میرے کمرے میں اتر آئی خموشی پھر سے
میرے کمرے میں اتر آئی خموشی پھر سے
سایۂ شام غریباں کی طرح
شورش دیدۂ گریاں کی طرح
موسم کنج بیاباں کی طرح
کتنا بے نطق ہے یادوں کا ہجوم
جیسے ہونٹوں کی فضا یخ بستہ
جیسے لفظوں کو گہن لگ جائے
جیسے روٹھے ہوئے رستوں کے مسافر چپ چاپ
جیسے مرقد کے سرہانے کوئی خاموش چراغ
جیسے سنسان سے مقتل کی صلیب
جیسے کجلائی ہوئی شب کا نصیب
میرے کمرے میں اتر آئی خموشی پھر سے
پھر سے زخموں کی قطاریں جاگیں
اول شام چراغاں کی طرح
ہر نئے زخم نے پھر یاد دلایا مجھ کو
اسی کمرے میں کبھی
محفل احباب کے ساتھ
گنگناتے ہوئے لمحوں کے شجر پھیلتے تھے
رقص کرتے ہوئے جذبوں کے دہکتے لمحے
قریۂ جاں میں لہو کی صورت
شمع وعدہ کی طرح جلتے تھے
سانس لیتی تھی فضا میں خوشبو
آنکھ میں گلبن مرجاں کی طرح
سانس کے ساتھ گہر ڈھلتے تھے
آج کیا کہیے کہ ایسا کیوں ہے
شام چپ چاپ
فضا یخ بستہ
دل مرا دل کہ سمندر کی طرح زندہ تھا
تیرے ہوتے ہوئے تنہا کیوں ہے
تو کہ خود چشمۂ آواز بھی ہے
میری محرم مری ہم راز بھی ہے
تیرے ہوتے ہوئے ہر سمت اداسی کیسی
شام چپ چاپ
فضا یخ بستہ
دل کے ہم راہ بدن ٹوٹ رہا ہو جیسے
روح سے رشتۂ جاں چھوٹ رہا ہو جیسے
اے کہ تو چشمۂ آواز بھی ہے
حاصل نغمگیٔ ساز بھی ہے
لب کشا ہو کہ سر شام فگار
اس سے پہلے کہ شکستہ دل میں
بد گمانی کی کوئی تیز کرن چبھ جائے
اس سے پہلے کہ چراغ وعدہ
یک بہ یک بجھ جائے
لب کشا ہو کہ فضا میں پھر سے
جلتے لفظوں کے دہکتے جگنو
تیر جائیں تو سکوت شب عریاں ٹوٹے
پھر کوئی بند گریباں ٹوٹے
لب کشا ہو کہ مری نس نس میں
زہر بھر دے نہ کہیں
وقت کی زخم فروشی پھر سے
لب کشا ہو کہ مجھے ڈس لے گی
خود فراموشی پھر سے
میرے کمرے میں اتر آئی
خموشی پھر سے