میرے غم کو جو اپنا بتاتے رہے
میرے غم کو جو اپنا بتاتے رہے
وقت پڑنے پہ ہاتھوں سے جاتے رہے
بارشیں آئیں اور فیصلہ کر گئیں
لوگ ٹوٹی چھتیں آزماتے رہے
آنکھیں منظر ہوئیں کان نغمہ ہوئے
گھر کے انداز ہی گھر سے جاتے رہے
شام آئی تو بچھڑے ہوئے ہم سفر
آنسوؤں سے ان آنکھوں میں آتے رہے
ننھے بچوں نے چھو بھی لیا چاند کو
بوڑھے بابا کہانی سناتے رہے
دور تک ہاتھ میں کوئی پتھر نہ تھا
پھر بھی ہم جانے کیوں سر بچاتے رہے
شاعری زہر تھی کیا کریں اے وسیمؔ
لوگ پیتے رہے ہم پلاتے رہے