میرزا یگانہ
یگانہ کی شاعری سے اٹھنے والے ہر سوال کا جواب ان کی شخصیت فراہم کرتی ہے۔ چنانچہ ان کی شاعری کا کوئی بھی مطالعہ، شخصیت کے مطالعے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ جب شاعر کا پورا وجود ہی اس کا تجربہ بن جائے اور یہ تجربہ بھی اپنی کلیت کے ساتھ قاری کو متوجہ کرنے کی سکت رکھتا ہو تو تنقید کے لئے ایک آزمائش کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ یہ طے کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس نقطے سے شاعری کا قصہ شروع کیا جائے اور کس مقام پر شخصیت کے مسائل سے الجھا جائے۔
یگانہ نے روپوشی کی کوئی کوشش نہ تو شعوری سطح پر کی نہ غیر شعوری سطح پر۔ ان کی شاعری کا محاکمہ چاہے اردو کی شعری روایت کے پس منظر میں کیا جائے یا اس عہد کے پس منظر میں جس سے یگانہ متعلق رہے۔ دونوں صورتوں میں ان کی شخصیت ہمارے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ یگانہ کی شاعری کی طرح یہ شخصیت بھی مبہم، پیچیدہ اور استعجاب آمیز نہیں ہے۔ مگر یہ ایک توانا، بھرپور اور معین شخصیت ہے، ایک طرح کی ذہنی اور جذباتی سخت کوشی کی پروردہ اور پتھر جیسی سخت اور بےلوچ۔ اپنے باطن کی تمازت سے یہ پتھر پگھلتا تو ہے مگر بکھرنے نہیں پاتا۔ ہم نہ تو اس شخصیت کو ٹکڑوں میں تقسیم کر سکتے ہیں، نہ اپنے ادبی مذاق اور ذہنی ضرورتوں کے مطابق اسے کوئی من مانی شکل دے سکتے ہیں۔ تھکن اور اضمحلال کے لمحوں میں بھی یہ شخصیت ایک انفرادی سطح پر ہم سے کلام کرتی ہے اور ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم اس کی شرطوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کی تفہیم و تجزیے کا عمل اختیار کریں۔
شخصی اور تخلیقی سطح پر میرزا یگانہ نے خاصی گرد اڑائی ہے۔ اسی لئے اپنے تعصبات اور ترجیحات سے یکسر آزاد ہوکر انہیں سمجھنا سہل نہیں ہے۔ تاہم کئی موقعوں پر یگانہ نے اس قسم کے بیانات بھی دیے ہیں کہ ان کی ’’حقیقتِ فلسفہ کوئی پیچیدہ گرہ نہیں بلکہ سیدھی سادی زندگی ہے۔‘‘ یا یہ کہ ان کا ’’کلام ان کی زندگی کے عین مطابق ہے۔‘‘ ہرچند کہ اسی کے ساتھ ساتھ یگانہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’شاعری (اپنے صحیح معنوں میں) دراصل تخیل کا نام ہے۔‘‘، ’’شاعری محض ذوقی وجدانی چیز ہے۔‘‘ محاکات اور تخئیل یہ دونوں چیزیں شاعری کے اصلی عناصر ہیں (چراغ سخن) لیکن اس سے یگانہ کے بنیادی موقف اور ان کی شاعری سے شخصیت کے انسلاکات کی نفی نہیں ہوتی۔
بہ ظاہر ان تعریفات میں شبلی کے تصور شعر کی گونج صاف سنائی دیتی ہے اور ان پر نظر ڈالتے وقت گمان ہوتا ہے کہ یگانہ کو میر سے جو خصوصی ربط تھا وہ بے سبب نہیں تھا۔ اس ربط کی تائید یگانہ کے اپنے تصور شعر سے قطع نظر بعض شخصی رویوں سے بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ غلط فہمی عام ہے کہ یگانہ میر کی قبیل کے شاعر ہیں اور میر کی جیسی داخلیت اور دروں بینی کو مطلوب ہنر جانتے ہیں۔ مگریہ تاثر یگانہ کے بیانات کو بے چوں و چرا تسلیم کر لینے کا نتیجہ ہے، اسی لئے اپنے آخری تجزیے میں غلط بھی ٹھہرتا ہے۔ یگانہ لاکھ میر پرست سہی، اپنی شاعری اور شخصیت کے غالب میلانات کے اعتبار سے وہ ایک مختلف وجود رکھتے تھے۔ اس کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ یگانہ کی شاعری اسرار کے اس قیمتی عنصر سے یکسر عاری ہے جومیر صاحب کا وصف خاص ہے۔ یہی عنصر میر کے سخن کو تعینات کی ان حدوں سے آگے لے جاتا ہے اور اس مقام تک پہنچاتا ہے جہاں تعقل پر حسیات کی بالادستی صاف عیاں ہے۔
جہاں تخلیقی تجربہ شاعر کی ذات اور طبیعی کائنات، دونوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے اور ایک نودریافت سچائی نیز نوترتیب کا ئنات کا اشاریہ بن جاتا ہے۔ جہاں عمومیت اختصاص کا اور معمولی پن عظمت کا رنگ اختیار کر لیتا ہے۔ آیات وجدانی میں یگانہ کے یہ جملے کہ ’’سب سے بڑا اصول تنقید یہ ہے کہ شعر مقتضائے حال یعنی زندگی کے مطابق ہے کہ نہیں۔‘‘ اوریہ کہ ’’شاعر حقائق پر شاعرانہ قدرت کے ساتھ تصرف کرکے سامعین کو آگاہ و محظوظ کرتا ہے، برخلاف اس کے ناشاعر ان ہونی باتوں میں الجھاکر لوگوں کو اچنبھے میں ڈال دیتا ہے۔‘‘ یگانہ کو میر سے دور لے جاتے ہیں۔ یہ جملے یگانہ کے اسی بنیادی موقف کی توسیع ہیں کہ ان کی زندگی اورشاعری، دونوں کاعمل، دونوں کے منہاج و مقاصد ایک ہیں۔ خمیر ایک ہے۔ ان کی ترکیب اجزا اور خطوط ایک ہیں اور یکساں طور پر اس مادی فشار کے تابع جس سے یگانہ تاحیات دو چار رہے۔
یگانہ کی زندگی اور شاعری دونوں کا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے سچائی کے ان دائروں کو خود مکتفی نہیں ہونے دیا۔ ایک سے دوسرے کی تکمیل کے جو یار ہے۔ ان دونوں سچائیوں کو ایک ہی سطح پر برتنے بلکہ باہم دگر ایک کرنے کی کوشش میں مصروف رہے اور دونوں کو ایک دوسرے کا مقروض بنائے رکھا۔ اگر یہ زندگی اوسطیت کا شکار عام زندگیوں کی طرح کسی بڑے ہیجان سے عاری، آسودہ کام اور محفوظ ہوتی تو یگانہ کا مقدر بھی کچھ اور ہوتا۔ ایسی صورت میں یگانہ بھی اپنے ہم عصروں کی طرح عافیت کوشی کے سائبان میں گزر کرتے اور چپ چاپ ہماری شعری تاریخ کے قصے میں شامل ہو گئے ہوتے۔ نہ زمانے سے ان بن ہوتی، نہ اپنے دور کے مرغوب اور مروج تنقیدی رویوں سے۔
فانی، اصغر، حسرت، سیماب، عزیز، جگر کے ذہنی، جذباتی اور عملی تجربات جو بھی رہے ہوں، ادب اور سماج میں ان کا انجام بخیر رہا۔ لیکن یگانہ کی زندگی، اپنی سادگی کے باوجود جینے کا اور ان کی شاعری سوچنے کا ایک نیا ضابطہ تھی، اپنے عہد کے تمام مسلمہ اسالیب سے پیکار پر آمادہ اور پرشور۔ یگانہ کے جینے اور سوچنے کا اسلوب محض اپنی انفرادیت کے بل پر اس عہد کے اسالیب سے ممیز نہیں ہوتا۔ مانا کہ انفرادیت بڑی چیز ہے مگر اس کے مراحل آسان بھی ہو سکتے ہیں۔ کسی خاص وضع پر اصرار اور ایک ہی تجربے کی تکرار بھی بڑی آسانی سے انفرادیت کا تمغہ جیت لاتی ہے۔ یگانہ کی انفرادیت صرف اجتماع سے الگ زندگی اور فکر کا ایک مختلف محاورہ نہیں تھی جو ذرا اسی مشق کے بعد زبان پر چڑھ جائے، بلکہ ایک مسلسل جدوجہد اور آویزش اور آزمائش کا صلہ تھی۔ یگانہ کی زندگی اور شاعری کو اس صلے کی خاطر ایک دشت خوابی سے گزرنا پڑا اور خاصی بڑی قیمت ادا کرنی پڑی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یگانہ اپنے افلاس کے باوجود تہی دست نظر نہیں آتے۔ وہ ہر تجربے کا مول اپنی جیب سے چکانے کی استطاعت رکھتے تھے۔
