مری نظر سے نہ ہو دور ایک پل کے لیے
مری نظر سے نہ ہو دور ایک پل کے لیے
ترا وجود ہے لازم مری غزل کے لیے
کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں چراغ سا وہ بدن
ترس گئی ہیں نگاہیں کنول کنول کے لیے
کسی کسی کے نصیبوں میں عشق لکھا ہے
ہر اک دماغ بھلا کب ہے اس خلل کے لیے
ہوئی نہ جرأت گفتار تو سبب یہ تھا
ملے نہ لفظ ترے حسن بے بدل کے لیے
سدا جیے یہ مرا شہر بے مثال جہاں
ہزار جھونپڑے گرتے ہیں اک محل کے لیے
قتیلؔ زخم سہوں اور مسکراتا رہوں
بنے ہیں دائرے کیا کیا مرے عمل کے لیے