مرزا کے اخلاق و عادات و خیالات

مرزا کے اخلاق نہایت وسیع تھے۔ وہ ہر شخص سے جوان سے ملنے جاتا تھا بہت کشادہ پیشانی سے ملتے تھے۔ جو شخص ایک دفعہ ان سے مل آتا تھا اس کو ہمیشہ ان سے ملنے کا اشتیاق رہتا تھا۔ دوستوں کو دیکھ کر وہ باغ باغ ہو جاتے تھے اور ان کی خوشی سے خوش اور ان کے غم سے غمگین ہوتے تھے۔ اس لئے ان کے دوست ہر ملت اور ہر مذہب کے نہ صرف دہلی میں بلکہ تمام ہندوستان میں بے شمار تھے۔ جو خطوط انہوں نے اپنے دوستوں کو لکھے ہیں ان کے ایک ایک حرف سے مہر و محبت، غم خواری ویگانگت ٹپکتی پڑتی ہے۔ ہر ایک خط کا جواب لکھنا وہ اپنے ذمہ فرض عین سمجھتے تھے۔ ان کا بہت سا وقت دوستوں کے خطوط کے جواب لکھنے میں صرف ہوتا تھا۔ بیماری اور تکلیف کی حالت میں بھی وہ خطوط کے جواب لکھنے سے باز نہ آتے تھے۔


وہ دوستوں کی فرمائش سے کبھی تنگ دل نہ ہوتے تھے۔ غزلوں کی اصلاح کے سوا اور طرح طرح کی فرمائشیں ان کے بعض خالص و مخلص دوست کرتے تھے اور وہ ان کی تعمیل کرتے تھے۔ لوگ ان کو اکثر بیرنگ خط بھیجتے تھے، مگر ان کو کبھی ناگوار نہ گزرتا تھا۔ اگر کوئی شخص لفافے میں ٹکٹ رکھ کر بھیجتا تھا تو سخت شکایت کرتے تھے۔ انہوں نے میسور کے ایک شہزادے کو اپنی کتاب بھیجی ہے۔ اس نے کتاب کی رسید لکھی ہے اور قیمت دریافت کی ہے۔ اس کے جواب میں لکھتے، ’’حرف پرسش مقدار قیمت چرابر زبان قلم رفت؟ ہنجار نوازش نیازمنداں بے نوانہ ایں ست۔ بے سرمایہ ام نافر و مایہ۔ سخن ورم نہ سوداگر۔ موئینہ پوشم نہ کتاب فروش پزیرندہ عطائم نہ گیرندہ بہا۔ ہرچہ آزادگان بخشند تبرک۔ بیع وشراین ست، چوں وچرانیست۔ ہرچہ فرستادہ ام ارمغانست و ہرچہ خواہم فرستادار مغان خواہدبود۔‘‘


مروت اور لحاظ مرزا کی طبیعت میں بدرجہ غایت تھا۔ باوجود کہ اخیر عمرمیں وہ اشعار کی اصلاح دینے سے بہت گھبرانے لگے تھے، باایں ہمہ کبھی کسی کا قصیدہ یاغزل بغیر اصلاح کے واپس نہ کرتے تھے۔ ایک صاحب کو لکھتے ہیں، ’’جہاں تک ہو سکا احباب کی خدمت بجا لایا۔ اوراق اشعار لیٹے لیٹے دیکھتا تھا اور اصلاح دیتا تھا۔ اب آنکھ سے اچھی طرح سوجھے نہ ہاتھ سے اچھی طرح لکھا جائے۔ کہتے ہیں کہ شاہ شرف بوعلی قلندر کو بہ سبب کبرسن خدا نے فرض اور پیمبر نے سنت معاف کر دی تھی۔ میں متوقع ہوں کہ میرے دوست بھی خدمت اصلاح اشعار مجھے معاف کریں۔ خطوط شوقیہ کاجواب جس صورت سے ہو سکےگا لکھ دیا کروں گا۔‘‘ باوجود اس کے بھی لوگ مرزا کو برابر ستاتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ کہیں مرزا تفتہ نے یہ لکھ دیا تھا کہ آپ نے بہ سبب ذوق سخن کے اصلاح اشعار منظور فرمائی تھی۔ اس کے جواب میں لکھتے ہیں، ’’لاحول و لاقوۃ! کس ملعون نے بہ سبب ذوق شعر کے اشعار کی اصلاح منظور رکھی؟ اگر میں شعر سے بیزار نہ ہوں تومیرا خدا مجھ سے بیزار۔ میں نے توبہ طریق قہر درویش بہ جان درویش لکھا تھا۔ جیسے اچھی جو روبرے خاوند کے ساتھ مرنا بھی اختیار کرتی ہے میرا تمہارے ساتھ وہ معاملہ ہے۔‘‘


