مرے سخن کو انوکھے کمال دیتا ہے
مرے سخن کو انوکھے کمال دیتا ہے
ترا خیال مرا دل اجال دیتا ہے
میں تجھ کو سوچ کے لکھوں تو یہ قلم میرا
مرے ہنر کو نئے خد و خال دیتا ہے
زمانہ وقت کی صورت ہے مہرباں مجھ پر
ہر ایک زخم پئے اندمال دیتا ہے
بساط زیست پہ ہر آن پھینک کر پانسہ
کوئی تو وقت کے مہرے کو چال دیتا ہے
ہیں جس کے نور کے پرتو یہ چاند یہ سورج
وہی تو ہم کو نئے ماہ و سال دیتا ہے
اسی کو بھول چکے ہیں غزلؔ زمیں کے خدا
جو ہر عروج کو اک دن زوال دیتا ہے