مائنڈ سائنس سیریز2: مائند سائنس کے مختلف طریقوں کا تعارف

مائنڈ سائنس کے قدیم طریقوں میں شمع بینی، وپاشنا ، یوگا، دم سادھنا ، ٹیلی پیتھی، سات چکرا کی توانائی ،ٹیلی کائنیسس اور ہپنا ٹزم کے طریقے رائج تھے جبکہ جدید طریقوں میں  ایموشنل ریلیزنگ تکنیک، سلوا الٹرا مائنڈ میتھڈ، لاء آف اٹریکشن ، نیورو لنگوئسٹک پروگرامنگ (این ایل پی) اور مائنڈ فُلنِس کے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔

ان تمام طریقوں کا بنیادی مقصد اپنے خیالات پر قابو پانا، منفی جذبات سے چھٹکارا پانا اور اپنی شخصیت کی تشکیل نو کرنا (سیلف منیجمنٹ) ہوتا ہے۔ ان تمام طریقوں کی مکمل تفصیل بعد کی اقساط میں پیش کی جائے گی۔

اس سلسلے کی پہلی قسط میں ہم نے آپ کے سامنے مائنڈ سائنس کا ابتدائی تعارف پیش کیا تھا۔ 

مزید پڑھیے: مائنڈ سائنس کیا ہے، اس کی تاریخ کیا ہے اور اس کی اہمیت کیا ہے؟

آج ہم آپ کے سامنے مائنڈ کے مختلف طریقوں کا مختصر تعارف پیش کریں گے۔

قدیم طریقے

1۔ شمع بینی

یہ ذہنی یکسوئی کی سب سے معروف اور سادہ تکنیک ہے۔ سسپنس ڈائجسٹ کی مشہور سلسلہ وار کہانی "دیوتا" کے ہیرو کو بھی ابتدائی طور پر یہی مشق کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا جس کی مدد سے وہ ٹیلی پیتھی اور خیال خوانی کی صلاحیت کا مالک بن جاتا ہے۔ پاکستان میں مائنڈ سائنس کے ابتدائی ماہرین میں سے ایک جناب رئیس امروہوی نے بھی اپنی اکثر کتب (مراقبہ، لے سانس بھی آہستہ وغیرہ ) میں اسی تکنیک کو مختلف شکلوں میں پیش کیا ہے۔  انھوں نے  مراقبہ نور اور تنفس نور کے مراقبہ کا نام دے کر اس کی مدد سے ذہنی یکسوئی کے حصول کی کوشش کی ہے۔

2۔ یوگا (Yoga)

یوگا پاک و ہند کی شاید سب سے معروف اصطلاح ہے۔یہ ہندوستان کا ایک قدیم فلسفیانہ نظام اور جسمانی مشق ہے۔ تاہم اس تکنیک کا کسی مذہبی عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یوگا کا مقصد بلند ترین ممکنہ جسمانی اور ذہنی سطح پر پہنچنا ہوتا ہے تاکہ طالب علم  اپنی روح سے تعلق جوڑ سکے۔ یوگا میں بہت سی مشقیں ہیں جن میں جسمانی حرکات اور مراقبہ دونوں شامل ہیں۔ ان کے ذریعے یوگا کرنے والا درحقیقت اپنے ذہن ، جسم اور روح کو ایک نظم (ڈسپلن) میں لے آتا ہے۔ ان مشقوں میں مختلف جسمانی حرکات، سکونی انداز، کھنچائو، سانس کی مشقیں، غذائی اور روحانی طریقہ کار اختیار کیے جاتے ہیں۔   

اسی طرح دم سادھنا  بھی بنیادی طور پر یوگا کی ہی ایک شاخ ہے۔ اس تکنیک میں سانس کو زیادہ سے زیادہ دیر تک روکنے کی مشق کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یوگی حضرات اس مشق کے ذریعے کئی کئی گھنٹے تک سانس روکنے پر قادر ہو جاتے ہیں۔سانس رو ک لینے کی حالت میں جسمانی سرگرمیاں بہت حد تک کم ہو جاتی ہیں اور اس حالت میں ذہنی یکسوئی کے ذریعے کئی محیرالعقول کام کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں۔