اگرچہ مرزا کی آمدنی قلیل تھی مگر حوصلہ فراخ تھا۔ سائل ان کے دروازہ سے خالی ہاتھ بہت کم جاتا تھا۔ ان کے مکان کے آگے اندھے، لنگڑے، لولے اور اپاہج مرد و عورت ہرقت پڑے رہتے تھے۔ غدرکے بعد ان کی آمدنی کچھ اوپر ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار کی ہو گئی تھی اور کھانے پینے کا خرچ بھی کچھ لمبا چوڑا نہ تھا، مگر وہ غریبوں اور محتاجوں کی مدد اپنی بساط سے زیادہ کرتے تھے۔ اس لئے اکثر تنگ رہتے تھے۔ غدر کے بعدایک بار میں نے خود دیکھا کہ نواب لیفٹیننٹ گورنر کے دربارمیں ان کو حسب معمول سات پارچے کا خلعت مع تین رقوم جواہر کے ملا تھا۔ لفٹنینٹ کے چپراسی اور جمع دارقاعدے کے موافق انعام لینے کو آئے۔ مرزا صاحب کوپہلے ہی معلوم تھا کہ انعام دینا ہوگا۔ اس لئے انہوں نے دربار سے آتے ہی خلعت اور رقوم جواہر بازار میں فروخت کرنے کے لئے بھیج دی تھیں۔ چپراسیوں کو الگ مکان میں بٹھا دیا اور جب بازار سے خلعت کی قیمت آئی تب ان کو انعام دے کر رخصت کیا۔


وہ اپنے ان دوستوں کے ساتھ جو گردش روزگار سے بگڑ گئے تھے، نہایت شریفانہ طور پر سلوک کرتے تھے۔ دلی کے عمائد میں سے ایک صاحب جو مرزا کے دلی دوست تھے اور غدر کے بعد ان کی حالت سقیم ہو گئی تھی ایک روز چھینٹ کا فرغل پہنے ہوئے مرزا سے ملنے کو آئے۔ مرزا نے کبھی ان کو مالیدہ یا جامہ دار وغیرہ چغوں کے سوا ایسا حقیر کپڑا پہنے نہیں دیکھا تھا۔ چھینٹ کا فرغل ان کے بدن پر دیکھ کر دل بھر آیا۔ ان سے پوچھا کہ یہ چھینٹ آپ نے کہاں سے لی؟ مجھے اس کی وضع بہت ہی بھلی معلوم ہوتی ہے۔ آپ مجھے بھی فرغل کے لئے یہ چھینٹ منگو ادیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ فرغل آج ہی بن کر آیاہے اور میں نے اسی وقت اس کو پہنا ہے، اگر آپ کو پسند ہے تو یہی حاضر ہے۔ مرزا نے کہا جی تو یہی چاہتا ہے کہ اسی وقت آپ سے چھین کر پہن لوں، مگر جاڑا شدت سے پڑ رہا ہے، آپ یہاں سے مکان تک کیا پہن کر جائیں گے؟ پھر ادھر ادھر دیکھ کر کھونٹی پر سے اپنا مالیدہ کانیا چغہ اتار کر انہیں پہنا دیا اور اس خوبصورتی کے ساتھ وہ چغہ ان کی نذر کیا۔


