میری محسن کتابیں
(اس عنوان سے رسالہ الندوہ (لکھنؤ) میں ایک سلسلہ مضامین مختلف اصحاب کے قلم سے شائع ہو رہا ہے، ذیل کا مضمون مدیر صدق کے قلم سے اسی سلسلہ کی ایک قسط ہے) حکم ملا ہے ایک رند خراباتی کو، ایک گمنام اور بد نام، گوشہ نشین قصباتی کو کہ وہ بھی اہل فضل و کمال کی صف میں در آئے اور اپنا افسانہ رسوائی دنیا کو کہہ سنائے اور یہ حکم دینے والے کون! ایک بزرگ صورت1 و بزرگ2سیرت خورد3 ۔ بہتر۔ بزرگوں اور خوردوں کو اگر لطف اسی داستان میں آتا ہے تو لیجئے، تعمیل فرمائش ابھی ہوئی جاتی ہے۔ لیکن آپ حضرات بھی تو سوچ سمجھ لیں، دنیا آپ کے حسن انتخاب کو کیا کہے گی! لو پسند آئیں ادائیں انہیں دیوانوں کی!آنکھ کھلی ایک خاصے مذہبی گھرانے میں۔ باپ (اللہ ان کی تربت ٹھنڈی رکھے) ایک اچھے سرکاری عہدہ دار ہونے کے باوجود علماً مولوی اور عملاً دیندار۔ ماں (اللہ ان کی عمر میں مزید برکت عطا فرمائے) شب بیدار، تہجد گزار، زمانہ انیسویں صدی عیسوی کے اخیر کا۔ گھر پر مشرقی تعلیم کا چلن ایک حد تک باقی تھا۔ مولوی صاحب کے پاس بٹھائے گئے۔ قرآن (ناظرہ) کے ساتھ ساتھ اردو بھی شروع ہو گئی۔ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب میرٹھی مرحوم کی ریڈریں کچھ اس طرح مزہ لے لے کر پڑھیں کہ ان کی شیرینی اب تک یاد ہے اور اردو ٹوٹی پھوٹی جو کچھ بھی لکھنی آئی اس کی بنیاد اسی وقت سے پڑ گئی۔ فارسی میں گلستاں، بوستاں، رقعات قتیل، یوسف زلیخا کے علاوہ کیمیائے سعادت بھی کچھ سمجھے اور زیادہ تر بے سمجھے جوں تو ختم کر ڈالی، داخلہ اسکول میں ہوا۔ زبان عربی، استاد شفیق ملے۔ عربی سے جو الجھن اور وحشت نہ ہونے پائی، تصرف ہے انہیں بزرگوں کا۔ابھی بچپن ہی تھا کہ ایک انگریزی تعلیم یافتہ چچا زاد بھائی نے شوق اخبارات کا پیدا کرا دیا۔ دل خارجی مطالعہ میں لگنے لگا۔ اخبار، رسالہ، اشہتار، کتاب جو چھپی چیز بھی سامنے آ جاتی، مجال نہ تھی کہ بچ کر نکل جائے۔ اردو کے علاوہ انگریزی، فارسی، عربی میں کچھ شد بد تو ہو ہی گئی تھی، فقہ، تصوف، منطق، مناظرہ، ادب، فسانہ، ناول، ناٹک، طب، شاعری، سب ہی کچھ تو اس میں آ گیا۔ جوش خاصا مذہبی موجود تھا، آریوں اور عیسائیوں کی مناظرانہ کتابوں پر نظر پڑی۔ اک آگ سی لگ گئی۔ تلاش جوابات کی ہوئی، دھن سی سوار ہو گئی، مولانا ثناء اللہ امرتسری کی ’’ترک اسلام‘‘ وغیرہ، مرزا غلام احمد قادیانی کی ’’سرمہ چشم آریہ‘‘ وغیرہ حکیم نور الدین کی ’’نور الدین‘‘ مولانا محمد علی مونگیری ناظم ندوہ کا ماہنامہ ’’تحفہ محمدیہ‘‘ اسی دور کی یاد گار ہیں اور ہاں ایک نام تو ذہن سے نکلا ہی جاتا تھا۔ اب وہ بیچارے یوں بھی گمنام ہو گئے ہیں، مولوی احسان اللہ عباسی وکیل گورکھپور مصنف ’الاسلام، تاریخ الاسلام‘ وغیرہ۔ ذوق و شوق سے ساری کتابیں پڑھیں، اور اپنی بساط کے لائق کچھ لکھا لکھایا بھی۔ ادبی میدان میں شرر مرحوم اور ان کے معاصرین منشی سجاد حسین ایڈیٹر اودھ پنچ وغیرہ کا دور دورہ رہا۔یہ دور کہنا چاہئے کہ 1903ء سے 1907ء تک رہا۔ 7ء میں نیاز ’’مقالات شبلی‘‘ اور ’’الکلام‘‘ سے حاصل ہوا اور اسی دم سے جادو مولانا شبلی کا چل گیا۔ تلاش ان کی اور تحریروں کی شروع ہوئی۔ انہیں پڑھتا نہ تھا۔ تلاوت کرتا تھا۔ ’’ الندوہ‘‘ والد مرحوم کے نام سے جاری کرایا۔ پرانے پرچے منگائے۔ تازہ پرچہ کے دن گنا کرتا۔ مولانا کے ہر مضمون کی ایک ایک سطر پار بار پڑھتا۔ فقرے کے فقرے حفظ ہو گئے، ترکیبیں زبان پر چڑھ گئیں۔ ہم سنوں سے کہتا پھرتا بلکہ لڑتا پھرتا کہ علامہ شبلی ہیں، دور کے مجدد ہیں، نذیر احمد، حالی، سر سید، آزاد کے ساتھ بھی حسن اعتقاد قائم رہا۔1908ء میں عمر کا سولہواں سال تھا کہ میٹرک پاس کر لکھنؤ کالج میں داخل ہوا اور اب انگریزی کتابوں پر ٹوٹ پڑا۔ اتفاق سے شروع ہی میں ایک بڑے انگریز ڈاکٹر کی کتاب سامنے آ گئی۔ظالم نے کھل کر اور بڑے زور دار الفاظ میں مادیت کی حمایت اور مذہب و اخلاق دونوں سے بغاوت کی تھی۔ موضوع یہ تھا کہ عصمت اور نیک چلنی کے کوئی معنی نہیں محض پرانے لوگوں کا گڑھا ہوا ڈھکوسلا ہے۔ اصل شے صحت اور مادی راحت ہے۔ صحت کا خیال رکھ کر جو کچھ جی میں آئے کرو۔ نکاح وغیرہ کی قیدیں سب لایعنی ہیں۔ مصنف کے پیش نظر اسلام یقیناً نہ تھا لیکن زد تو بہر حال اسلام پر پڑتی تھی، خیالات ڈانوا ڈول ہونے لگے۔ اس زمانہ میں اتفاق سے ایک اور کتاب بھی نظر سے گذری۔ یہ ادبی تھی۔ مشاہیر عالم کے اقوال و خیالات پر اس میں ایک جگہ پورے قد کی تصویر، صفحہ بھر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی درج تھی اور نیچے سند یہ بھی تھی کہ فلاں (غالباً رومہ) کے میوزیم میں قلمی تصویر موجود ہے یہ اس کا فوٹو ہے۔ حلیہ یہ تھا، سر پر عمامہ، جسم پر عبا، تلوار کمر سے بندھی ہوئی، شانہ پر ترکش، ہاتھ میں کمان، تیوروں پر بل پڑے ہوئے، آنکھوں سے غصہ، بشرہ سے تندخوئی عیاں، شان رحمۃ اللعالمین الگ رہی۔ معمولی نرم دل اور نیک مزاجی کے آثار بھی یکسر مفقود۔ نیچے سند درج، مغربیت سے مرعوب دماغ کے لیےاب شک و شبہ کی گنجائش ہی کہاں رہ گئی تھی؟دماغ پہلے ہی مفلوج ہو چکا تھا، اب دل بھی مجروح ہو گیا۔ ارتداد دبے پاؤں آیا، اسلامیت کو مٹا، ایمان کو ہٹا، خود مسلط ہو گیا۔ آریت، مسیحیت دوسرے مذاہب سے پہلے ہی سے دل ہٹا ہوا تھا، اب کھلم کھلا آزادی اور آزاد خیال کی حکومت قائم ہو گئی۔ الحاد کا نشہ، بے دینی کی ترنگ’’ریشنلزم‘‘ (عقلیت) سے پینگ بڑھے، ’’ریگنا سٹیزم (لا ادریت) سے یارانہ گھٹا۔ لندن کی ریشنلسٹ ایسو سی ایشن (انجمن عقلین) کی ممبری قبول کر سارا وقت ہیوم، مل، اسپنسر، ہکسلے، ہیگل، انگرسول، بریڈ لا، ایوشنز، ڈارون او ر یونان کے حکما، مادین ہنشگللین وغیرہ کی نذر ہونے لگا۔ مل کو اتنا پڑھا، اتنا پڑھا کہ لڑکوں میں مل کا حفاظ مشہور ہو گیا۔ ایک اور کتاب طب سے متعلق عضویات دماغی Organical Physeology پر ایک مشہور انگریز ڈاکٹر کی اس زمانے میں نظر سے گذری۔ ذکر امراض عصبی و دماغی کا تھا۔ بد بخت نے مرض صرع کے ضمن میں لکھا تھا کہ اس کی علامات کو لوگ پرانے زمانہ میں’’وحی الہی‘‘ سمجھنے لگتے تھے، اور مصروع کے عام قوائے دماغی تو بہت اچھے ہوتے ہیں وہ دنیا میں انقلاب برپا کر سکتا ہے، مذہب اور سلطنت دونوں قائم کر سکتا ہے وقس علی ہذا۔۔۔ ارتداد، الحاد، اور اسلام بیزاری میں اگر کچھ کسر باقی تھی تو اب پوری ہو گئی۔ ایف اے کے امتحان کی فیس جانے لگی۔ تو فارم میں جہاں مذہب کا خانہ ہوتا ہے وہاں بجائے مسلمان کے ریشنلسٹ لکھ دیا!الحاد، بے دینی، یا عقلیت کا یہ دور کوئی 8-10 سال تک قائم رہا۔ یعنی 1909ء سے وسط 1918ء تک۔ ایف اے، بی اے کی تکمیل ہوئی 4 ایم اے کی تکمیل نہ ہوئی۔ لیکن تعلیم تو بہر حال فلسفہ لے کر پائی۔ مضمون نگاری، تصنیف، تالیف، اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں جاری رہی۔ ہوتے ہوتے 1918ء آ گیا۔ آخر سال تھا کہ ایک دوست کی تحریک پر انگریزی میں بودھ مذہب پر کتابیں دیکھیں اور دل کسی قدر ادھر مائل ہوا۔ معاً بعد ہندو فلسفہ کا مطالعہ شروع ہو گیا۔ خصوصا مسز بسنٹ اور بنارس کے مشہور فلسفی ڈاکٹر بھگوان داس کے انگریزی تراجم و تالیفات کے ذریعہ سے مغربیت، مادیت، اور عقلیت کا جو تیز نشہ سوار تھا، وہ بتدریج ہلکا ہونے لگا۔ اور دل اس کا قائل ہو گیا کہ مادی اور حسی دنیا کے علاوہ بھی کسی اور عالم کا وجود ہے ضرور۔بھگوت گیتا کا انگریزی ایڈیشن (مسز بسنٹ کا ترجمہ) اس حیثیت سے اکسیر ثابت ہوا۔ خدا کا نام اب قابل مضحکہ نہ رہا، ’’روح اور روحانیت‘‘ کے الفاظ سے نفرت و بیزاری دور ہو گئی، ہاں اسی درمیان میں مولانا شبلی کی سیرۃ النبی کی جلد اول شائع ہو چکی تھی۔ اسے خوب غور سے پڑھا تھا اور اس سے بھی اچھا اثر قبول کیا تھا۔ صاحب سیرت کی رسالت پر ایمان تو اب بھی دور کی چیز تھی لیکن مار گولیس وغیرہ کے اثر سے (نعوذ باللہ) جو ایک خداع اور خونخوار سردار کا تصور قائم ہو گیا تھا، آنکھوں سے یہ زنگ اسی سیرت کے مطالعہ کی برکت سے کٹ چکا تھا اور اس کی جگہ ایک خوش نیت مصلح قوم کے تخیل نے لے لی تھی۔اب دل مسلمان صوفیہ کے اقوال و احوال میں بھی لگنے لگا تھا۔ کشف و کرامت کے ذکر پر اب یہ نہ ہوتا کہ بے ساختہ ہنسی آ جاتی، بلکہ تلاش اس قسم کے ملفوظات و منقولات کی رہنے لگی۔ فارسی اور اردو کتابیں بہت سی اس سلسلہ میں پڑھ ڈالیں۔ مسلمان تو اب بھی نہ تھا لیکن طغیان وعدوان کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ محسن کتابوں کے سلسلہ میں محسن شخصیتوں کا ذکر یقیناً بے محل ہے۔ لیکن اتنا کہے بغیر آگے بڑھا نہیں جاتا کہ اس دور میں دو یا تین زندہ ہستیاں بھی ایسی تھیں جن سے طبیعت رفتہ رفتہ بہت تدریجی رفتار سے سہی لیکن بہر حال اصلاحی ہی اثر قبول کرتی رہی۔ ایک اردو کے مشہور حکیم و ظریف شاعر اکبر الہ آبادی ہیں، دوسرے کامریڈ کے ایڈٰیٹر اس وقت کے مسٹر اور اسی درمیان ’’مولانا‘‘ ہو جانے والے محمد علی! ان دو کے بعد ہلکا ہلکا اثر مولانا حمید الدین مفسر قرآن کا بھی پڑتا رہا۔1919ء قریب ختم تھا۔ ایک عزیز کے پاس مثنوی معنوی (کانپوری ایڈیشن) کے چھ ضخیم دفتر دکھائی دیئے (اللہ رحمۃ اللہ رعد کی تربت پر اپنی رحمت کے پھول برسائے) کاغذ، کتابت، طباعت کے جملہ محاسن ظاہری سے آراستہ۔ حاشیہ نہایت مفصل۔ چند سال ادھر توجہ بھی نہ کرتا لیکن اب زمین پوری طرح تیار ہو چکی تھی، معدہ کو غذا گھنٹہ اور منٹ کی پابندی کےساتھ ٹھیک وقت سے ملی۔ مطالعہ ذوق و شوق سے شروع کیا اور ہر قدم پر شوق کی رفتار تیز سے تیز تر ہو تی گئی۔ الفاظ ملنے مشکل ہیں جن میں اس ذوق و شوق کی کیفیت بیان کی جائے، فارسی استعداد واجبی ہی تھی۔سلوک و معرفت کے نکات و اسرار الگ رہے۔ ظاہری لفظی معنی بھی صدہا اشعار کے سمجھ میں نہ آئے لیکن انہماک کا یہ عالم کہ ایک شعر بھی چھوڑنے کو جی نہ چاہتا تھا اور دل بے اختیار یہ چاہتا کہ جس طرح بھی ممکن ہو سارے دفتروں کو ایک دم سے چاٹ جاؤں۔ کھانے پینے، ملنے جلنے تک کا ہوش نہ رہا۔ طبیعت بیقرار کہ کمرہ بند کئے بس اسی کو شروع سے آخر تک پڑھے چلا جاؤں۔ ہر شعر تیر و نشتر بن کر دل کے اندر پیوست ہوتا جاتا اور تشکیک، ارتیاب، عقلیت ولا ادریت کے بادل سب چھٹتے چلے جاتے۔ حاشیے علمی رنگ کے دل کو زیادہ نہ بھاتے۔ خصوصاً شیخ ابن عربی کے نظریات جہاں آ جاتے وہاں تو دم الجھنے لگتا کہ یہ تو پھر وہی افلاطون وغیرہ کے طرز کی باتیں آ گئیں جن سے گھبرا کر اور اکتا کر میں بھاگا تھا۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے چھوٹے سادے اور پر مغز حاشیے جہاں نظر پڑ جاتے طبیعت پھڑک جاتی اور دل گواہی دے اٹھتا کہ بیشک یہ قول کے سچے ہی کا ہو سکتا ہے۔مولانا نے حضرت رسالت ؐ کے باب میں کہا ہے کہ اس پرکسی معجزہ یا خارق عادت سے دلیل خارجی لانے کے کیا معنی، پیمبر کی تو ہر چیز بجائے خود ایک معجزہ ہوتی ہے۔