3۔ ٹیلی پیتھی (Telepathy)

ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ کئی بار ہم کسی دوست کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں اور عین اسی وقت وہ دوست خود آن پہنچتا ہے یا اس کی کال آ جاتی ہے۔ اصلاََ تو بس یہی ٹیلی پیتھی ہے۔ تاہم اس طریقے میں دوسروں کے خیالات پڑھنے کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس تکنیک کی مدد سے آپ اپنے خیالات دوسروں کے ذہن تک بھی پہنچا سکتے ہیں۔

4۔ ہپنا ٹزم اور مسمریزم (Hypnotism)

عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس علم کے ماہر لوگ، کسی بھی شخص کو مسمرائز یا ہپنا ٹائز کر کے اس سے اپنی مرضی کا کوئی بھی کام لے سکتے ہیں۔ تاہم یہ بات محض افسانوی ہے۔ ہپنا ٹزم کے ماہرین دراصل اپنے مریض کو ایک خاص حالت میں لے جا کر ان کے ذہن میں موجود کچھ خوف (فوبیا) یا الجھنیں ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کام بھی کئی سیشن میں کیا جاتا ہے۔

ہپناسس (عمل تنویم)کے ذریعے جو کیفیت پیدا کی جاتی ہے، وہ دراصل سونے اور جاگنے کے درمیان کی ایک کیفیت ہوتی ہے۔ اس کیفیت میں ہپناٹسٹ اپنے مریض یا معمول کو چند ہدایات بھیجتا ہے اور معمول کا ذہن ان ہدایات کے مطابق عمل کرتا ہے۔

طبی شعبے مین ہپنا تھراپی کا استعمال خاصا عام ہے۔ بری عادتوں کے چھٹکارے کے لیے اس تکنیک کو خاصا موثر سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح درد سر، السر، بے خوابی اور بلڈ پریشر کے مسائل میں اس سے مدد لی جاتی ہے۔ دراصل ان امراض کا سبب کوئی جذباتی کیفیت ہوتی ہے اور ایک اچھا ہپنا تھراپسٹ اس جذباتی کیفیت کو بدل کر ان امراض کا علاج کرتا ہے۔

5۔ روشنی کا مراقبہ (Mediation)

کراچی میں روحانی سلسلے کے ایک بزرگ جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے" روشنی کے مراقبے" کے طریقے  کو خاصا عام کیا ہے۔ انھوں نے مختلف روشنیوں (رنگوں) کے اثرات کو بیان کرتے ہوئے، اس مراقبے کی مدد سے کئی طرح کے ذہنی و جسمانی امراض کا علاج کرنے کے طریقے بیان کیے ہیں۔ان کی کتاب "مراقبہ" اس موضوع پر ایک مستند اور معیاری کتاب ہے اور مراقبے کے شوقین حضرات اس کتاب کی مدد سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔  

            6۔ وپاشنا  (Vipassana)

            اس مراقبے کی تاریخ آج سے ڈھائی ہزار سال قبل گوتم بدھ سے جا ملتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب گوتم بدھ کو اپنی بادشاہت سے بے چینی شروع ہوئی اور وہ محل چھوڑ کر جنگل میں جا بسا اسے کئی سال کی ریاضت کے بعد اسی مراقبے کے ذریعے گیان ملا تھا۔ چونکہ یہ مراقبہ گوتم بدھ سے منسوب ہے، اس لیے بدھ مت کے پیرو یہی مراقبہ کرتے ہیں۔

            وپاشنا میں مختلف طریقوں کے ذریعے اپنے اندر کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور اپنے اندر کے تجربات کا شعور حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں اپنے ذہن اور جسم کو مختلف کثافتوں سے پاک کیا جانا بھی مقصود ہوتا ہے۔ وپاشنا کی مشق سے بہت سی جسمانی ، روحانی اور جذباتی بیماریوں کا علاج کیا جا سکتا ہے۔