اتلاف ذات اور خود انحصاری کا عمل یگانہ کے یہاں ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ اس کشاکش سے چھٹکارے کاایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ یگانہ سچ مچ صوفی بن گئے ہوتے، جیسا کہ پروفیسر ممتاز حسین نے بہ ہزار کاوش، ان کے اشعار کی ناقص تعبیروں کے واسطے سے انہیں بنانا چاہا ہے۔ یہ فیصلہ صادر کرنے میں ممتاز صاحب نے گھڑی بھر بھی توقف نہ کیا کہ، ’’یگانہ بھی میر کی طرح وحدت الوجودی شاعر ہیں۔ وہ اپنے سے باہر خدا کو ڈھونڈنے کے قائل نہیں اور نہ اس بات کے قائل تھے کہ جزوکل سے الگ ہو سکتا ہے۔ لیکن یگانہ کا یہ وحدت الوجودی تصور ایک غیر شخصی خدا کا تھا۔ وہ خدا کو احساسات کی دسترس سے ماورا تصور کرتے۔ وہ اس کو خواہ تجلی کی صورت میں ہو یا وحدت ذات کی صورت میں، مظاہر فطرت اور انسان میں نہ دیکھ پاتے۔ لہذا ان کا تصور وحدت الوجود محبت بن کر ان کے دل میں اتر نہ پاتا۔‘‘
اسی مضمون (بعنوان یگانہ فن مشمولہ ادب، کراچی شمارہ ۲) میں آگے چل کر ممتاز حسین وحدت الوجود کی تشریح بھی فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ،
’’وحدت الوجودی صوفیوں کے بار ے میں یہ اعتراض عام طور سے کیا جاتا رہا ہے کہ جب سب کچھ وہی ہے اور خدا سے باہر کوئی شے نہیں تو پھر نہ کچھ شر ہے اور نہ فساد۔ زندگی میں ہر چیز کی آزادی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ بعض شعرا نے فلسفہ وحدت الوجود کے تحت ایک قسم کی آزادی بعض ایسے امور میں برتی ہے جس پر شریعت نکتہ چیں رہی۔ مثلا ًسماع اور نشے کی حرمت۔ لیکن اس آزادی سے ان کے کردار کے تنزیہی پہلو میں کوئی نقص واقع نہیں ہوا ہے۔ میر ایک وحدت الوجودی شاعر تھے۔‘‘
چلئے، قصہ ختم۔ میر بھی وحدت الوجودی، یگانہ بھی وحدت الوجودی۔ اس محاذ پر دونوں کا حشر برابر رہا۔ ممتاز حسین پھر بھی مطمئن نہیں ہوتے اور دوبارہ یگانہ کی طرف پلٹتے ہیں، اس فرمان کے ساتھ کہ، ’’وہ ’یاد خدا‘ جو طمع خام سے آزاد ہو اور وہ نماز جو بے نیاز اجر ہو، یگانہ اسی یاد خدا اور نماز کے قائل تھے۔ اس سے ان کی زندگی میں جو تنز یہی اور تجریدی پہلو نکلتا ہے، وہی ان کے ضمیر ملامت شعار کی بھی وضاحت کرتا ہے۔ یگانہ ایک شاعر تھے اور عام طور سے شاعر کی زندگی دلدادہ لذت حیات کی زندگی ہوتی ہے۔ لیکن یگانہ نے تکمیل کردار کے پیش نظر بہت سی لذتوں کو اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
