مٹی کی صراحی ہے
مٹی کی صراحی ہے
پانی کی گواہی ہے
عشاق نہیں ہم لوگ
پر رنگ تو کاہی ہے
ہر غنچۂ لب درباں
ہر شاخ سپاہی ہے
سبزے پہ کھنچا نقشہ
اور سرخ سیاہی ہے
اک سانولی پت جھڑ کے
پشتے پہ تباہی ہے
ادھڑی ہوئی قبروں پر
کتبوں کی مناہی ہے
اے کانچ کی سی پنڈلی
یہ شہر سبا ہی ہے