میری آہوں میں اثر ہے کہ نہیں دیکھ تو لوں

میری آہوں میں اثر ہے کہ نہیں دیکھ تو لوں
رفعت درد جگر ہے کہ نہیں دیکھ تو لوں


وہ جو تھا باعث تسکین غم ہجر کبھی
اب وہی دیدۂ تر ہے کہ نہیں دیکھ تو لوں


وہ تو آ جائیں گے سر تا پا تجلی بن کر
تاب نظارہ مگر ہے کہ نہیں دیکھ تو لوں


شام غم روز ازل سے رہی ہم راہ مرے
میرے غم کی بھی سحر ہے کہ نہیں دیکھ تو لوں


خانۂ دل میں فروزاں ہے جو مانند چراغ
داغ وہ رشک قمر ہے کہ نہیں دیکھ تو لوں