ان اقتباس کی جانب سے توجہ دلانے کا مقصد اس امرکی وضاحت تھی کہ یگانہ جیسا شخص، جس نے زمانے سے ہارنہ مانی، تنقید کے میدان میں کتنی سہولت کے ساتھ پسپا کیا جا سکتا ہے اور نقاد کے ہاتھ میں اپنے پسندیدہ موضوع یا تصور کا سرا ایک بار آ جائے تو اس کی خوش فعلیاں کہاں پہنچ کر دم لیتی ہیں۔ یگانہ کے سلسلے میں ہماری تنقید، خواہ مثبت رہی ہو یا منفی، حسب روایت ایک اندوہناک ذہنی تساہل کا شکار رہی ہے۔ ممتاز حسین تو خیر وحدت الوجود اور یگانہ دونوں کے ساتھ ایک سی زیادتی کے مرتکب ہوئے ہیں، وہ حضرات بھی جنہوں نے یگانہ سے بے نیازی اور ان کے ساتھ زیادتیوں کے جواب میں یگانہ کے دفاع پر زور آزمایا، بالعموم یگانہ کو اس تناظر میں دیکھنے سے قاصر رہے ہیں جس کا تقاضہ یگانہ کی شاعری کرتی ہے۔ اس تناظر کی شناخت مشکل نہیں تھی کیونکہ یگانہ کی شاعری اور شخصیت دونوں کے مطالبات بہت واضح ہیں۔
ان کی زندگی جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا، اپنے شور شرابے کے باوجود پیچیدہ نہیں تھی۔ اس زندگی کے ہیجانات مہیب اور اس کے تصادمات شدید تھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ دو ٹوک بھی تھے۔ یہ زندگی اپنے ہر زاویے کی ایک منطق رکھتی تھی اور ہر ضابطے کی ایک دلیل۔ ہم اس منطق کو قبول کریں یا مسترد کریں۔ اسے ناقابل فہم اور بے نام کہہ کر ٹال نہیں سکتے۔ اسی طرح یگانہ کی فکر بھی ان کے مزاج کی سرکشی اور تندی کے سبب، ایسے ایقانات کی صورت سامنے آئی جو اپنا اظہار بے کم و کاست کرتے ہیں اور اپنے بارے میں کسی شک اور قیاس کی گنجائش نہیں چھوڑتے۔ یگانہ بآواز بلند سوچنے کے عادی تھے۔ یہ بلند آہنگی ان کے شعر کی داخلی ہیئت کا حصہ ہے۔ ان کی فکر کو یہ محدود تو کرتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ روشن بھی کرتی جاتی ہے۔ اس فکر سے جس کا ظہور ہوا ہے اس میں نہ تو فکری دھند کا سماں ہے نہ کسی جذباتی مغالطے کا۔ ہر واردات اس فضا سے باہر جھانکتی دکھائی دیتی ہے۔
یگانہ اپنی ذات کی طرح اپنے ماحول کی بابت بھی کسی سجاوٹ یا فریب کے روادار نہیں تھے، یہاں تک کہ اس فریب کے بھی نہیں جو فن پارے کو منطقی مغالطے کی صورت دیتا ہے اور ذرا سی بات کو معجزہ بناتا ہے یا تخلیقی نظر کی خودکاری میں اپنا جواز پاتا ہے۔ اسی لئے میں نے یہ عرض کیا تھا کہ یگانہ میر سے وابستگی کے باوجو دمیر سے بہت مختلف اور بہت دور ہیں۔ دونوں کے نظام اقدار میں مماثلت کے چند پہلو ضرور ملتے ہیں کہ دونوں ایک فردکش معاشرے کا ہدف تھے۔ دونوں اپنی شرائط پر زندگی گزارنے کی تمنائی تھے اور عمر کا سارا سفر اپنے باطن کے نور میں طے کرنا چاہتے تھے۔ دونوں کے یہاں انا کے اثبات کی حیثیت ایک اخلاقی احتیاج کی تھی۔ دونوں کا تعلق اپنے عہد سے حریفانہ رہا۔ دونوں غوغائے سگاں سے بیزار اور اس دارالامان کے طلبگار تھے جہاں اپنی آواز کا علم سرنگوں نہ ہو، لیکن اس معرکے میں دونوں کی شمولیت الگ الگ خطوط پر ہوئی۔
میر کے یہاں ساری پیکار داخلی ہے۔ یگانہ عملا بھی نبرد آزما رہے۔ میر جتنا کچھ محسوس کرتے ہیں اس کے اظہار میں نظم و ضبط اور رکھ رکھاؤ کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یگانہ کو اس ضبط کی مہلت ہی نہیں ملی۔ میربے بس ہوتے ہیں تو چپ سادھ لیتے ہیں یا اداسی کی زبان میں بات کرتے ہیں، میں میر کچھ کہا نہیں اپنی زبان سے۔ یگانہ بےچارگی کے عالم میں جھلاتے اور اول فول بکنے لگتے ہیں۔ میر کی اپنی ہستی اور ان کے معاشرے میں اختلافات کو سہارنے کی طاقت زیادہ تھی۔ جہاں دونوں کی راہ الگ ہوئی، اس موڑ پر میر اور ان کا معاشرہ دونوں اپنے اپنے طور پر زندہ رہنے کا سامان مہیا کر سکتے تھے۔ یگانہ اس لحاظ سے کم نصیب تھے کہ ان کا دور بھی دھیرے دھیرے ابتری کے ایک طوفان کی سمت بڑھ رہا تھا اور خود یگانہ کو بھی سنبھلنے اور سکون کا سانس لینے کے مواقع کم ملے۔
