مثل رقص شرر نہیں آتی

مثل رقص شرر نہیں آتی
زندگی لوٹ کر نہیں آتی


دل دہی کا تو کوئی ساماں کر
دل ربائی اگر نہیں آتی


ہجر میں موت ڈھونڈھنے والے
ایسی شب کی سحر نہیں آتی


دل کو دے کر فریب شوق و طلب
اب تمنا نظر نہیں آتی


یہ طبیعت ہے حضرت ناصح
یہ سمجھ سوچ کر نہیں آتی


عالم بے دلی سے بھی یا رب
دل کی کوئی خبر نہیں آتی


درد دل میں اگر نہ ہو ہم دم
شاعری عمر بھر نہیں آتی


آدمی ٹھوکریں نہ کھائے اگر
زندگی راہ پر نہیں آتی


راس آتی نہیں اگر تدبیر
موت کیوں چارہ گر نہیں آتی


اپنی حالت اگر میں خود نہ کہوں
کیا انہیں بھی نظر نہیں آتی


تم کو آتے ہیں سب جفا و جور
اک وفا ہی مگر نہیں آتی


جس نظر سے وہ دیکھتے تھے کبھی
وہ نظر اب نظر نہیں آتی


وائے اس زندگی کی محرومی
موت بھی عمر بھر نہیں آتی


آہ وہ آرزوئے دل ساحرؔ
تا قیامت جو بر نہیں آتی