مرا خلوص ابھی سخت امتحان میں ہے

مرا خلوص ابھی سخت امتحان میں ہے
کہ میرے دوست کا دشمن مری امان میں ہے


وہ خوش نصیب پرندہ ہے جو اڑان میں ہے
کہ تیر نکلا نہیں ہے ابھی کمان میں ہے


تمہارا نام لیا تھا کبھی محبت سے
مٹھاس اس کی ابھی تک مری زبان میں ہے


تم آکے لوٹ گئے پھر بھی ہو یہیں موجود
تمہارے جسم کی خوشبو مرے مکان میں ہے


کہاں ملے گا حسینوں کو دور حاضر میں
وہ شاہزادہ جو پریوں کی داستان میں ہے


ہے جسم سخت مگر دل بہت ہی نازک ہے
کہ جیسے آئینہ محفوظ اک چٹان میں ہے


تجھے جو زخم دے تو اس کو پھول دے داناؔ
یہی اصول وفا تیرے خاندان میں ہے