میرے مرنے کی بھی ان کو نہ خبر دی جائے

میرے مرنے کی بھی ان کو نہ خبر دی جائے
کس لیے اپنوں کو تکلیف سفر دی جائے


لاکھ کو لے کے چلیں غیر بڑی شان کے ساتھ
گھر سے لے جا کے یہ چوراہے پہ دھر دی جائے


عمر بھر تو نے عطا کی ہے مے ہوش ربا
وقت آخر ہے مئے ہوش اثر دی جائے


سیم و زر سے نہ سہی صبر و قناعت سے سہی
مجھ سے خوددار کی جھولی بھی تو بھر دی جائے


غم سے غم ہو نہ خوشی سے ہو خوشی کا احساس
ایسی تدبیر بھی اے دل کوئی کر دی جائے


تب کہیں جا کے ملے منزل عرفاں کا نشاں
جب نگاہوں کو زباں دل کو نظر دی جائے


دل کہ ہے کشتۂ بیداد فلک اے ساحرؔ
اس کو تابانیٔ خورشید و قمر دی جائے