مرے لیے کون سوچتا ہے
مرے لیے کون سوچتا ہے
جدا جدا ہیں مرے قبیلے کے لوگ سارے
جدا جدا سب کی صورتیں ہیں
سبھی کو اپنی انا کے اندھے کنویں کی تہ میں پڑے ہوئے
خواہشوں کے پنجر
ہوس کے ٹکڑے
حواس ریزے
ہراس کنکر تلاشنا ہیں
سبھی کو اپنے بدن کی شہ رگ میں
قطرہ قطرہ لہو کا لاوا انڈیلنا ہے
سبھی کو گزرے دنوں کے دریا کا دکھ
وراثت میں جھیلنا ہے
مرے لئے کون سوچتا ہے
سبھی کی اپنی ضرورتیں ہیں
مری رگیں چھلتی جراحت کو کون بخشے
شفا کی شبنم
مری اداسی کو کون بہلائے
کسی کو فرصت ہے مجھ سے پوچھے
کہ میری آنکھیں گلاب کیوں ہیں
مری مشقت کی شاخ عریاں پر
سازشوں کے عذاب کیوں ہیں
مری ہتھیلی پہ خواب کیوں ہیں
مرے سفر میں سراب کیوں ہیں
مرے لیے کون سوچتا ہے
سبھی کے دل میں کدورتیں ہیں