مرا پڑوسی کوئی مال دار تھوڑی ہے
مرا پڑوسی کوئی مال دار تھوڑی ہے
یہ کار بینک کی ہے اس کی کار تھوڑی ہے
ہر ایک ملک میں جائیں گے کھائیں گے جوتے
کہ بزدلوں میں ہمارا شمار تھوڑی ہے
خدا کا شکر ہے چکر کئی سے ہیں اپنے
بس ایک بیوی پہ دار و مدار تھوڑی ہے
گلے میں ڈال کے باہیں سڑک پہ گھومیں گے
ہے نقد عشق ہمارا ادھار تھوڑی ہے
ہمارا پیار جو قاضی نکاح تک پہونچے
ہمارے بیچ کوئی اتنا پیار تھوڑی ہے''
جو فون بند رکھوں کال نہ اٹھاؤں میں
کسی کے باپ کا مجھ پہ ادھار تھوڑی ہے