مرزا غالبؔ کے اندر کفن کے پاؤں
پچھلے ہفتے ہم صاحبِ فراش رہے۔ ملک بھر میں اور بھی بہت سے لوگ یہی رہے، مگر اکثر لوگوں کو پتا ہی نہیں چلا کہ وہ صاحبِ فراش ہوگئے ہیں۔ پتا چلے بھی تو کیسے چلے؟ اب ہم کسی کو پتا چلنے ہی نہیں دیتے کہ ’ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں‘۔ ہر وقت زبانِ غیر ہی سے شرحِ آرزو کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ یوں اب ہم کسی زبان کے نہ رہے۔ خاصی حد تک بے زبان بھی ہوگئے ہیں۔
صاحبِ فراش ہونے کی وجہ وہ بخار تھا جو ہمارے ملک ہی میں نہیں اس پورے خطے میں پھیلا ہوا ہے۔ بخار اتر جائے تب بھی ’بُخاری‘ بستر سے نہیں اُترتا۔ نقاہت باقی رہتی ہے۔ اب اس بخار کے بہت سے جدید نام آگئے ہیں۔ مگرکسی زمانے میں یہ ’’ہڈی توڑ بخار‘‘ یا ’’پیلا بخار‘‘ کہلاتا تھا۔ کسی شاعر کو یہ بخار ہوجاتا تو وہ خوشی کے مارے پھولا نہ سماتا تھا:
جانے کس کو ڈھونڈنے داخل ہوا ہے جسم میں
ہڈیوں میں راستہ کرتا ہوا پیلا بخار
’فرش‘ ہماری زبان کا مختصر اور دل کش لفظ ہے۔ اس کے کئی معانی ہیں۔ عرش کی ضد کے طور پر اس کا مطلب زمین لیا جاتا ہے۔ خود زمین پر کوئی چیز (چادر، دری یا قالین وغیرہ) بچھا دیجیے تو گویا آپ نے ننگی زمین پر فرش بچھا دیا۔ پلنگ، مسہری اور چارپائی پر بچھا ہوا بچھونا بھی فرش ہے۔ سعودی عرب وغیرہ میں کرائے پر ملنے والے وہ غرفے (کمرے) جن میں پلنگ نہ ہو، زمین پر فرش بچھا ہو، ’’غُرَفِ مفروشہ‘‘ (وہ کمرے جن میں فرش بچھا ہوا ہے) کہے جاتے ہیں۔ کچی زمین پر خوب صورت اور رنگارنگ پتھروں کی اینٹیں جوڑ دی جائیں تو جان لیجیے کہ پکا فرش کردیا گیا۔ کسی شخص کے استقبال کی خاطر آپ جھک جھک کر خود بچھے جارہے ہوں، یا اُس کے رستے میں آپ کی نظریں بچھ جائیں، آپ کا دل بچھا جائے تو اس ’بچھاوَن‘ کو ’دیدہ و دل فرشِ راہ کردینا‘ کہتے ہیں۔ ارے صاحب! فرش کو معمولی چیز نہ جانیے۔ ہماری تہذیب میں فرش کی بڑی اہمیت ہے، اور فرش نشینوں کا مقام تخت نشینوں سے کہیں بلند ہوتا ہے۔
ف پر زیر کے ساتھ فِراش بستر یا بچھونے کو کہتے ہیں۔ جو شخص بستر پر پڑ رہا، وہ صاحبِ فراش ہوگیا۔ اصطلاحاً ’صاحبِ فراش‘ سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ بیمار ہوگیا، بستر پکڑ لیا۔ بیماری کی وجہ سے اب بستر سے اُٹھ نہیں سکتا۔ یہ سارا مفہوم لفظ ’صاحبِ فراش‘ میں موجود ہے۔
ف پر زبر ہو اور ’ر‘ پر تشدید، تو ’فَرّاش‘ کے بہت سے ایسے معانی پیدا ہوجاتے ہیں، جن کی خاطر ہم الفاظ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص ہے جو شفاخانوں میں، دفاتر میں، یا دیگر عوامی مقامات (ہوائی اڈّوں وغیرہ) پر صرف فرش چمکانے پر مامور ہے۔ ہر تھوڑی دیر بعد آتا ہے اور فرش پر پُچارا پھیر کر چلا جاتا ہے۔ آپ اس کو خواہ کتنے ہی جدید انگریزی ناموں سے پکارلیں مگر اس کے لیے ’فَرّاش‘ سے بہتر کوئی لفظ آپ کو نہیں ملے گا۔
جب بجلی کے پنکھے نہیں ہوتے تھے، تب چھتوں پر کپڑے کے بڑے بڑے پنکھ آویزاں کردیے جاتے تھے۔ ان سے بندھی ہوئی ایک ڈوری فرش تک آتی تھی۔ فرش پر بیٹھا ہوا شخص وہیں بیٹھے بیٹھے یہ ڈوری ہلاتا رہتا تھا۔ پنکھا چلتا رہتا اور کمرہ ہوادار ہوجاتا۔ فرش پر بیٹھ کر ڈوری ہلانے والا یہ شخص بھی ’فَرّاش‘ ہی کہلاتا تھا۔ اس فراش کا ذکر نظیرؔ اکبر آبادی نے اپنی دلچسپ نظم ’جاڑے کی بہاریں‘ میں کیا ہے:
ہر چار طرف سے سردی ہو اور صحن کھلا ہو کوٹھے کا
