میرا سایہ
مجھے تم سے کوئی محبت نہ الفت
تعلق بھی اب ہے برائے تعلق
مگر تم سے جب بھی ملا ہوں
مجھے میرا سایہ
جسے میں وہیں چھوڑ آیا
جہاں وہ خیالوں کی وادی میں
خواہش کی تتلی کے پیچھے اڑا جا رہا تھا
تمہاری گھنی زلف کی بدلیوں میں
زمیں سے بہت دور لیکن
میرے پیر میں ڈور ایسی بندھی تھی
کہ جس نے مجھے بدلیوں سے اٹھا کر
زمیں پر بٹھا کر
میرے چاروں جانب کئی دائرے بن دئے ہیں
ہے دشوار جن سے نکلنا
مگر تم سے جب بھی ملا ہوں
مجھے میرا سایہ بہت یاد آیا