مری نگاہ کو جلووں کا حوصلہ دے دو
مری نگاہ کو جلووں کا حوصلہ دے دو
گزر بسر کا کوئی بھی تو آسرا دے دو
تمہاری بزم سے جاتا ہے نا مراد کوئی
سفر بخیر کی جان وفا دعا دے دو
عطا پہ حرف نہ آ جائے مانگنے سے مرے
خدا ہو میرے تو پھر حسب مدعا دے دو
مٹا دو میری نگاہوں سے تم نقوش تمام
وگرنہ دوسرا مجھ کو اک آئنہ دے دو
فریب شرح تمنا بھی کھا لے اب یہ دل
لبوں کو جرأت اظہار مدعا دے دو
جنوں نواز و جنوں خیز و صد جنوں ساماں
تم اپنے جلووں کو ایسی کوئی ادا دے دو
عدو کو شکوۂ لذت کوئی نہ رہ جائے
مرے لہو کو کچھ ایسا ہی ذائقہ دے دو
غزل کی آبرو تم ہو غزل مجھے محبوب
شعور فکر کو اسلوب خوش نما دے دو
یہ دل تو دشمن جانی ہے ایک مدت سے
جو غم نواز ہو ایسا غم آشنا دے دو
لباس کہنہ غزل کا اتار کر طرزیؔ
بہ فیض طبع رسا اک نئی قبا دے دو