روے و آواز پیمر معجزہ استبس اپنا بالکل یہی حال خود مثنوی سے متعلق تھا۔ ہر شعر خود پکار کر شہادت دے رہا تھا کہ میں سچے ہی کی زبان سے نکلا ہوں، کسی اور دلیل و برہان کی حاجت ہی نہ تھی۔ مثنوی کا مطالعہ ہفتوں نہیں مہینوں مسلسل جاری رہا اور اس ساری مدت میں ایک نشہ سا سر پر سوار رہا۔ اٹھتے بیٹھے، سوتے جاگتے، چلتے پھرتے بس اس کی دھن، اسی عالم میں کہیں مر گیا ہوتا تو عجب نہیں کہ نکیرین کے سامنے مذہب کے سوال پر جواب زبان سے یہی نکلتا کہ ’’وہی مذہب ہے جو مولانائے روم کا مذہب تھا۔‘‘ قرآن و رسالت تک پر ابھی ایمان پختہ نہ تھا، بس دلیل سب سے بڑی یہی تھی کہ جب صاحب مثنوی اس پر ایمان رکھتے ہیں تو کیوں نہ یہ دین سچا ہوگا۔غالباً اگست 20ء تھا کہ ایک عزیز کے پاس مولوی محمد علی لاہوری کا انگریزی ترجمۃ القرآن پڑھنے میں آیا۔ طبیعت نے اس سے بھی بہت گہرا اور اچھا اثر قبول کیا۔ مغربی راہ سے آئے ہوئے بیسیوں شبہات و اعتراضات اس ترجمہ و تفسیر سے دور ہو گئے اور یہ رائے اب تک قائم ہے۔ اس بیس سال کے عرصہ میں خامیاں اور غلطیاں بہت سی، بلکہ بعض جگہ تو ایسی جسارتیں جن کے ڈانڈے تحریف سے مل جاتے ہیں۔ اس ترجمہ و تفسیر کی علم میں ا ٓچکیں لیکن انگریزی خوانوں اور مغرب زدوں کے حق میں اس کے مفید اور بہت مفید ہونے میں ذرا بھی کلام نہیں۔ ہدایت کا واسطہ، جب اللہ کی حکمت، صریح غیر مسلموں کے کلام کو بنا دیتی ہے تو یہ تو بہر حال اللہ کے کلام کا ترجمہ و حاشیہ ہے۔ مترجم کی بعض اعتقادی غلطیوں کی بنا پر ان کی ساری کوشش سے بد ظن ہو جانا قرین انصاف و مقتضائے تحقیق نہیں۔نیم مسلمان ہو چکنے کے بعد پھر پورا مسلمان بن جانا ور ادخلوا فی السلم کافہ کے تحت میں آ جانا کچھ زیادہ دشوار نہ تھا۔ اقبال کی اردو اور فارسی نظمیں محمد علی کی نظمیں اور تحریریں (خصوصا ً زمانہ نظر بندی21-23ء کی) سب اپنا اپنا کام کرتی رہیں، دل میں گھر کرتی گئیں۔ یہاں تک کہ مکتوبات مجددی نے اس پر پوری مہر لگا دی۔ مکتوبات کا جو امرتسری نسخہ متعدد جلدوں میں پیش نظر رہا وہ اپنی صفائی، خوشنمائی اور کثرت حواشی کے لحاظ سے گویا مثنوی ہی کے اسی کانپوری ایڈیشن کی ٹکر کا تھا اور اثر میں شاید اس سے کچھ ہی کم۔ مثنوی سے اگر طبیعت میں ایک شورش اور تڑپ پیدا ہو گئی تھی، تو اس میں سکون اور ٹھہرواؤ مکتوبات ہی کی برکت سے حاصل ہوا۔ درمیان میں عطار، سنائی، جامی، شیخ جیلانی، غزالی، سہر وردی، وغیرہم اکابر شیوخ کی خدا معلوم کتنی کتابیں نظم و نثر کی نظر سے گذر گئیں لیکن دل پر نقش انہیں دو کتابوں کا سب سے زیادہ گہرا بیٹھا رہا۔ پہلے مثنوی اور پھر مکتوبات۔ حالانکہ سمجھ میں دونوں کا بڑا حصہ اس وقت تو کیا آتا اب تک بھی نہیں آیا۔