اور تن میں نیمہ شبنم کا، ہو جس میں خس کا عطر لگا
چھڑکاؤ ہوا ہو پانی کا اور خوب پلنگ بھی ہو بھیگا
ہاتھوں میں پیالہ شربت کا، ہو آگے اِک فراش کھڑا
فراش بھی پنکھا جھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
اس بند میں ایک لفظ ’نیمہ‘ استعمال ہوا ہے۔ اگر یہ لفظ استعمال ہوتا رہتا تو ہمارے بہت سے نوجوانوں کو بہت سی سہولتیں ہوجاتیں۔ نیمہ کا لفظی مطلب تو آدھا یا ’نیم‘ ہی ہوتا ہے، مگر اس سے مراد آدھا کرتا، آدھا پاجامہ اور لمبا جانگھیا بھی ہے۔ لغات میں یہ سب معانی ملتے ہیں۔ مگر نظیرؔ اکبر آبادی نے سردی سے لطف اُٹھانے کے لیے دیگر شرائط کے ساتھ یہ شرط بھی عائد کی ہے کہ یہ آدھا کرتا، آدھا پاجامہ یا لمبا جانگھیا بھی ’شبنم‘ کا ہو۔ (’ شبنم‘ ململ کی طرح کا ایک ہلکا اور باریک کپڑا ہوتا تھا۔)
خرابیِ طبع کی وجہ سے آج جولانیِ طبع دکھانا ذرا دشوار ہورہا ہے۔ تاہم اس ہفتے جو ایک بات بار بارمحسوس کی، اس کا ذکر کیے دیتے ہیں۔ مطبوعہ ذرائع ابلاغ ہوں یا برقی… دیکھا گیا ہے کہ جملے بناتے ہوئے اس بات کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا کہ کس لفظ کو کس مقام پر رکھنا چاہیے۔ مثلاً ایک جملہ پڑھا:’’چار سو پاکستان کے ماہی گیر وطن واپس آگئے‘‘۔
ہمارے علم کے مطابق تو پاکستان نام کا ملک اس دنیا کے نقشے پر ایک ہی ہے۔ جب کہ اوپر دیے گئے فقرے میں پاکستان کی تعداد چارسو اس انداز سے بتائی جارہی ہے جیسے مزید کا امکان بھی ہو۔ جملہ تحریر کرنے والے کو، نہ خبر پڑھنے والے کو، کسی کو یہ احساس نہ ہوا کہ اگر ’چار سو‘ کی تعداد لفظ ماہی گیر سے قبل ہوتی تو اس جملے میں کوئی ابہام رہتا، نہ یہ فقرہ گرہ بن کر ذہن میں اٹکا رہتا۔
اسی موضوع پر پروفیسر ڈاکٹر غازی علم الدین کی ایک تحریر بھی موجود ہے، جس کا عنوان ہے: ’’تعقیدِ لفظی کا عیب‘‘۔ ہم اپنے صحافی بھائیوں کی رہنمائی کے لیے اس تحریر سے چند اقتباسات پیش کیے دیتے ہیں:
’’تعقید کا لغوی معنی ہے مضبوط باندھنا اور گرہ دینا۔ یہ عقد سے نکلا ہے جس کا مطلب ’’گرہ‘‘ ہے۔ اصطلاح میں تعقیدِ لفظی کا مفہوم ہے جملے میں لفظوں کا اپنی اصل جگہ پر نہ ہونا، قاعدے کے خلاف لفظوں کو آگے پیچھے کردینا، جس سے جملے کی اصل مراد سمجھنے میں دقت ہو۔ تعقیدِ لفظی کا عیب عبارت کے حسن کو گہنا دیتا ہے جس سے لکھنے والے کا اناڑی پن ظاہر ہوجاتا ہے۔ آج کل لکھی جانے والی نثر میں اس سے بچنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔اخبارات و رسائل اور کتابوں میں اس عیب کو دہرایا جاتا ہے، حتیٰ کہ بول چال میں بھی اس عیب سے بچنے کا خیال نہیں رکھا جاتا۔کچھ مثالیں ملاحظہ کیجیے:
1۔ گودام میں ایک ہزارگندم کی بوریا ں ہیں۔
2۔کوئی مسلمانوں کی مملکت امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرتی۔
درست جملے اس طرح ہوں گے:
1۔ گودام میں گندم کی ایک ہزار بوریاں ہیں۔
2۔مسلمانوں کی کوئی مملکت امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرتی۔
تعقیدِ لفظی کا شاہکار مرزا اسداللہ خان غالب کا یہ مصرع ہے:
ہلتے ہیں خود بخود مرے اندر کفن کے پاؤں
اس مصرعے سے یہ لگتا ہے کہ مرزا غالب کے اندر کفن کے پاٶں ہیں جو ہل رہے ہیں۔حالاں کہ وہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ کفن کے اندر بھی ان کے پاؤں خودبخود ہل رہے ہیں۔ ایسا تھا تو بھی یہ کمال مرزا صاحب ہی کو حاصل تھا‘‘۔