کلرک کا نغمہء محبت: میرا جی کی ایک نظم جس میں عام انسان کا دکھ بیان کیا گیا
ادب زندگی سے کشید کیے ہوئے رنگوں سے بنی لفظی تصویروں کے البم کا نام ہے ۔ شاعری ہو یا نثر ۔۔۔ دونوں کا موضوع انسان ہے ۔ شاعری کے متعلق عمومی تاثر یہ پایا جاتا کہ یہ محض انسانی جذبات ، خیالات اور احساسات سے علاقہ رکھتی ہے حالانکہ کہ شاعری خاص طور جدید شاعری ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جو اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ اردو شاعری میں بھی 'خارج ' سے متعلقہ مضامین کو بیان کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ میراجی کا نام اُردو شاعری میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ انہوں نے اُردو میں آزاد نظم کے فروغ اور اس کی تفہیم میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔
ان کی بعض نظموں میں وہ باقاعدہ کسی ڈرامے یا افسانے کی طرح کردار تخلیق کرتے ہیں اور پھر اس نظم میں اول تا آخری وہ اس کردار کو کھولتے چلے جاتے ہیں ۔ وہ اپنی شاعری جو کردار پیش کرتے ہیں وہ دراصل ان کے اردگرد کے معاشرے ہی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ان کی نظم " کلرک کا نغمہ محبت" ہی کو لیجیے ۔ یہ نظم ان کی نمائندہ نظموں میں شمار ہوتی ہیں ۔ نظم اس قدر سادہ اور سلیس زبان میں لکھی گئی ہے کہ تھوڑی بہت شاعری کی سن گن رکھنے والا قاری بھی اس شاہکار سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
اس نظم میں وہ ایک کلرک کی زبان سے اس کے شب و روز بیان کرتے ہیں ۔۔۔اور اسی کلرک کی نظر سے وہ معاشرے میں طبقاتی تقسیم اور انسانی محرومیوں کا نقشہ کھینچتے چلے جاتے ہیں ۔ آئیے اس شاہکار نظم سے محظوظ ہوتے ہیں ۔
کلرک کا نغمہ محبت (میرا جی)
سب رات مری سپنوں میں گزر جاتی ہے اور میں سوتا ہوں
پھر صبح کی دیوی آتی ہے
اپنے بستر سے اٹھتا ہوں منہ دھوتا ہوں
لایا تھا کل جو ڈبل روٹی
اس میں سے آدھی کھائی تھی
باقی جو بچی وہ میرا آج کا ناشتہ ہے
دنیا کے رنگ انوکھے ہیں
جو میرے سامنے رہتا ہے اس کے گھر میں گھر والی ہے
اور دائیں پہلو میں اک منزل کا ہے مکاں وہ خالی ہے
اور بائیں جانب اک عیاش ہے جس کے ہاں اک داشتہ ہے
اور ان سب میں اک میں بھی ہوں لیکن بس تو ہی نہیں
ہیں اور تو سب آرام مجھے اک گیسوؤں کی خوشبو ہی نہیں
فارغ ہوتا ہوں ناشتے سے اور اپنے گھر سے نکلتا ہوں
دفتر کی راہ پر چلتا ہوں
رستے میں شہر کی رونق ہے اک تانگہ ہے دو کاریں ہیں
بچے مکتب کو جاتے ہیں اور تانگوں کی کیا بات کہوں
کاریں تو چھچھلتی بجلی ہیں تانگوں کے تیروں کو کیسے سہوں
یہ مانا ان میں شریفوں کے گھر کی دھن دولت ہے مایا ہے
کچھ شوخ بھی ہیں معصوم بھی ہیں
لیکن رستے پر پیدل مجھ سے بد قسمت مغموم بھی ہیں
تانگوں پر برق تبسم ہے
باتوں کا میٹھا ترنم ہے
اکساتا ہے دھیان یہ رہ رہ کر قدرت کے دل میں ترحم ہے
ہر چیز تو ہے موجود یہاں اک تو ہی نہیں اک تو ہی نہیں
اور میری آنکھوں میں رونے کی ہمت ہی نہیں آنسو ہی نہیں
جوں توں رستہ کٹ جاتا ہے اور بندی خانہ آتا ہے
چل کام میں اپنے دل کو لگا یوں کوئی مجھے سمجھاتا ہے
میں دھیرے دھیرے دفتر میں اپنے دل کو لے جاتا ہوں
نادان ہے دل مورکھ بچہ اک اور طرح دے جاتا ہوں
پھر کام کا دریا بہتا ہے اور ہوش مجھے کب رہتا ہے
جب آدھا دن ڈھل جاتا ہے تو گھر سے افسر آتا ہے
اور اپنے کمرے میں مجھ کو چپراسی سے بلواتا ہے
یوں کہتا ہے ووں کہتا ہے لیکن بے کار ہی رہتا ہے
میں اس کی ایسی باتوں سے تھک جاتا ہوں تھک جاتا ہوں
پل بھر کے لیے اپنے کمرے کو فائل لینے آتا ہوں
اور دل میں آگ سلگتی ہے میں بھی جو کوئی افسر ہوتا
اس شہر کی دھول اور گلیوں سے کچھ دور مرا پھر گھر ہوتا
اور تو ہوتی
لیکن میں تو اک منشی ہوں تو اونچے گھر کی رانی ہے
یہ میری پریم کہانی ہے اور دھرتی سے بھی پرانی ہے
ایک مفلس ساری رات خواب دیکھتا ہے ۔۔ تھکا ہارا ہوا انسان جس بے فکری سے اور جتنی گہری نیند سوتا ہے وہ کسی تونگر کو نصیب نہیں ہوتا ۔ میراجی کہانی کا آغاز اسی حقیقت کے بیان سے شروع کرتے ہیں ۔ اس کے بعد کلرک کی مفلسی کے نقشے میں مزید رنگ اس کے کل کی بچی ہوئی ڈبل روٹی کھانے اور پیدل چل کر دفتر جانے کا ذکر کرنے سے کرتے ہیں ۔ اس کے بعد اپنے ہمسایوں کے بیان میں اپنے گھر میں کسی عورت کے وجود کے نہ ہونے کے بیان سے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ مفلس کے لیے شادی کرنا بھی کوئی آسان امر نہیں ۔ اس کے بعد کلرک راستے میں نظر آنے والی ہر چیز کا بڑی روانی سے نقشہ کھینچتا چلا جاتا ہے اور بار بار اپنے محبوب یعنی نسوانی وجود کے ساتھ سے محرومی کا ذکر کرتا ہے ۔ نظم کے آخری حصے میں وہ دفتر پہنچ جاتا ہے اور وہاں بھی جب کام کاج اور اپنے باس کی چخ چخ سے تنگ آ جاتا ہے تو فائل اٹھانے کے بہانے اپنے کمرے میں آ جاتا ہے اور ایک پھر اپنے محبوب کے خیال میں گم ہو جاتا ہے ۔۔۔ لیکن آخر میں اپنے محبوب تک نارسائی کا زمہ دار بھی وہ اس طبقاتی تقسیم کے نظام کو یوں ٹھہراتا ہے:
"...لیکن میں تو اک منشی ہوں تو اونچے گھر کی رانی ہے
یہ میری پریم کہانی ہے اور دھرتی سے بھی پرانی ہے "