وہ ایک خط میں لکھتے ہیں، ’’قلندری، آزادگی وایثار وکرم کے جو دواعی میرے خالق نے مجھ میں بھر دیے ہیں، بہ قدر ہزار ایک ظہور میں نہ آئے۔ نہ وہ طاقت جسمانی کہ ایک لاٹھی ہاتھ میں لوں اور اس میں شرطنجی اور ایک ٹین کا لوٹا مع سوت کی رسی کے لٹکالوں اور پیادہ پاچل دوں، کبھی شیراز جا نکلا، کبھی مصر میں جا ٹھہرا، کبھی نجف جا پہنچا، نہ وہ دست گاہ کہ عالم کامیزبان بن جاؤں۔ اگر تمام عالم میں نہ ہو سکے نہ سہی، جس شہرمیں رہوں، اس شہرمیں تو بھوکا ننگا نظر نہ آئے۔ خدا کا مقہور، خلق کامردود، بوڑھا، ناتواں، بیمار، فقیر، نکبت میں گرفتار۔ میرے اور معاملات کلام وکمال سے قطع نظر کرو، جو کسی کو بھیک مانگتے نہ دیکھ سکے اور خود دربہ دربھیک مانگے وہ میں ہوں۔‘‘


جیسی مرزا کی طبیعت میں درا کی اور ذہن میں جودت اور سرعت انتقال تھی اسی طرح ان کا حافظہ بھی قوی تھا اور ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ ان کے گھر میں کتاب کا کہیں نشان نہ تھا۔ ہمیشہ کرائے کی کتابیں منگوا لیتے تھے اور ان کو دیکھ کر واپس بھیج دیتے تھے۔ مگر جو لطف یا کام کی بات کتاب میں نظر پڑ جاتی تھی، ان کے دل پر نقش ہو جاتی تھی۔ فارسی کلام میں وہ کوئی لفظ یا محاورہ یا ترکیب ایسی نہیں برتتے تھے جس کی سنداہل زبان کے کلام سے نہ دے سکتے ہوں۔ کلکتہ میں جن لوگوں نے ان کے کلام پر اعتراض کئے تھے اور جن کے جواب میں مرزا نے مثنوی باد مخالف لکھی تھی، ان کو مثنوی کے علاوہ ایک ایک اعتراض کے جواب میں دس دس بارہ بارہ سندیں اساتذہ کے کلام سے لکھ کر علاحدہ بھیجی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے خطوط میں ان کو مفصل بیان کیا ہے۔ ’’برہان قاطع‘‘پر جو کچھ انہوں نے لکھا وہ محض اپنی یادداشت کے بھروسے پر لکھا ہے۔ فکر شعر کا یہ طریقہ تھا کہ اکثر رات کو عالم سرخوشی میں فکر کیا کرتے تھے اور جب کوئی شعر سر انجام ہو جاتا تھا تو کمربند میں ایک گرہ لگا لیتے تھے۔ اسی طرح آٹھ آٹھ دس دس گرہیں لگا کر سو رہتے تھے اور دوسرے دن صرف یاد پر سوچ سوچ کر تمام اشعار قلم بند کر لیتے تھے۔


شعر فہمی اور کتاب فہمی میں وہ ایک مستثنیٰ آدمی تھے۔ کیسا ہی مشکل مضمون ہو، وہ اکثر ایک سرسری نظر میں اس کی تہہ کو پہنچ جاتے تھے۔ نواب مصطفی خاں مرحوم ’’گلشن بے خار‘‘ میں مرزا کی نسبت لکھتے ہیں، ’’مضامین شعرے راکماحقہ فہمد او بہ جمیع نکات و لطائف پے می برد، ایں فضیلتے است کہ مخصوص خواص اہل سخن است اماخوش فہم، کم یاب ترخوشاحال کسے کہ ہر دوازشربے یافتہ، درخطے ربودہ بالجملہ چنیں نکتہ سخت نغزہ گفتار کمتر مرئی شدہ۔‘‘


نواب ممدوح نے مجھ سے ایک واقعہ بیان کیا جس سے مرزا کی سخن سنجی کا بہت بڑا ثبوت ملتا ہے۔ مولانا آزردہ نے ’’دور نہیں، حور نہیں۔‘‘ اس زمین میں غزل لکھی تھی۔ اس میں اتفاق سے مطلع بہت اچھا نکل آیا تھا۔ مولانا نے اپنی غزل دوستوں کو سنا کر ان سے کہا کہ ’’اگرچہ بحر دوسری ہے، مگر اسی ردیف و قافیہ میں نظیری کی بھی ایک غزل ہے جس کا مطلع یہ ہے کہ،


