مرے دانتوں کی عمر اے آرزو مجھ سے بھی چھوٹی تھی
مرے دانتوں کی عمر اے آرزو مجھ سے بھی چھوٹی تھی
اسی نے ساتھ چھوڑا دانت کاٹی جن سے روٹی تھی
شکایت آرزو کی بے کئے ناصح نہیں بنتی
یہ سب دل جوئیاں ظاہر کی تھی باطن کی کھوٹی تھی
ہوا در در لیے پھرتی ہے اب تو میری مٹی کو
یہ ہے وہ خاک جو اک دن ترے قدموں پہ لوٹی تھی
بہت گہرے نہ ہوں اوچھے سہی چرکے تو پورے ہیں
خطا قاتل کی کیا ہے اک درا تلوار چھوٹی تھی
پہاڑ اس پر گرا اے آسماں کیا بس چلے ورنہ
ہمارے آشیاں کی شاخ سب شاخوں سے موٹی تھی
بلا کر تو نے اے ہستی یہاں کی خوب مہمانی
وہی کرتے ہیں فاقے جن کے دم سے دس کی روٹی تھی
پہنچ جاتی تھی اس اس گھر میں جس جس گھر کا پاسا تھا
جو سچ پوچھو تو میری آرزو چوسر کی گوٹی تھی
نہ کیوں کر تیری یکتائی کا کلمہ نقش ہو دل پر
سبق کی طرح برسوں یہ عبارت ہم نے گھوٹی تھی
مجھے خوش خوش جو پایا جل کے کیا جلدی ہوئی رخصت
شب وصل اے فلک سب کچھ سہی نیت کی چھوٹی تھی
یہ سچ ہے شادؔ کیا تھا کچھ نہ تھا لیکن تمہارا تھا
نہ سمجھا تم نے اے باریک بینو بات موٹی تھی