سچ تو یہ ہے کہ زمانے نے یگانہ کو ایسا لجھا دیا کہ وہ اپنے زخموں کا مداوا ڈھونڈنے اور اپنے آشوب کا معروضی تجزیہ کرنے پر دھیان نہ دے سکے۔ ان کی آواز میں بعض اوقات چیخ کا اور ردعمل میں عدم توازن کا تاثر اسی لئے ابھرا ہے کہ وہ اپنے تجربات کا محاسبہ کرنے، ان کا مفہوم متعین کرنے اور اپنی ذات سے وہ غیرجذباتی فاصلہ قائم کرنے میں بڑی حد تک ناکام رہے جو بڑی شاعری کا لازمہ ہے۔
یاس سے یگانہ تک ہمیں جو سلسلہ دکھائی دیتا ہے وہ کہیں ٹوٹتا نہیں۔ چنانچہ مجنوں صاحب یا بعض دوسرے ناقدین کا یہ خیال کہ مرزا واجد حسین کو یگانہ بننے کے لئے یاس سے قطع تعلق کرنا پڑا، صحیح نہیں ہے۔ شخصیتیں کیلنڈر کی مثال نہیں ہوتیں، جس کا ایک ورق الگ کرکے گزشتہ کو حال اور آئندہ سے منہا کر دیا جائے۔ وہ زمانہ جو انسان کے اندر سانس لیتا ہے ماضی کو بھی موجود بنائے رکھنے پر قادر ہوتا ہے۔ یگانہ کی آخری برسوں کی شاعری بھی، جب وہ ایک گہرے اعصابی تشنج سے دو چار تھے، ہمیں یاس کا چہرہ دکھاتی ہے۔ جابجا ایسی مثالیں نظر آتی ہیں جن میں جذباتی غلو اور ذہنی انتہاپسندی کی جگہ وہی ٹھہراؤ، دھیماپن اور نغمگی ملتی ہے جس سے یگانہ کے ابتدائی ادوار کی شاعری مالامال تھی،
لے چلی وحشت دل کھینچ کے صحرا کی طرف
ٹھنڈی ٹھنڈی جو ہوا آئی بیانوں سے
اب اپنے ختم سفر میں کچھ ایسی دیرنہیں
جو دیر ہے تو فقط تھک کے بیٹھ جانے کی
دلیل راہ دلِ شب چراغ بے تنہا
بلند وپست میں گزری ہے جستجو کرتے
اپنا گھر اپنی زمیں اپنا فلک بیگانہ
آشنا کوئی بجز سایہ دیوار نہیں
بڑھتے بڑھتے اپنی حدسے بڑھ چلا دست ہوس
گھٹتے گھٹتے ایک دن دست دعا ہو جائےگا
کاش اپنی روح خانہ تن سے نکل سکے
زندان آب وگل کوئی راحت کا گھر نہیں
گناہ گار ہوں پھر بھی وہ دل دیا تونے
تری جناب میں پہنچوں تو تھرتھری نہ لگے
خانہ دل میں بھری ہیں جانے کیا کیا دولتیں
قفل خاموشی مرے گھر کا نگہباں کیوں نہ ہو
ان اشعار کا مجموعی ماحول اداسی اور تنہائی کے ایک متین احساس سے بھرا ہوا ہے۔ یگانہ کے یہاں ایسے اشعار کی تعداد کم نہیں ہے لیکن ان کی تندخوئی کا چرچا ضرورت سے کچھ زیادہ ہوا۔ یہاں تک کہ یگانہ کی پہچان ایک مخصوص وضع کے اشعار کی پابند ہو گئی۔ اپنے معاصرین کے برعکس یگانہ کسی ایک اسلوب کے بجائے دراصل کئی اسالیب کے شاعر تھے۔ بے ساختہ اور سادہ کار بھی اور پینترے باز بھی، ثقہ بھی اور غیرثقہ بھی،
کس مزے سے ہیں بیویوں والے
عیش کرتے ہیں روز مرہ ادھار
آگئی چھینک رک گیا پیشاب
پھر بھی انساں ہے فاعل مختار
