مرا ذہن مجھ کو رہا کرے

مرا ذہن دل کا رفیق ہے
مرا دل رفیق ہے جسم کا
مرا جسم ہے مری آنکھ میں
مری آنکھ اس کے بدن میں ہے
وہ بدن کہ بوسۂ آتشیں میں جلا بھی پھر بھی ہرا رہا
وہ بدن کہ لمس کی بارشوں میں دھلا بھی پھر بھی نیا رہا
وہ بدن کی وصل کے فاصلے پہ رہا بھی پھر بھی مرا رہا
مجھے اعتراف! مرے وجود پہ ایک چراغ کا ایک خواب کا ایک امید کا قرض ہے
مجھے اعتراف! کہ میرے ناخن بے ہنر پہ ہزار طرح کے قرض ہیں
مرا ذہن مجھ کو رہا کرے تو میں سارے قرض اتار دوں
مری آنکھ مجھ سے وفا کرے تو میں جسم و جان پہ وار دوں