میرے خوابوں کو مجھ سے گلہ رہ گیا

میرے خوابوں کو مجھ سے گلہ رہ گیا
میں حقیقت میں ہی مبتلا رہ گیا


میں بھی قصے سناتا سفر کے مگر
یاد مجھ کو بس اک مرحلہ رہ گیا


رہ گئے کتنے کردار بھیتر مرے
میرے بھیتر مرا قافلہ رہ گیا


فاصلوں میں رہا قربتوں کا گماں
قربتوں میں کہیں فاصلہ رہ گیا


خیریت پوچھنا اور بتانا کبھی
نسبتوں میں یہی سلسلہ رہ گیا


کوئی کندن ہوا تو کوئی کوئلہ
ایک میں ہی تھا جو ادھ جلا رہ گیا


تول کے بیچے تھے میں نے ٹکڑے سبھی
جانے کیسے یہ دل انتلا رہ گیا


زندگی جی تو لی شرطوں پہ اپنی اب
کیا کروں اس کا یہ جو صلہ رہ گیا