            نیپال اور برما سمیت کئی ممالک میں اس طریقے کے مطابق مراقبہ کرانے کے لیے مراکز بنائے گئے ہیں جہاں ابتدائی  طور پر دس دن کا کورس کرایا جاتا ہے۔ اس طریقے میں، سانس پر فوکس کر کے آغاز کیا جاتا ہے اور پھر مختلف مشقوں کے ذریعے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے پورے بدن کے چھوٹے چھوٹے حصوں کی سنسناہٹ پر توجہ مرکوز کرائی جاتی ہے۔ اس دوران نظم کی سخت پابندی کرائی جاتی ہے اور اور دس دن تک صرف ایک وقت کا کھانا دیا جاتا ہے۔ بولنے کی سخت ممانعت ہوتی ہے۔ اس طرح دس دن میں پورا ذہن کثیف خیالات سے پاک ہو جاتا ہے۔

جدید طریقے

            1۔ ایموشنل ریلیزنگ تکنیک (سیڈونا میتھڈ) (Sedona Method)

            انسان میں بنیاد ی طور پر نو قسم کے بنیادی جذبات یا احساسات پائے جاتے ہیں۔ مایوسی، غصہ،، غم، خوف، شہوت، غرور، جرات، تسلیم اور امن۔ جب ہم کسی جذباتی کیفیت میں ہوتے ہیں تو یہ دراصل ہمارے جذبات ہوتے ہیں، ہم نہیں ہوتے۔ جذبات تو محض احساسات ہیں اور ان احساسات کی جڑیں ہمارے اندر نہیں ہوتیں۔ لہٰذا ہم ان جذبات سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔

            ایموشنل ریلیزنگ تکنیک آپ کو یہی فن سکھاتی ہے کہ کیسے آپ اپنی مرضی کے مطابق  (کہ جب آپ چاہیں یا ضرورت محسوس کریں) ان جذبات سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں۔ اس طریقے کہ ذریعے آدمی نہ صرف اپنے منفی جذبات و احساسات کو کنٹڑول کر سکتا ہے بلکہ اپنے مثبت جذبات کو مزید قوی بھی کر سکتا ہے۔ اس طرح گویا آپ جذباتی کیفیت کے چنگل سے آزاد ہو جاتے ہیں۔

            ایموشنل ریلیزنگ تکنیک کی ابتدا لیسٹر لیونسن نامی ایک امریکی نے کی تھی۔ اس تکنیک کے دو معروف طریقے ہیں جو " دی سیڈونا میتھد" اور دی ابینڈنس کورس" کہلاتے ہیں۔  ان طریقوں کے ذریعے ذہنی دبائو کو دور کیا جاتا ہے اور جذباتی رکاوٹوں کو ہٹایا جاتا ہے۔ اس موضوع پر لیسٹر لیونسن کے ایک شاگرد ہل ڈواسکن نے " دی سیڈونا میتھڈ" نامی ایک کتاب بھی تحریر کی ہے جو نیو یارک ٹائمز کی بہترین بکنے والی کتاب کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔

            2۔ سِلوا الٹرا مائنڈ میتھڈ   (Silva Ultra Mind Method)

            یہ طریقہ جوزف سلوا نامی ایک ماہر نفسیات نے تیار کیا۔ جوزف سلوا کے ذہن پر تجربات کی بنیاد اس کا الیکٹرونکس کا پس منظر اور نفسیات کا مطالعہ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ کارکردگی بہتر بنانے کے لیے دماغ کی برقی مزاحمت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے مطابق، جب دماغ کم فعال ہوتا ہے تو اس حالت میں وہ زیادہ متحرک ہوتا ہے۔ یہ طریقہ دراصل "ای ایس پی" ( الٹرا سنسری پرسپشن) کو بہتر بناتا ہے۔

            سِلوا کے طریقہ کار میں جو مشقیں شامل ہیں، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پر سکون یکسوئی اور واضح ذہنی تصور سازی کے لیے بہت موثر ہیں۔ سلوا وہ پہلا شخص تھا جس نے بتایا کہ انسانی دماغ اپنی الفا اور تھیٹا حالتوں سے واقف ہونا سیکھ سکتا ہے کہ جن میں دماغ کی فریکوئنسی بہت کم ہوتی ہے۔

            3۔ این ایل پی   (NLP: Neuro Linguistic Programming)