جیسے شعر جو ظفر اقبال کی یاد دلاتے ہیں اور جن میں ’’اینٹی غزل‘‘ کا سراغ ملتا ہے، اسی مجموعی ذہنی کا ماحول کا حصہ ہے جو یگانہ کی شخصیت کی طرح بلندوپست یا مزاح اور سنجیدگی کی خانہ بندی سے ماورا اور آزاد ہے اور زندگی کو اس کے تضادات کے ساتھ ایک اکائی کے طور پر برتنے نیز زندگی کو اس کے تمام رنگوں سمیت قبول کرنے کا عادی ہو چلا ہے۔ اس سے ایک طرف یگانہ کی خود اعتمادی ظاہر ہوتی ہے، دوسری طرف یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ وہ بیک وقت کئی سطحوں پر سوچنے، محسوس کرنے اور اپنے تجربوں کو دریافت کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے۔ جو بات ان کی حسیت کو ایک مرکز پر سمیٹتی ہے وہ ان کا شخصی حوالہ ہے۔ اس شخصی حوالے نے یگانہ کو انتشار سے اور ان کی شاعری کو حواس کی ابتری سے بچائے رکھا۔ بکھراؤ کے باوجود ترتیب کا تاثر محفوظ رہتا ہے اور یگانہ ایک ساتھ کئی واسطوں سے اپنے تعارف پر قادر نظر آتے ہیں۔ ان کے یہ اشعار،
منم کہ آئنہ حق نما برائے خودم
منم کہ مشترئی جنس بے بہائے خودم
منم کہ چارہ گر و درد آشنائے خودم
منم کہ درد خدا دادم و دوائے خودم
منم کہ سرنمی آرم بہ سجدہ ناحق
منم کہ در رہ ِحق محوِ نقشِ پائے خودم
منم کی منتظر انقلاب می باشم
منم کہ سلسلہ جنبان غم برائے خودم
منم کہ منزل مقصود زیر پا دارم
شکستہ پایم و تاہم بہ مدعائے خودم
قدم زغم کدہ خود چہ می نہم بیروں
گدائے خاک نشینم و من خبر نہ شدم
ہزار فتنہ بپا گشت و من خبر نہ شدم
ہزار کوہ شد از جا ومن بجائے خودم
زمانے سے نبرد آزما اور اپنے آپ میں سمٹے ہوئے اس فرد کا اعمال نامہ ہیں جس کا وجود بجائے خود ایک کائنات ہے، صدشیوہ وصدرنگ اور ہزار کثرتوں پر محیط ایک کل جس کے حصے بخرے نہیں کئے جا سکتے۔ اسے ہم اس شخص کی روداد کہہ سکتے ہیں جو ہزیمتوں سے دو چار ہونے کے باوجود اپنے جز پڑھتا رہتا ہے۔ جو اپنی مجبوریوں میں بھی خود مختار ہے اور اپنے قیود میں بھی آزاد۔ تماشہ اور تماشائی، دونوں کا عکس یہاں ایک آئینے میں سمٹ آیا ہے۔ یگانہ ایک الم آلود احساس کے ساتھ یہاں اپنے آپ پر نظر ڈالتے ہیں اور تعلق میں بھی لاتعلقی کی ایک ایسی راہ نکالنے میں کامیا ب دکھائی دیتے ہیں جو ان کی فکر کو اپنے عرض اور اپنے جوہر دونوں کا ترجمان بناتی ہے۔ سب سے زیادہ قابل توجہ پہلو ان اشعار کا اعترافی آہنگ ہے۔ اپنے جلال آمیز آہنگ کے سبب یہ آہنگ ایک ایسے فرد کی تصویر سامنے لاتا ہے جو بقول روسو آزاد پیدا ہوا تھا، مگر بہت سی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
یہ اعترافات اس کے مقدر کا اظہار بھی ہیں اوراس مقدر میں چھپی ہوئی توانائی اور امکان کی تفسیر بھی۔ یہ بیان ہے اس روحانی وادات کا جو اپنے گردوپیش اور جسمانی سطح پر اپنے آشوب کے ارتعاشات سے ہم کنار کرتی ہے۔ یہاں زندگی بجائے خود شاعری بن گئی ہے اور ایک تحت الارض نغماتی رو کے وسیلے سے ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دانش اور آگہی کا عمل غیر نثری اور تخلیقی بھی ہو سکتا ہے، بشرطیکہ ا س عمل کی پرداخت ایک سچی جذباتی اور حسیاتی سطح پر کی گئی ہو۔ یہاں گیان اور دھیان میں کوئی دوئی نہیں رہ گئی ہے اور ایک ایسے بسیط تجربے کا خاکہ تیار ہوا ہے جسے نہ صرف طبیعی کہا جا سکتا ہے نہ صرف مابعدالطبیعاتی۔ کسی غیبی ارادے یا فوق الانسانی نصب العین کی شمولیت کے بغیر یہاں یگانہ کی خودی ایک کھرے، حقیقت پسندانہ اور عصر آزمودہ تصور میں منتقل ہو گئی ہے۔ یہ تصور اس فکری اسلوب سے بہت قریب ہے جو یگانہ کا دور گزر جانے کے بعد برگ و بار لایا۔
