12 ربیع الاول: حضور ﷺ کی ولادت باسعادت کا دل نشیں تذکرہ
حضور ﷺ کی ولادت باسعادت کا خوب صورت تذکرہ۔۔۔دل نشیں انداز میں۔۔۔۔
حضور ﷺ آپ آئے تو دل جگمگائے
ربیع الاول کا مہینا تھا، دو شنبہ (سوموار) کا دن تھا۔ اور صبح صادق کی ضیاء بار سہانی گھڑی تھی۔ رات کی بھیانک سیاہی چھٹ رہی تھی اور دن کا اُجالا پھیلنے لگا تھا۔ جب مکہ کے سردار حضرت عبد المطلب کی جواں سال بیوہ بہو کے حسرت و یاس کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے سادہ سے مکان میں ازلی سعادتوں اور ابدی مسرتوں کا نُور چمکا۔
ایسا مولودِ مسعود توَلد ہوا جس کے من موہنے مکھڑے نے، صرف اپنی غمزدہ ماں کو ہی سچی خوشیوں سے مَسرُور نہیں کیا بلکہ ہر درد کے مارے کے لبوں پر مسکراہٹیں کھیلنے لگیں۔ اس نورانی پیکر کے جلوہ فرمانے سے صرف حضرت عبداللہ کا کُلبَہ احزاں جگمگانے نہیں لگا بلکہ جہاں کہیں بھی مایوسییوں اور حِرماں نصیبوں نے اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے وہاں امید کی کرنیں روشنی پھیلانے لگیں اور ٹوٹے دلوں کو بہلانے لگیں۔ صرف جزیرہ عرب کا بَختِ خُفتہ ہی بیدار نہیں ہوا بلکہ انسانیت ، جو صدیوں سے ہَوا و ہوَس کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی اور ظلم و ستم کے آہنی شکنجوں میں کَسی ہوئی کراہ رہی تھی اُس کو ہر قسم کی ذہنی، معاشی اور سیاسی غلامی سے رہائی کا مُژدہ جان فزا ملا۔ فقط مکہ و حجاز کے خدا فراموش باشندے، خدا شناس اور خود شناس نہیں بنے بلکہ عرب و عجم کے ہر مکین کے لئے میخانہء معرفت کے دروازے کھول دیئے گئے اور سارے نوع انسانی کو دعوت دی گئی جس کا جی چاہے آگے آئے اور مئے طہور سے جتنے جام نوش جاں کرنے کی ہمت رکھتا ہے اٹھائے اور اپنے لبوں سے لگالے۔ طیور خوش نَوا زَمزَمَہ سَنج ہوئے کہ خزاں کی چیرہ دستیوں سے تباہ حال گلشن انسانیت کو سرمدی بہاروں سے آشنا کرنے والا آگیا ہے۔ سربَگریباں غُنچے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ انہیں جگانے والا آیا اور جگا کر انہیں شگفتہ پھول بنانے والا آیا، افسردہ کلیاں مسکرانے لگی تھیں کہ ان کے دامن کو رنگ و نکہت سے فردوس بداماں کرنے والا آیا، علم و آگہی کے سمندروں میں حکمت کے جو آبدار موتی آغوشِ صدف میں صدیوں سے بے مصرف پڑے تھے ان میں شوقِ نمود انگڑائیاں لینے لگا۔
(اقتباس: "ضیاء النبی ﷺ" جلد دوم ص 27 از جسٹس پیر کرم شاہ الازہری)
آج کی تاریخ وہ تاریخ ہے جس کے انتظار میں پِیرکُہَن سال دَہر نے کروڑوں برس صَرف کردیے۔ سیارگانِ فلک اسی دن کے شوق میں ازل سے چشمِ براہ تھے، چرخ کُہن مدت ہائے دراز سے اسی صُبح ِ جان نواز کے لئے لیل و نہار کی کروٹیں بدل رہا تھا۔ کارکنان قضا و قدر کی بزم آرائیاں، عناصر کی جدت طرازیاں، ماہ و خورشید کی فروغ انگیزیاں، ابرو باد کی تردستیاں، عالم قُدس کے انفاسِ پاک، توحید ابراہیم، جمالِ یوسف، معجز طرازی موسی، جان نوازی مسیح علیہم السلام سب سی لئے تھے کہ یہ متاع ہائے گراں اور شہنشاہِ کونین ﷺ کے دربار میں کام آئیں گے۔
آج کی صبح وہی صبح جان نواز، وہی سماعتِ ہمایوں، وہی دورِ فرخ فال ہے، اربابِ سیر اپنے محدود پیرایہء بیان میں لکھتے ہیں کہ، "آج کی رات ایوانِ کسریٰ کے 14 کنگرے گر گئے، آتش کدہء فارس بُجھ گیا، دریائے ساوہ خشک ہوگیا" لیکن سچ یہ ہے کہ ایوانِ کسریٰ نہیں بلکہ شانِ عجم، شوکتِ روم ، اوجِ چین کے قصر ہائے فلک بوس گر پڑے، آتش فارس نہیں بلکہ جحیمِ شر ، اتش کدہء کفر، آذر کدہء گمراہی سرد ہوکر رہ گئے، صنم خانوں میں خاک اُڑنے لگی، بت کدے خاک میں مل گئے، شیرازہء مجوسیت بکھر گیا، نصرانیت کے اوراقِ خزاں دیدہ ایک ایک کرکے جھڑ گئے۔
توحید کا غلٖلہ اٹھا، چمنستانِ سعادت میں بہار آگئی، آفتابِ ہدایت کی شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں، اخلاقِ انسانی کا آئینہ پرتَو قدس سے چمک اٹھا۔
یعنی یتیمِ عبداللہ، جگر گوشہء آمنہ، شاہِ حرم، حکمرانِ عرب، فرمان روائے عالم، شنہشاہ کونین ﷺ
شمسہ نہ مسند ہفت اختران
ختم رسل خاتم پیغمبران
احمد مرسل کہ خرد خاک اوست
ہر دور جہاں بستہ فتراک اوست
امی و گویا بہ زبان فصیح
از الف آدم و میم مسیح
رسم ترنج است کہ در روزگار
پیش دہد میوہ پس آرد بہار
عالَم قُدس سے عالَم امکان میں تشریف فرمائے عزت و اجلال ہوئے، اللھم صلی علیہ وعلی الہ واصحابہ وسلم
(اقتباس: "سیرت النبی ﷺ" جلد اول از مولانا شبلی نعمانیؒ ص 136)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مشکل الفاظ کے معانی:
کُلبَہ احزاں: غم اور مایوسی میں گھِرا ہوا جھونپڑا یا مکان
حِرماں نصیب: بدقسمت، جس کی قسمت میں مایوسی ہی مایوسی ہو
بختِ خُفتہ: ہوئی ہوئی قسمت، بدقسمتی
مُژدہ جاں فِزا: ایسی خوش خبری جو دل و جاں میں خوشی میں اضافہ کرے
زَمزَمَہ سَنج: نغمہ خواں، مداح، قصیدہ خواں، گُن گانے والا
پِیرکُہَن سال دَہر: طویل عرصہ، وہ زمانہ جسے طویل عرصہ گزر چکا ہو
چشم بَراہ: منتظِر، انتظار میں بے قرار
اربابِ سیر: سوانح نگار، سیرت نگار