ملتے نہیں ہو ہم سے یہ کیا ہوا وتیرا
ملتے نہیں ہو ہم سے یہ کیا ہوا وتیرا
ملنے لگا ہے شاید اب تم سے کوئی خیرا
آنکھوں ہی میں اڑایا نقد دل و جگر کو
وہ شوخ دل ربا ہے کیسا اٹھائی گیرا
الفت کا جرم بے شک سرزد ہوا ہے ہم سے
اس کو صغیرہ سمجھو چاہے اسے کبیرا
میدان حشر تیرا کوچہ بنا ہے قاتل
جاتا ہے اب جو کوئی آتا ہے قشعریرا
گرویدہ کر لیا ہے نیرنگئ نظر نے
کیسی ہوئی فسوں گر وہ شوخ چشم گیرا
اس شوخ دل ربا پر کیوں کر نہ ہوں فدا ہم
سج دھج ہوئی نرالی باندھا جو اس نے چیرا
منت پذیر اس کے آخر کو ہو گئے ہم
جو مدعا تھا اپنا اس نے کیا پذیرا
شاغل جو ہو گئے ہیں محمود عاقبت ہیں
سلطانہ شغل شب ہے دن کا ہوا نصیرا
تھے شیفتہ جو ساقیؔ اک مست نوش لب کے
میخانے ہی کے اندر اپنا بنا خطیرا