اپنے حال کے پس منظر میں یگانہ تمام و کمال ایک OUTSIDER کی صورت ابھرتے ہیں، ایک ایسے فرد کے طور پر جو کسی محدود اور ضابطہ بند معاشرے کی سنگینی میں بے دست وپائی سے زیادہ اظہار اس تضاد کا کرتا ہے جو اسے اپنے ماحول سے الگ اور بے سکون رکھتا ہے۔ یہ تضاد اس معاشرے کے تناظر میں ایک اخلاقی قدر کا حامل بھی ہے۔
یوں بھی یگانہ کی داستان حیات کے کئی صفحات ان کی شخصیت کے اس رخ سے پردہ اٹھاتے ہیں جو اپنے تمام تر تناسب اور بے ریائی کے باوجود زمانے سے ہم آہنگ نہ ہو سکا اور جس نے بالآٓخر ایک سماجی مسئلے کی حیثیت اختیار کر لی۔ ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ یگانہ سے زیادہ ان کے ماحول کا پیداکردہ تھا۔ یگانہ کی شخصیت کی طرح اس معاملے کی جہتیں بھی بہت واضح ہیں۔ بقول شخصے انفرادی سطح پر سوچ بچار کی عادت رکھنے والا ہر شخص بعض ایسے ’’خطرناک‘‘ رویوں کا محافظ ہوتا ہے جو اس میں اور اس کے ماحول میں ٹکراؤ کی مستقل صورتیں پیدا کر سکتے ہیں۔ بہتوں کے نزدیک فلسفہ و حکمت، اخلاقیات و مذہب اور عزت داری کا ایک سوچا سمجھا قرینہ۔ یہ سب بہانے میں اس ٹکراؤ سے بچنے بچانے کے، دوسرے لفظو ں میں ایک ایسے سچ کو دبانے کے جو اپنی سرشت کے اعتبار سے سرکش اور تندخو ہے اور اپنے مکمل اظہار کے لئے ایک طرح کی ذہنی جنگ جوئی پر مجبور۔ اس سچ کی حفاظت کٹھن تو ہے ہی، خوداپنی ذات کے لئے ہلاکت آفریں بھی ہے۔
ایسا نہیں کہ یگانہ اس رویے کے انجام سے بے خبر رہے ہوں گے۔ یگانہ کے لئے اپنی خرابی اور رسوائی کا ہر مرحلہ ان کی توقع کے عین مطابق تھا۔ وہ اس سے منحرف یوں نہ ہوئے کہ ان میں کسی مصلحت اور سہولت کی خاطر یا کسی خوف کے سبب اپنے آپ کو ترک کر دینے کی ا ہلیت مفقود تھی۔ دوسرے یہ کہ معاشرے سے اس تصادم میں یگانہ اپنی شکست کے منصب کا شعور بھی رکھتے تھے۔ اسی لئے ہر تباہی کے لئے ایک آمادگی ان کے مزاج میں ہمیشہ باقی رہی۔ چہ جائے کہ یگانہ ہار مانتے۔ رفتہ رفتہ شکستوں میں اپنی فتح اور خسارے میں اپنے اخلاقی نفع کی شناخت نے انہیں ضدی اور خودسر بنا دیا۔ ان کی سادیت کا سرچشمہ بھی یہی ضد ہے۔
تقدیر اور جبر کا ایک توانا احساس جو بہ بحیثیت فرد یگانہ کی جان کا دشمن ہے، یگانہ اس سے بیزاری کا اظہار بھولے سے بھی نہیں کرتے۔ یہ احساس انہیں عزیز ہے اور اس کے حوالے سے وہ اپنے آپ کو دریافت کرتے ہیں۔ ہر اس رویے کی ہنسی اڑاتے ہیں جسے ان کے معاشرے میں قبولیت ملی۔ غالب، اقبال، فانی، اصغر، جگر سے لے کر ترقی پسندی اور آزاد نظم تک یگانہ کے تمام محاربات اسی نقطے کے گرد گھومتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ یگانہ کو ہر معاملے میں حرف آخر کہنے کا شوق خبط کی حد تک تھا۔ وہ بڑی آسانی سے اپنے ہر عمل کا من مانا نتیجہ مقرر کر لیتے تھے۔ اپنی جگہ جو یگانہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ، ’’آج کل میں ’ادب خبیث‘ کے عنوان سے میرا مضمون نکلا ہے، اس میں بلینک ورس کی بحث ختم کر دی گئی ہے۔ اب اس پر کوئی معقول بحث نہیں ہو سکتی۔ ڈھٹائی کی بات اور ہے۔‘‘ (مکتوب بنام دوارکا پرساد شعلہ، ۲۳ اکتوبر۵۴)