حال کی انگریزی کتابوں میں ایک قابل ذکر کتاب اور یاد پڑ گئی یہ نو مسلم یورپین لیوپولڈویس محمد اسد Islam on the Cross Road ہے۔ دیکھنے میں چھوٹی سی، معنویت کے لحاظ سے بہت بڑی اور گہری ہے۔ ہر انگریزی خواں کے ہاتھ میں جانے کے قابل۔ بڑی مسرت اسے پڑھ کر ہوئی کہ جو خیالات تہذیب فرنگ و اسلام سے متعلق پہلے سے اپنے قائم ہو چکے تھے۔ یہ مغربی مفکر بھی گویا تمام تر اسی کی تائید کر رہا ہے۔27ء تھا کہ ایک دوست کی رہنمائی سے پہلے رسائی مولانا تھانوی مدظلہ کے مواعظ اور بعض رسائل سلوک تک ہوئی اور پھر 28ء میں خود مولانا اور ان کی دوسری تصانیف تک اس نے حقائق دینی و عرفانی کا ایک نیا عالم نظر کے سامنے کر دیا۔ اب ادھر چند سال سے مسلسل مشغلہ اس بے علم و نا اہل کا خدمت قرآنی کا ہے۔ اپنا تجربہ یہ ہے کہ دوسرے حضرات کے ہاں اکثر اوراق پر اوراق الٹ جانے سے بھی وہ گہرے نکتے نہیں ملتے جو مفسر تھانوی کے ہاں چند سطروں کے اندر میسر آ جاتے ہیں۔ معاصرت کا ابتلا عجب ابتلا ہے۔ اللہ سب کو محفوظ رکھے جو دیکھنا نہیں چاہتے انہیں آنکھیں چیر کر دکھایا بھی کیسے جا سکتا ہے؟ اور یہ صرف تفسیر یا دوسرے علوم ظاہری ہی پر موقوف نہیں ہے۔ علوم باطنی میں تو پایہ شاید کچھ بلند تر ہی نکلے۔اے لقائے تو جواب ہر سوالمشکل از تو حل شود بے قیل و قالمحسن کتابوں کی تعداد ہے اتنی بڑی کہ سب کی تفصیل لکھی جائے تو بجائے خود ایک کتاب تیار ہو جائے۔ مختصر بلکہ مختصر تر اور مختصر یہ کہ حدیث میں صحیح بخاری اور اس کی شرح فتح الباری نے آنکھیں کھول دیں اور فقہ میں شرح صدر کےلئے ائمہ حنفیہ کے اقوال بالکل کافی ثابت ہوئے۔ فہم قرآنی میں معروف و متداول تفسیروں کو معین و مفید پایا۔ ان کی بے وقعتی خود اپنی محرومی کی دلیل ہے۔ ان کتابوں کانام اس بے تکلفی سے لے رہا ہوں کہ گویا سب کو رواں اور صحت اعراب کے ساتھ پڑھ سکتا ہوں۔ حالانکہ یہ ذرا بھی صحیح نہیں۔ لغات، شروح، تراجم کے سہارے کام کسی نہ کسی طرح بس چل ہی جاتا ہے۔ لغت میں تاج العروس اور پھر لسان العرب کے ساتھ اور لغت قرآنی میں مفردات راغب کے ساتھ سب سے زیادہ لگا لپٹا رہتا ہوں۔انسانی کتابوں کے ساتھ اور ان کے ضمن میں اللہ کی کتاب کا نام لے آنا اور دونوں میں موازنہ و تقابل کی ٹھہرانا بڑی ہی بد مذاقی ہے اور پھر محسن کتابوں میں ’’کتابوں‘‘ (صیغہ جمع) کا لفظ خود اس پر دلالت کر رہا ہے کہ ال کتاب موضوع سے بالکل خارج ہے۔حاشیے (1) مولانا سید سلیمان صاحب ندوی(2) علی میاں سلمہ ایڈیٹر الندوہ(3) انہماک خاص کے مضامین دو تھے ایک منطق دوسرے نفسیات۔ نفسیات میں سب سے زیادہ اثر امریکہ کے مشہور استاد فن ولیم جیمس کا رہا۔