عشق عصیاں است اگر مستور نیست
کشتہ جرم زباں مغفور نیست


ظاہر ہے کہ نظیری اگر ہندی نژاد ہوتا اور اسی زمین میں جس میں ہماری غزل ہے، اردو غزل لکھتا تو اس کامطلع اس طرح ہوتا۔


عشق عصیاں ہے اگر مخفی و مستورنہیں
کشتہ جرم زباں ناجی و مغفور نہیں


آؤ آج مرزا غالب کے یہاں چلیں اور بغیر اس کے کہ قائل کا نام لیا جائے، اپنا مطلع اور نظیری کے مطلع کا یہی اردوترجمہ (جو اوپر مذکور ہوا) مرزا کو سنائیں اور پوچھیں کہ کون سا مطلع اچھا ہے۔ چونکہ نظیری کا مطلع اردو ترجمہ سے بہت پست ہو گیا تھا۔ سب کو یقین تھا کہ مرزا نظیری کے مطلع کو ناپسند کریں گے اور مولانا آزردہ کے مطلع کو ترجیح دیں گے۔ چنانچہ مولانا اور نواب صاحب اور بعض اور احباب مرزا کے ہاں پہنچے۔ معمولی بات چیت کے بعد مولانا نے کہا کہ اردو کے دو مطلع ہیں، ان میں آپ محاکمہ کیجئے کہ کون سا مطلع اچھا ہے؟ اور بطور بیٹھن کے اول نظیری کے مطلع کا یہی ترجمہ پڑھا۔ ابھی مولانا اپنا مطلع پڑھنے نہیں پائے تھے کہ مرزا اس مطلع کو سن کر سر دھننے لگے اور متحیر ہوکر پوچھنے لگے کہ یہ مطلع کس نے لکھا؟ اور اس قدر تعریف کی کہ مولانا آزردہ کو یہ امید نہ رہی کہ اس سے زیادہ میرے مطلع کی داد ملےگی۔ چنانچہ انہوں نے اپنا مطلع نہیں پڑھا اور سب لوگ نہایت تعجب کرتے ہوئے وہاں سے اٹھے۔


مرزا حقائق و معارف کی کتابیں اکثر مطالعہ کرتے تھے اور ان کو خوب سمجھتے تھے۔ نواب ممدوح فرماتے تھے کہ میں شاہ ولی اللہ کا ایک فارسی رسالہ جو حقائق و معارف کے نہایت دقیق مسائل پرمشتمل تھا، مطالعہ کر رہا تھا اور ایک مقام پر بالکل سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اتفاقاً اسی وقت مرزا صاحب آ نکلے، میں نے وہ مقام مرزا کو دکھایا۔ انہو ں نے کسی قدر غور کے بعد اس کا مطلب ایسی خوبی اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا کہ شاہ ولی اللہ صاحب بھی شاید اس سے زیادہ نہ بیان کر سکتے۔


مرزا کی تقریر میں ان کی تحریر اور ان کے نظم ونثر سے کچھ کم لطف نہ تھا اور اسی وجہ سے لوگ ان سے ملنے اور ان کی باتیں سننے کے مشتاق رہتے تھے۔ وہ زیادہ بولنے والے نہ تھے۔ مگر جو کچھ ان کی زبان سے نکلتا تھا لطف سے خالی نہ ہوتا تھا، ظرافت مزاج میں اس قدر تھی کہ اگر ان کوبجائے حیوان ناطق کے حیوان ظریف کہا جائے تو بیجا ہے۔ حسن بیان، حاضر جوابی اور بات میں سے بات پیدا کرنا ان کی خصوصیات میں سے تھا۔ ایک دفعہ جب رمضان گزر چکا توقلعے میں گئے۔ بادشاہ نے پوچھا مرزا تم نے کتنے روزے رکھے عرض کیا، ’’پیر و مرشد ایک نہیں رکھا۔‘‘


