میری محدود بصارت کا نتیجہ نکلا

میری محدود بصارت کا نتیجہ نکلا
آسماں میرے تصور سے بھی ہلکا نکلا


روز اول سے ہے فطرت کا رقیب آدم زاد
دھوپ نکلی تو مرے جسم سے سایہ نکلا


سر دریا تھا چراغاں کہ اجل رقص میں تھی
بلبلا جب کوئی ٹوٹا تو شرارا نکلا


بات جب تھی کہ سر شام فروزاں ہوتا
رات جب ختم ہوئی صبح کا تارا نکلا


مدتوں بعد جو رویا ہوں تو یہ سوچتا ہوں
آج تو سینۂ صحرا سے بھی دریا نکلا


کچھ نہ تھا کچھ بھی نہ تھا جب مرے آثار کھدے
ایک دل تھا سو کئی جگہ سے ٹوٹا نکلا


لوگ شہپارۂ یک جائی جسے سمجھے تھے
اپنی خلوت سے جو نکلا تو بکھرتا نکلا


میرا ایثار مرے زعم میں بے اجر نہ تھا
اور میں اپنی عدالت میں بھی جھوٹا نکلا


میں تو سمجھا تھا بہت سرد ہے زاہد کا مزاج
اس کے اندر تو قیامت کا تماشہ نکلا


وہی بے انت خلا ہے وہی بے سمت سفر
میرا گھر میرے لئے عالم بالا نکلا


زندگی ریت کے ذرات کی گنتی تھی ندیمؔ
کیا ستم ہے کہ عدم بھی وہی صحرا نکلا