میرؔ و غالبؔ بنے یگانہؔ بنے
میرؔ و غالبؔ بنے یگانہؔ بنے
آدمی اے خدا خدا نہ بنے
موت کی دسترس میں کب سے ہیں
زندگی کا کوئی بہانہ بنے
اپنا شاید یہی تھا جرم اے دوست
با وفا بن کے بے وفا نہ بنے
ہم پہ اک اعتراض یہ بھی ہے
بے نوا ہو کے بے نوا نہ بنے
یہ بھی اپنا قصور کیا کم ہے
کسی قاتل کے ہم نوا نہ بنے
کیا گلہ سنگ دل زمانے کا
آشنا ہی جب آشنا نہ بنے
چھوڑ کر اس گلی کو اے جالبؔ
اک حقیقت سے ہم فسانہ بنے