ایک دن نواب مصطفی خاں کے مکان پر ملنے کو آئے۔ ان کے مکان کے آگے چھتہ بہت تاریک تھا۔ جب چھتے سے گزر کر دیوان خانے کے دروازے پرپہنچے تو وہاں نواب صاحب ان کے لینے کو کھڑے تھے۔ مرزا نے ان کو دیکھ کر یہ مصرعہ پڑھا، ’’کہ آب چشمہ حیواں درون تاریکیست‘‘ جب دیوان خانے میں پہنچے تو اس کے دالان میں بہ سبب شرق رویہ ہونے کے دھوپ بھری ہوئی تھی مرزا نے وہاں یہ مصرعہ پڑھا، ’’ایں خانہ تمام آفتا ب است۔‘‘ ایک صحبت میں مرزا میر تقی کی تعریف کر رہے تھے۔ شیخ ابراہیم ذوق بھی موجود تھے۔ انہوں نے سودا کو میر پر ترجیح دی۔ مرزا نے کہا، ’’میں تو تم کو میری سمجھتا تھا مگراب معلوم ہوا کہ آپ سودائی ہیں۔‘‘


مکان کے جس کمرے میں مرزا دن بھر بیٹھتے اٹھتے تھے وہ مکان کے دروازے کی چھت پر تھا اور اس کے ایک جانب ایک کوٹھری تنگ و تاریک تھی جس کا در اس قدر چھوٹا تھا کہ کوٹھری میں بہت جھک کر جانا پڑتا تھا۔ اس میں ہمیشہ فرش بچھا رہتا تھا اور مرزا اکثر گرمی اور لوکے موسم میں دس بجے سے تین چار بجے تک وہاں بیٹھتے تھے۔ ایک دن جبکہ رمضان کا مہینہ اور گرمی کاموسم تھا، مولانا آزردہ ٹھیک دوپہر کے وقت مرزا سے ملنے کو چلے آئے۔ اس وقت مرزا صاحب اسی کوٹھری میں کسی دوست کے ساتھ چوسر یا شطرنج کھیل رہے تھے۔ مولانا بھی وہاں پہنچے اور مرزا کو رمضان کے مہینے میں چوسر کھیلتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگے کہ ’’ہم نے حدیث میں پڑھا تھا کہ رمضان کے مہینے میں شیطان مقید رہتا ہے مگر آج اس حدیث کی صحت میں تردد پیدا ہو گیا۔‘‘ مرز ا نے کہا، ’’قبلہ! حدیث بالکل صحیح ہے۔ مگر آپ کو معلوم رہے کہ وہ جگہ جہاں شیطان مقید رہتا ہے وہ یہی کوٹھری تو ہے۔‘‘


الغرض مرزا کی کوئی بات لطف اور ظرافت سے خالی نہ ہوتی تھی۔ اگر کوئی تمام ملفوظات جمع کرتا تو ایک ضخیم کتاب لطائف و ظرائف کی تیار ہو جاتی۔ باوجود یکہ مرزا کی آمدنی اور مقدور بہت کم تھا، مگر خودداری اور حفظ وضع کو وہ کبھی ہاتھ سے نہ دیتے تھے۔ شہر کے امراء اور عمائد سے برابر کی ملاقات تھی۔ کبھی بازار میں بغیر پالکی یا ہوادار کے نہیں نکلتے تھے۔ عمائد شہر میں سے جو لوگ ان کے مکان پر نہیں آتے تھے وہ بھی کبھی ان کے مکان پر نہیں جاتے تھے اور جو شخص ان کے مکان پر آتا تھا وہ بھی اس کے مکان پر ضرور جاتے تھے۔ ایک روز کسی سے مل کر نواب مصطفے خاں مرحوم کے مکان پر آئے۔ میں بھی اس وقت وہاں موجود تھا، نواب صاحب نے کہا آپ مکان سے سیدھے یہیں آئے ہیں یا کہیں اور بھی جانا ہوا تھا؟ مرزا نے کہا مجھ کو ان کا ایک آنا دینا تھا۔ اس لے اول اول وہاں گیا تھا وہاں سے یہاں آیا ہوں۔


