مری زندگی کی کتاب میں یہی نقش ہیں مہ و سال کے

مری زندگی کی کتاب میں یہی نقش ہیں مہ و سال کے
وہ شگفتہ رنگ عروج کے یہ شکستہ رنگ زوال کے


ترے حسن سے مرے عشق تک یہ جو نسبتوں کے ہیں سلسلے
یہ شجر ہیں ایک ہی باغ کے یہ ثمر ہیں ایک ہی ڈال کے


میں سناؤں کیا کوئی داستاں کہ ثبوت غم بھی نہیں رہا
مرے عشق نامے کو لے گیا کوئی طاق جاں سے نکال کے


مرے باغ میں وہ گلاب تھا کہ مہک رہا تھا چمن چمن
وہ جو گم ہوا تو بکھر گئے سبھی رنگ حزن و ملال کے


کوئی خواب ہے نہ خیال ہے کوئی آرزو ہے نہ جستجو
یہ کہاں ہے لا کے بٹھا دیا مجھے قید جاں سے نکال کے


میں بھٹک رہا تھا جہت جہت ترے نقش پا کی تلاش میں
مرے ساتھ ساتھ چلا کئے کئی عکس خواب و خیال کے


مجھے شاہراہ حیات پر کئی ایسے گھر بھی ملے ضیاؔ
جہاں قمقمے نہ جلے کبھی نہ وہ ہجر کے نہ وصال کے