مرا دل مبتلا ہے جھانولی کا

مرا دل مبتلا ہے جھانولی کا
تری انکھیاں سلونی سانولی کا


گیا تن سوکھ انکھیاں تر ہیں غم سیں
ہوا ہوں شاہ خشکی و تری کا


جبھی تو پان کھا کر مسکرایا
تبھی دل کھل گیا گل کی کلی کا


کہتا ہوں وصف دنداں و مسی کے
مزا لیتا ہوں اب تل چاولی کا


نہیں ہے ریختے کے بحر کا پار
سمجھ مت شعر اس کوں پارسی کا


جو رو پاؤ تو دل میرا دکھاؤ
سنا ہے شوخ خواہاں آرسی کا


مجھے کہتے ہیں یکروؔ سب محباں
کہ بندہ جاں سیں ہوں حضرت علیؔ کا