ایک دن دیوان فضل اللہ خاں مرحوم چرٹ میں سوار مرزا کے مکان کے پاس سے بغیر ملے نکل گئے۔ مرزا کو معلوم ہوا تو ایک رقعہ دیوان جی کو لکھا، مضمون یہ ہے کہ ’’ آج مجھ کو اس قدر ندامت ہوئی ہے کہ شرم کے مارے زمین میں گڑا جاتا ہوں۔ اس سے زیادہ اور کیا نالائقی ہو سکتی ہے کہ آپ کبھی نہ کبھی تو اس طرف کو گزریں اور میں سلام کو حاضر نہ ہوں۔‘‘ جب یہ رقعہ دیوان جی کے پاس پہنچا وہ نہایت شرمندہ ہوئے اور اسی وقت گاڑی میں سوار ہوکر مرزا صاحب سے ملنے آئے۔


مرزا کی نہایت مرغوب غذا گوشت کے سوا اور کوئی چیز نہ تھی۔ ایک وقت بھی بغیر گوشت کے نہیں رہ سکتے تھے۔ یہاں تک کہ مسہل کے دن بھی انہوں نے کھچڑی یا شوربہ نہیں کھایا۔ اخیر میں ان کی خوراک بہت کم ہوگئی تھی۔ صبح کو و ہ اکثر شیرہ بادام پیتے تھے۔ دن کو جو کھانا ان کے لئے گھر میں سے آتا تھا اس میں صرف پاؤ سیر گوشت کا قورمہ ہوتا تھا۔ ایک پیالہ میں بوٹیاں اور دوسرے میں لعاب یا شوربہ، ایک پیالی میں ایک پھلکے کا چھلکا شوربے میں ڈوبا ہوا۔ ایک پیالی میں کبھی کبھی ایک انڈے کی زردی، ایک اور پیالی میں دوتین پیسہ بھر دہی اور شام کوکسی قدر شامی کباب یا سیخ کے کباب۔ بس اس سے زیادہ ان کی خوراک اور کچھ نہ تھی۔ ایک روزہ دوپہر کا کھانا آیا اور دسترخوان بچھا۔ برتن تو بہت سے تھے مگر کھانا نہایت قلیل تھا۔ مرزا نے مسکرا کر کہا، ’’اگر برتنوں کی کثرت پر خیال کیجئے تو میرا دسترخوان یزید کا دسترخوان معلوم ہوتا ہے اور جو کھانے کی مقدار کو دیکھئے تو بایزید کا۔‘‘


فواکہ میں آم ان کو نہایت مرغوب تھا۔ آموں کی فصل میں ان کے دوست دور دور سے ان کے لئے عمدہ آم بھیجتے تھے۔ اور وہ خود اپنے بعضے دوستوں سے تقاضا کرکے آم منگواتے تھے۔ ان کے فارسی مکتوبات میں ایک خط ہے جو غالباً کلکتہ کے قیام کے زمانہ میں انہوں نے امام بارہ ہگلی بندر کے متولی صاحب کو آموں کی طلب میں لکھا تھا۔ اس میں لکھتے ہیں، ’’سختی شکم بندہ ام و قدرے ناتواں، ہم آرائش خواں جوئم وہم آسائش جاں خرددراں دانند کہ ایں ہر دوصفت بہ انبہ اندرست، و اہل کلکتہ برآنند کہ قلم روانبہ ہگلی بندرست آرے انبہ از ہگلی، وگل از گلشن، ایثار از جناب وسپاس از من شوق می سگالد کہ تاپایان موسم دوسہ باربخاطر ولی نعمت خواہم گذشت، وآزمی نالد کہ حاشابدیں مایہ برخورداری خورسندنہ خواہم گشت۔‘‘


