ایک ننھا سا دل کرے گا دل کی دنیا کا پردہ چاک
ماہرین کی ایک ٹیم نے مل کر انسانی دل سے متعلق تحقیق کا ایک نیا طریقہ دریافت کرلیا ہے۔ انہوں نے ننھے پرزوں اور انسانی دل کے بافتوں کو جوڑ کر دل کی ایک ننھی سی نقل تیار کی ہے۔
انسانی جسم کے دوسرے اعضا کی طرح دل کو کھلی آنکھ سے جزئیات تک کا جائزہ نہیں لے سکتے ہیں۔ یعنی دل کو ایک لمحے کے جسم سے باہر نکالا اس کا جائزہ لیا اور اسے واپس فٹ کردیا , ایسا ممکن نہیں ہے۔سائنسدان اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے سو جتن کرچکے ہیں لیکن بے سود۔ اب تک جو مصنوعی دل تیار کیے گئے, وہ دل چند گھنٹوں تک کارآمد رہتے ہیں اور وہ بھی بیرونی قوت یا مشین کے سہارے۔
پاکستان میں بھی دل کے امراض میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی 2016 کی ایک رپورٹ کے مطابق اس برس اڑھائی لاکھ افرادکی موت کا سبب دل کا عارضہ تھا جبکہ تین برسوں میں تعداد انتیس فیصد بڑھ کر چار لاکھ سے زائد تعداد تک پہنچ گئی۔پاکستان میں ایسی امراض جو کہ ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل نہیں ہوتے (این سی ڈی) ان کی وجہ سے شرح اموات میں اٹھاون فیصد دل کی بیماری کی وجہ سے ہوتی ہیں۔بیماریوں کی روک تھام اور علاج کے امریکہ کے سرکاری ادارے (سی ڈی سی) کے مطابق،امریکہ میں ہر 36 سیکنڈ میں کوئی نہ کوئی عارضہ قلب کا شکار شخص زندگی کی ہار بیٹھتا ہے۔دل کا عارضہ دنیا میں اموات کا سب سے بڑا سبب ہے۔پنتالیس برس سے زائد 33 فیصد افراد ہائپر ٹینشن کا شکار ہیں جوکہ دل کی بیماری کی وجہ بنتی ہے۔
دل کے مریضو! ذرا دل تھام کےسنو آپ کے لیے ٹھنڈی کا ہوا کا جھونکا آیا ہے کہ سائنس دانوں کی ایک ٹیم ایک ایسا مصنوعی ننھا سا دل بنایا ہے جو انسانی بافتوں اور ننھے پروزوں سے تیار ہوا ہے۔اس کے لیے کوئی بیرونی قوت یا سپرنگ کی بھی ضرورت نہیں ہے۔یہ خود بخود دھڑکتا ہے۔یہ بالکل اصلی دل کی طرح ہے۔
یہ دل انسانی ساق خلیات سے ہی کام کرتا ہے۔اس مصنوعی دل سے ماہرین دل کی بالکل قریب سے ورکنگ کو جانچ سکیں گے۔مزید یہ کہ دل ماں کے پیٹ میں کیسے نشوونما پاتا ہے ، دل کی بیماری کیسے بڑھتی ہے اور دوا کے ضمنی اثرات کیسے پیدا ہوتے ہیں۔۔۔جیسی درست معلومات حاصل کرنا ممکن ہوگا۔اس سے مریض کو بھی کوئی خطرہ نہیں ہوگا ۔
بوسٹن یونیورسٹی کے ماہرین کا تیارکردہ اس آلے کو ِمنی پمپ کا نام دیا گیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نقل بمطابق اصل دل نما آلے سے انسانی جسم کے دوسرے اعضا کے لیب ورژن تیار کرنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
بی یو کالج آف انجینئرنگ کی پروفیسر ایلس وائٹ کہتی ہیں کہ ہم بیماری کی بڑھوتری کا اس طرح مطالعہ کرنے کے قابل ہوئے ہیں جو پہلے ممکن نہ تھا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے دل کی بافتوں کا انتخاب ان کے پیچیدہ افعال کی وجہ سے کیا۔ٹشو انجینرنگ اور نینو ٹیکنالوجی کے "نکاح" سے امید بندھی ہے کہ ہم مستقبل میں مزید اعضا کی نقلیں بھی تیار کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔
نئی دوا کا ٹیسٹ:
محققین کے مطابق اس جدید آلے سے نہ صرف دل کے امراض کا علاج تیز اور موئثر ہوجائے گا بلکہ لاکھوں روپے کی بھی بچت ہوگی۔
یہ پروجیکٹ بوسٹن یونیورسٹی کے ذیلی ادارے نیشنل سائنس فاؤنڈیشن انجینرنگ ریسرچ سنٹر کا ہے جس کا کام بیمار دل کی بافتوں کی دوبارہ تخلیق، نئی دوا کی جانچ اور ہارٹ اٹیک یا بیماری سے نڈھال دل کی پیوندکاری کے لیے تحقیق کرنا ہے۔
یہ ننھا دل یعنی مِنی پمپ تین سینٹی میٹر جسامت کا ہے جوکہ ایک ڈاک ٹکٹ سے زیادہ بڑا نہیں ہے۔ یہ بالکل انسانی دل کی طرح کام کرتا ہے۔
اس موقع پر دل کرتا ہے کہ وہ گانا گایا جائے کہ میں چھوٹا سا یک بچہ ہوں
لیکن کام کروں گا بڑے بڑے
کارڈیو مایوسائٹ (یعنی دل کا خلیہ) بنانے کے لیے، محققین ایک بالغ انسان سے ایک خلیہ لیتے ہیں -- یہ جلد کا خلیہ ہو سکتا ہے، خون کا خلیہ ہو سکتا ہے یا کوئی اور خلیہ ہو سکتا ہے – اسے بالکل نومولود خلیے یعنی ساق خلیے میں بدل جاتا ہے ، پھر اسے دل کے خلیے میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ اس آلے کی مدد سے بیمار دل میں ادویات کے کام کرنے یا اثر انداز ہونے کا بالکل ٹھیک ٹھیک مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
عام طور پر انسانوں میں ادویات کے اثرات کا صحیح پتا لگانا مشکل ہوتا کہ ان کے ضمنی اثرات اکی وجہ اس کے نتائج قابل اعتبار نہیں ہوتے ہیں۔جبکہ کوئی بھی دوا کسی انسان میں ٹیسٹ کرنے سے قبل اس کو اس مصنوعی دل میں داخل کرکے اس کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔ دل کے علاج معالجے میں یہ ایک خوش آئند خبر ہے۔