میرے ہاتھ سوالی ہیں
میرے ہاتھ سوالی ہیں
اور میں الٹا کنوئیں کی تہہ میں
پانی کے کندھے جھٹک جھٹک کر
کرنوں کے یخ بستہ کبوتر ڈھونڈھ رہا ہوں
چپ کے رستے لمبے ہو کر تنہا کواڑوں تک پہنچے ہیں
کس کی دستک کون آیا ہے
کون ہے یہ جو بارش کے انجانے
ترنم کی چھتری کے نیچے کھڑا ہے
یہ سنسان حویلی اور لکڑی کے پھاٹک
کس کا رستہ تکتے تکتے بوڑھی عمر کو پنچے ہیں
کل جب چاند ہوا کے ٹانگوں میں سے
سکہ بن کر گرتا تھا
کاٹی فصل کے ڈنٹھل دودھ کی پوروں میں گھلتے تھے
اور میں اپنا ہم چہرہ تھا
دونوں ہاتھ محبت والے دل کی سبز منڈیروں پر تھے
پھر نہ جانے آدھی رات کو کس کے پاؤں
جان کے زخموں میں سے پھوٹے
اور صدا کی کالی آندھی
دور افق سے گرد کا بٹوا لے کر اٹھی