ایک روز مرحوم بہادر شاہ آموں کے موسم میں چند مصاحبوں کے ساتھ، جن میں مرزا بھی تھے، باغ حیات بخش یامہتاب باغ میں ٹہل رہے تھے۔ آم کے پیڑ رنگ برنگ کے آموں سے لد رہے تھے۔ یہاں کا آم بادشاہ یا سلاطین یا بیگمات کے سوا کسی کو میسر نہیں آ سکتا تھا۔ مرزا بار بار آموں کی طرف غور سے دیکھتے تھے۔ بادشاہ نے پوچھا، مرزا اس قدر غور سے کیا دیکھتے ہو؟ مرزا نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا، ’’پیر مرشد یہ جو کسی بزرگ نے کہا ہے،


برسر ہر دانہ بنوشتہ عیاں
کایں فلاں ابن فلاں ابن فلاں


اسے دیکھتا ہوں کہ کسی دانے پر میرا اور میرے باپ دادا کا نام بھی لکھا ہے یا نہیں۔ بادشاہ مسکرائے اور اسی روز ایک بہنگی عمدہ عمدہ آموں کی مرزا کو بھجوائی۔


حکیم رضی الدین خاں، جو مرزا کے نہایت دوست تھے ان کو آم نہیں بھاتے تھے۔ ایک دن وہ مرزا کے مکان پر برآمدے میں بیٹھے تھے اور مرزا بھی وہیں موجود تھے، ایک گدھے والا اپنے گدھے لئے ہوئے گلی سے گزرا۔ آم کے چھلکے پڑے تھے، گدھے نے سونگھ کر چھوڑ دیا۔ حکیم صاحب نے کہا، دیکھئے آم ایسی چیز ہے جسے گدھا بھی نہیں کھاتا۔ مرزا نے کہا بے شک گدھا نہیں کھاتا۔


مرزا کی نیت آموں سے کسی طرح سیر نہیں ہوتی تھی۔ اہل شہر تحفتاً بھیجتے تھے، خود بازار سے منگواتے تھے، باہر اور دور کا آم بطور سوغات کے آتا تھا۔ مگر حضرت کا جی نہیں بھرتا تھا۔ نواب مصطفی خاں ناقل تھے کہ ایک صحبت میں مولانا فضل الحق اور مرزا اور دیگر احباب جمع تھے اور آم کی نسبت ہرشخص اپنی اپنی رائے بیان کر رہا تھا کہ اس میں کیا کیا خوبیاں ہونی چاہئیں۔ جب سب لوگ اپنی اپنی کہہ چکے تو مولانا فضل الحق نے مرزا سے کہاکہ تم بھی اپنی رائے بیان کرو، مرزا نے کہا بھئی میرے نزدیک تو آم میں صرف دو باتیں ہونا چاہئیں، میٹھا ہو اور بہت ہو۔ سب حاضرین ہنس پڑے۔


مرزا کو مدت سے رات کو سوتے وقت کسی قدر پینے کی عادت تھی۔ جو مقدار انہوں نے مقرر کر لی تھی اس سے زیادہ کبھی نہیں پیتے تھے۔ جس بکس میں بوتلیں رہتی تھیں اس کی کنجی داروغہ کے پاس رہتی تھی اور اس کو سخت تاکید تھی کہ اگر رات کو سر خوشی کے عالم میں مجھ کو زیادہ پینے کا خیال پیدا ہو تو ہرگز میرا کہنا نہ ماننا اور کنجی مجھ کو نہ دینا۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ وہ رات کو کنجی طلب کرتے تھے، اور نشے کی جھانجھ میں داروغہ کو بہت برا بھلا کہتے تھے مگر داروغہ بہت خیرخواہ تھا ہرگز کنجی نہ دیتا تھا۔ اول تو مقدار میں بہت کم پیتے تھے، دوسرے اس میں دو تین حصے گلاب ملا لیتے تھے جس سے اس کی حدت اور تیزی کم ہو جاتی تھی۔ چنانچہ ایک جگہ کہتے ہیں،


آسودہ باد خاطر غالب کہ خوی اوست
آمیختن بہ بادہ صافی گلاب را


مگر باوجود اس قدر احتیاط کے اس کا فر نشے کی عادت نے آخر مرزا کی صحت کو سخت صدمہ پہنچایا جس کی شکایت سے ان کے تمام اردو رقعات بھرے ہوئے ہیں۔