            این ایل پی (نیورو لنگوئسٹک پروگرامنگ) ایک موثر اور مقبول مائنڈ سائنس تکنیک ہے۔ اس کے ذریعے ایک انسان کے رویے اور مزاج کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس نظام کو سمجھنے کے بعد، ہم اس رویے میں مطلوبہ تبدیلی لا سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ این ایل پی دراصل ہپناسس کی جدید ترین شکل ہے۔ اس کی دریافت کا سہرہ دو دوستوں جان گرائنڈر اور رچرڈ بینڈلر کے سر ہے۔

 

            این ایل پی میں گفتگو پر توجہ اور پُر مقصد گفتگو کا سلیقہ سکھایا جاتا ہے۔یعنی اس میں گفتگو کے فن پر بہت زور دیا جاتا ہے، کیونکہ این ایل پی کا براہ راست موضوع ہی خود اپنے آپ سے اور دوسرے لوگوں سے گفتگو کرنا ہے۔ این ایل پی کی ٹریننگ کے بعد آدمی اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ کسی بھی فرد کی ذہنی حکمت عملی کا جائزہ لے سکے اور اس کے مطابق بالکل اسی انداز سے خود بھی عمل کر سکے۔

            4۔  لاء آف اٹریکشن   (Law of Attraction)

            یہ مائنڈ سائنس کے چند بہت ہی معروف اور مقبول قوانین میں سے ہے۔ اس کی شہرت کی ایک خاص وجہ " دی سیکرٹ" نامی مووی ہے جو 2006 میں امریکہ میں ریلیز ہوئی اور بہت پسند کی گئی۔

            لاء آف اٹریکشن یعنی کشش کا قانون کہتا ہے کہ ایک جیسی چیزیں ایک دوسرے کو کشش کرتی ہیں یعنی آپ وہی کچھ حاصل کرتے ہیں جس کے بارے میں آپ (شعوری یا لا شعوری طور پر ) سوچتے ہیں۔ اس قانون کے مطابق، آپ کو وہی کچھ ملتا ہے جس پر آپ اپنی توجہ اور توانائی مرکوز کرتے ہیں۔ آدمی جیسا سوچتا ہے، ویسا ہی ہو جاتا ہے۔ آپ جو چیز چاہتے ہیں، وہ چیز بھی آپ کو چاہتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ

            قانون کشش ایک عمل کا نام ہے۔ یعنی اسے سیکھ کر، دیکھ کر ، سمجھ کر اور اپنی زندگی میں اس کا اطلاق کر کے یا اسے استعمال کر کے اپنے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے اور ناکامی کو کامیابی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

            5۔ مائنڈ فُلنس  (Mindfulness)

            مائنڈ سائنس کے میدان میں اس وقت سب سے زیادہ تحقیق مائنڈ فلنس پر ہو رہی ہے۔ اس کے مطابق، ہم اپنی زندگی میں بہت سی سہولتیں اور کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود  ان سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا پاتے کیونکہ یہ سب چیزیں ملنے کے باوجود ہم مائنڈ فُل نہیں ہوتے۔ اس سے ہماری ذہنی اور جسمانی توانائیں ضائع ہو جاتی ہیں اور ہم اپنی توانائیوں کے محض 30 سے 40 فیصد ہی سے فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔

 

            مائنڈ فلنس ہماری وہ فطری صلاحیت ہے جس کی بدولت ہم ان چیزوں اور کاموں پر اپنی تواجہ فوکس کر سکتے ہیں جو ہماری توجہ کے طالب ہیں۔ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ ہماری توجہ اپنے کام کی بجائے کہیں اور ہوتی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ ہماری کارکردگی اور پروڈکشن میں کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔ مائنڈ فلنس کی مہارت ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ ہم اپنی توانائیوں کا بہترین استعمال  کر سکیں۔ گویا زندگی کے ہر معاملے میں اپنی آنکھیں کھلی رکھنا اور اپنی صحت، خوشی اور مثبت تبدیلیوں سے مستفید ہونے کا نام مائنڈ فلنس ہے۔    

            اگلی قسط میں ہم آپ کے سامنے پاکستان میں مائنڈ سائنس کے  مشہور ماہرین اور ان کے کورسز کا تعارف پیش کریں گے۔ 

متعلقہ عنوانات