تو یہ ان کی سادہ لوحی اور اسی خبط کا اظہار ہے۔ ہرچند کہ سردار جعفری نے بھی بلینک ورس کے سلسلہ میں یگانہ کے اسی تاثر کی ہم نوائی کی تھی مگر یگانہ کے یہاں اس کے اسباب فکری کم، نفسیاتی زیادہ تھے۔ اور ان کے مزاج کی اسی موج کے ترجمان جس نے یگانہ کو ہر معروف اور مروج رویے کا مخالف بنا دیا تھا۔
اتنا ضرور ہے کہ یگانہ کے لہجہ میں جو جارحیت ملتی ہے، اسے ان کی تند خوئی کے ساتھ ساتھ کہنہ سال شعری ضابطوں کی طرف بے اطمینانی اور ان کی جگہ ایک نئی بو طیقا کی تشکیل کے حوالے سے بھی دیکھنا چاہئے۔ یہ تو نہیں ہوا کہ یگانہ نے اظہار کے پرانے اسالیب سے خود کو یکسر الگ کر لیا ہو۔ متحرک اور نو دریافت استعاروں سے زیادہ بیان کے خوابیدہ اور مستحضر سانچوں مثلاً محاورات اور ضرب الامثال سے یگانہ کی دلچسپی ایک طرف ان کی روایت شناسی اور لسانی عادات کی جانب اشارہ کرتی ہے، دوسری طرف یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ یگانہ اپنے دور کی مانوس زبان میں اپنے ہم چشموں سے خطاب کرنا چاہتے تھے۔ پھبتی، فقرے بازی، طنز اور تضحیک کی طاقت سب سے زیادہ یگانہ کے ایسے ہی اشعار میں ظاہر ہوئی ہے جہاں وہ اپنے زمانے کے مقبول شاعروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے شعروں میں معنی کی جہتیں بہت دو ٹوک ہیں اور کسی بڑے تخلیقی رمز اور ریاضت کی خبر نہیں دیتیں، سوائے اس کے کہ یگانہ حشو و زوائد سے گریز کی ایک شعوری کوشش اور ادائے مطلب میں ارتکاز کی شدت کو اپنا مقصود بناتے ہیں۔
شاید اسی لئے یگانہ کی رباعیاں اس نوع کے اشعار کی بہ نسبت زیادہ مؤثر اور تابناک ہیں کہ رباعی کی مخصوص ہئیت نثر زدہ مفاہیم کو سمیٹنے اور نپے تلے انداز میں ان مفاہیم کی ادائیگی کو آسان کرتی ہے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یگانہ نے اسی مانوس مظہر میں اس بوطیقا کو ڈھوند نکالا جسے وہ یگانہ آرٹ کی بنیاد سمجھتے تھے اور جو بعضوں کے نزدیک غزل کے تما م مانوس اسالیب کی تردید کے طور پر سامنے آئی۔ یگانہ اپنی روایت شناسی کے بیچ سے اپنا راستہ آپ نکالتے ہیں اور غزل کو اسی راستے پر لے جانا چاہتے ہیں۔
اس راستے میں میر اور آتش کی پرچھائیاں بس پل دو پل ساتھ چلتی ہیں۔ یگانہ ایک نئے تیور کے ساتھ سامنے آتے ہیں، اپنے معاصرین کی عام روش، ان کی آرائش، تصنع، نسوانیت، کلبیت، نازک خیالی اور دقت طلبی کی جگہ اونچے، مردانہ سرو ں میں بات کرتے ہوئے۔ یگانہ کی بوطیقانفاست و نرمی کے بجائے کھردرے پن اور سخت کوشی کے واسطے سے غزل کی عام روایت کے بالمقابل ایک نئی روایت کا حرف آغاز بنتی ہے۔ اس نقطے پر وہ اپنے معاصرین میں سب سے الگ دکھائی دیتے ہیں، زمانے کی طرح اپنے تخلیقی تجربے کی حشرگاہ میں بھی ایک دم اکیلے، معتوب روزگار، مگراپنے آپ سے مطمئن اور اپنے انجام سے بے پروا۔