مرزا کے خاص خاص شاگرد اور دوست جن سے نہایت بے تکلفی تھی، اکثر شام کو ان کے پاس جاکر بیٹھتے تھے اور مرزا سرور کے عالم میں اس وقت بہت پرلطف باتیں کیا کرتے تھے۔ ایک دن میر مہدی مجروح بیٹھے تھے، اور مرزا پلنگ پر پڑے ہوئے کراہ رہے تھے، میر مہدی پاؤں دابنے لگے۔ مرزا نے کہاکہ بھئی تو سید زادہ ہے مجھے کیوں گنہگار کرتا ہے؟ انہوں نے نہ مانا اور کہا آپ کو ایسا ہی خیال ہے تو پیر دابنے کی اجرت دے دیجئےگا۔ مرزا نے کہاہاں اس کا مضائقہ نہیں۔ جب وہ پیر داب چکے، انہوں نے اجرت طلب کی، مرزا نے کہا بھئی کیسی اجرت؟ تم نے میرے پاؤں دابے میں نے تمہارے پیسے دابے، حساب برابر ہوا۔


ایک دن قبل غروب آفتاب کے مرزا صاحب شام کو کھانا کھارہے تھے اور کھانے میں صرف شامی کباب تھے۔ میں بھی وہاں موجود تھا اور ان کے سامنے بیٹھا رومال سے مکھیاں جھل رہا تھا، مرزا نے کہا آپ ناحق تکلیف فرماتے ہیں، میں ان کبابوں میں سے آپ کو کچھ نہ دوں گا۔ پھر آپ ہی یہ حکایت بیان کی۔ نواب عبدالاحد خاں کے دسترخوان پر ان کے مصاحبوں اور عزیزوں اور دوستوں کے لئے ہر قسم کے کھانے چنے جاتے تھے، مگر خاص ان کے لئے ہمیشہ ایک چیز تیار ہوتی تھی۔ وہ اس کے سوا کچھ نہ کھاتے تھے۔ ایک روز ان کے لئے مز عفر پکا تھا وہی ان کے سامنے لگایا گیا۔ مصاحبوں میں ایک ڈوم بہت منہ لگا ہوا تھا جو اس وقت دسترخوان پر موجود تھا۔ نواب نے اس کو کھانا دینے کے لئے خالی رکابی طلب کی۔ اس کے آنے میں دیر ہوئی۔ نواب کھانا کھاتے جاتے تھے اورخالی رکابی باربار مانگتے تھے۔ وہ مصاحب نواب کے آگے رومال ہلانے لگا اور کہا، ’’حضور رکابی کیا کیجئےگا اب یہی خالی ہوئی جاتی ہے۔‘‘ نواب یہ فقرہ سن کر پھڑک گئے اور وہی رکابی اس کی طرف سرکا دی۔


ایک دفعہ رات کو پلنگ پر لیٹے ہوئے آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے، تاروں کی ظاہری بے نظمی اور انتشار دیکھ کر بولے، ’’جو کام خود رائی سے کیا جاتا ہے اکثر بے ڈھنگا ہوتا ہے۔ ستاروں کو تو دیکھو، کس ابتری سے بکھرے ہوئے ہیں؟ نہ تناسب ہے، نہ انتظام ہے، نہ بیل ہے، نہ بوٹا ہے، مگر بادشاہ خود مختار ہے۔ کوئی دم نہیں مار سکتا۔ ایک دن سید سردار مرزا مرحوم شام کو چلے آئے تھے۔ جب تھوڑی دیر ٹھہر کر جانے لگے تو مرزا خود اپنے ہاتھوں میں شمع دان لے کر کھسکتے ہوئے لب فرش تک آئے تاکہ روشنی میں جوتا دیکھ کر پہن لیں۔ انہوں نے کہا قبلہ و کعبہ آپ نے کیوں تکلیف فرمائی؟ میں اپنا جوتا آپ پہن لیتا۔ مرزا نے کہا، ’’میں آٖپ کو جوتا دکھانے کے لئے شمع دان نہیں لایا، بلکہ اس لئے لایا ہوں کہ آپ میرا جوتا نہ پہن جائیں۔‘‘