمت اور قدر کی حامل ہے۔ اس میں سے کسی بھی حقیقت کی جانب سے، خواہ سماجی معاشرے اور اخلاقی ضوابط کے اعتبار سے وہ کتنی ہی نا پسندیدہ اور بدوضع کیوں نہ ہو، منہ موڑ لینے کا مطلب یہ ہوگا کہ آدمی اور اس کی حقیقت کا پتہ دینے والی دنیاکی صفات کا ایک دروازہ آنکھوں پر بند ہو گیا۔


اور میاں نظیر چونکہ آنکھوں کے شاعر ہیں اور اپنے مشاہدے کی راہ سے ہوکر حقیقت تک پہنچتے ہیں اس لئے سارے کا سارا منظرنامہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ متحیر اور متجسس یوں نہیں ہوتے کہ اس منظر نامے کے ہرنقش میں انہیں اس کی تکمیل کاکوئی نہ کوئی وسیلہ دکھائی دیتا ہے۔ آدمی اپنی دنیا کے مختلف السمت اور رنگارنگ مظاہر میں اپنی تکمیل کا نشان پاتا ہے اور نظیر رنگوں اور زاویوں کے اس ہجوم میں آدمی کا خاکہ مکمل کرتے ہیں۔ حسرت ان باتوں پر ہوتی ہے جو انہونی ہوں اور جستجو ان باتوں کی کی جاتی ہے جو ان دیکھی ہوں۔ نظیر کے لئے سب کچھ دیکھا بھالا ہے کہ وہ آدمی کو دیکھ رہے تھے، اس کے مختلف لمحوں، رنگوں اور تجربوں میں، اورمطمئن یوں تھے کہ ہر لمحہ، رنگ اور تجربہ ان کے آدمی نامے کی کسی نہ کسی نئی جہت کو روشن کرنے کا ذریعہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نظیر کی شاعری میں ایک نوع کی حسی، جذباتی اور بصری مساوات کا رنگ بہت نمایاں ہے۔ اس مساوات کی حدیں ان کے مشاہدے سے ان کے فکری تجربے تک اوراس تجربے سے ان کے لسانی مزاج تک چار سو پھیلی ہوئی ہیں۔


نظیر کے کلیات کو ایک سفرنامہ سمجھ کر پڑھا جائے یا مظاہر کے ایک غیر رسمی اور مصنوعی تنظیم و ترتیب سے عاری ڈرامے کے طورپر، ان کا سب سے دلچسپ کردار خود ہر سمت اپنی ہی منزل تک لے جاتا ہے، سو وہ راستے کی ہر شادمانی اور ہر صعوبت کو ایک سی خوش دلی کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ وہ بازاروں سے اس لئے نہیں گزرتا کہ اسے کسی شے کی طلب یا خریداری کی ہوس ہے۔ وہ دلچسپی کے ساتھ ہرشے کو دیکھتا ہے، ہر رنگ کی سیر کرتا ہے کہ یہ سیر بجائے خود کچھ کم معنی خیز اور دل فریب نہیں، پر وہ کاندھے پر اتنا بار بھی نہیں ڈالنا چاہتا کہ سفر کی اگلی راہیں اس کے لئے مصیبت بن جائیں۔


رہی وہ افسردگی جس کے ساتھ نظیر کی جوانی بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچی، تو یہ نظیر کے اس ادراک کی دین ہے جس میں کھلنڈرے پن کے ساتھ ساتھ سنجیدگی بھی سموئی ہوئی ہے۔ یہ افسردگی نتیجہ ہے، ہر تماشے کے انجام سے باخبری کا۔ میاں نظیر، صاحب نظر تو تھے ہی لیکن ان کی رسائی خبر تک بھی تھی۔