مری آنکھوں سے دیکھو
اک روز اپنے آپ کو میں نے
خلا کی وسعتوں سے جھانک کر دیکھا
تو وحشت میں پلٹ آیا
کہیں پر دور اک نقطہ سا روشن تھا
اور اس نقطے میں اک ذرہ نظر آیا
زمیں کہیے زماں کہیے کہ اپنا آسماں کہیے
سبھی کچھ اس میں گم پایا
وہی ذرہ
کہ جس کی وسعتوں کو بانٹ کر ہم نے
کئی خطے بنا ڈالے
اور ان خطوں میں ہم نے سرحدیں بھی خوب کھینچی ہیں
سو اک سرحد کے اندر بھی کئی ٹکڑے نظر آئے
کہ جن ٹکڑوں کے ٹکڑوں میں کہیں اک شہر بستا ہے
کہ جس کے ایک ٹکڑے میں پرانا اک محلہ ہے
سو اس کے ایک حصے میں کوئی چھوٹا سا گھر ہوگا
اور اس گھر کے کسی کمرے کے کونے میں
کوئی اپنی حقیقت لکھ رہا ہوگا