شورشِ آب: محمود حیدر پیرزادہ کی درِ دل پر دستک دیتی شاعری کا تذکرہ
خلوص،محبت،عجز اور بردباری کی تجسیم کی جائے تو محمود حیدرؔ پیرزادہ کی تصویرپردہِ تخیل پر اُبھرتی ہے۔ وہ 3 دسمبر 1957ء کو موضع جوڑا سیان ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں سے ہی حاصل کی۔ ان کےوالد چونکہ محکمہ واپڈا میں افسر تھے اس وجہ سے ان کا تبادلہ سیالکوٹ ہوگیا۔ یوں محمود حیدرپیرزادہ نے اپنی بقیہ تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کی۔ ان کی موجودہ رہائش روڑس روڈ سیالکوٹ میں ہے۔
اپنے والدِ محترم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وہ بھی1978ء میں واپڈا میں بھرتی ہوگئے اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے بالآخر 2017ء کو بطور XEN ریٹائر ہوئے ان کا تعلق بھیڑی شاہ رحمان کے روحانی سلسلہ سے ہے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو چا ر بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا جو سب ہنسی خوشی شادی شدہ زندگی گزار رہے ہیں۔
محمود حیدرپیرزادہ اوائل عمری سے ہی شعر وادب کی طرف مائل تھے لیکن باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز کالج کے زمانے سے کیا۔ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ تادمِ مرگ شاعر اہل بیت محسن نقوی کے سامنے باقاعدگی سے زانُوے تَلَمُّذ تَہ کَرْتے رہے ہیں اور ان سے اصلاح لیکر اس بحر کی شنادری میں مصروف ہیں ۔محسن نقوی کی وفات کے بعد سےآپ تسلسل سے سیالکوٹ کے استاد شاعر اعجاز عزائی سے اصلاح لیتے رہے ہیں۔ محمود حیدرپیرزادہ کے بقول:
"شاعری میں کسی استاد کو اپنا کلام نا دکھانے سے آمد بالکل جامد ہوجاتی ہے"۔
محمود حیدرپیرزادہ کی شاعری کا پہلا مجموعہ "خاموش سمندر " کے نام سے 2011ء میں شائع ہوکر منظر عام پر آچکا ہے ان کا دوسرا مجموعہ "شورشِ آب" کے نام سے مئی2022ء میں شائع ہوا ہے۔اس کے علاوہ ان کی تین کتب " قریہِ جاں"، " صحرائے دل" اور "ربطِ نظر" طباعت کے آخری مراحل میں ہیں۔اُن کی شاعری میں رومان کے روایتی رنگ کے ساتھ حالات حاضرہ کے واقعاتی ادراک کا اثر بھی نظر آتا ہے ۔
محمودحیدر پیرزادہ سادہ مزاج اور نیک فطرت انسان ہے۔ان کے صاف اور شفاف دل میں بد گمانی اور نفرت کا بال نہیں ہے ۔وہ حسن وصداقت کے ساتھ محبت کو عام کرنے کے متمنی نظر آتے ہیں۔وہ خلقِ خدا میں خیر اور حسن کے تحفے بانٹنا چاہتے ہیں ۔اُن کی زیست کے نصاب میں محبتوں کا سبق بڑے جلی حروف میں لکھا ہے ۔جس کی ایک ایک سطر محمود حیدرپیرزادہ نے زِیرزَبر کے ساتھ حفظ کر رکھی ہے اور اِسی سبق کی مشق وہ مختلف گردانوں کے رنگ میں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
سرجھکانا تھا مجھے حالات کے پیشِ نظر
ماننا تھا فیصلہ ہر حال میں تقدیر کا
مٹ رہے ہیں ذہن سے کچھ اس طرح تیرے نقوش
رنگ جیسے پڑگیا پھیکا تری تصویر کا
روایت کی غلام گردشوں میں رہتے ہوئے محمودحیدرپیرزادہ نے شاعری کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے ۔ ان کےاشعارگہرے تفکریا فلسفیا نہ تدبر کی دعوت نہیں دیتے ہاں مگر اُن کے یہاں عشق ازل گیروابدتاب کے معاملوں والے کچھ خواب ضرور ہیں جو اپنی تعبیروں کے منتظر تو ہیں مگر اُن میں وہ زور آوری اور دھوم دھڑکا نہیں ہے جو نیند کے خمار کو ہی توڑ کر رکھ دے ۔تنویر احمد تنویر نے محمود حیدرؔ پیرزادہ کے شعری مجموعہ" شورشِ آب"کےدیباچہ میں اُن کی شاعری کا تناظر پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:
" محمود حیدرؔ پیرزادہ کی شاعری کو صرف شاعری سمجھنا شاعر کے ساتھ زیادتی ہے۔ قاری اور سامع کی نگاہ کو اس چیز کا احاطہ کرنا چاہیے جس کے لیے محمود حیدرؔ پیرزادہ نے شاعری کو اپنے دل دل کے جذبات و احساسات کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ محمود حیدرؔ پیرزادہ کے اشعار کی چلمن کے پیچھے زندگی جھانکتی دکھائی دیتی ہے اورکہیں معاشرے کے بے بس و مجبور طبقہ کا کرب، درد اور رنج و غم بھی سسکتا دکھائی دیتا ہے۔"
محمود حیدرؔ پیرزادہ سیدھی سادھی زمینوں میں نہایت سادگی سے اپنے دل کی بات کہہ جاتے ہیں جو قاری کو یک دم چونکاتی تو نہیں مگر دِل میں ہلکی سی کسک پیدا کرجاتی ہے ۔پھر یہی کسک دھیرے دھیرے لُوبان کی طرح سلگتی رہتی ہے اور قاری اُسکی مہک سے دیرتک لطف اَندوز ہوتا رہتا ہے ۔
بستیاں بے نشان کر ڈالے
شورشِ آب جب کہاں گزرے
قیس عامری کی طرح محمود حیدرؔ پیرزادہ صرف لیلیٰ کا دیوانہ نہیں ہے اُنہیں اپنے وطن اور اُس میں بسنے والے اِنسانوں سے بھی محبت ہے ۔جس کے زیرِ اَثر ملک میں پھیلی ہوئی بھوک،غربت اور نفسانفی کے رحجانات کا ذکر بڑے درد مندانہ لہجے میں کر جاتے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ مفلسی اور بھوک انسان کے سارے کس پل نکال دیتی ہے ۔اس سطح پر بھی وہ تلخ ہونے کی بجائے ریاستی جبرا ور معاشرتی بے راہروی کے زہریلے سنکھیاکو مدبر کرکے پیش کرتے ہیں۔جو ان کی تلخی اور تیزی کو کم کرکے انہضام کے لائق بنا دیتا ہے اور گلے میں اٹکنے کی بجائے بدن میں اُتر کر وہ تریاق کی طرح اپنا اَثر ظاہر کردیتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ربّ الاسباب کے تقسیم کردہ حصے بخروں پر شکوہ کناں ہونے سے پہلے ہی وہ تقویتِ اِیمانی کے سہارے راضی بہ رضائے خدا ہوکر پھر اپنی محبت کے سہانے مرغزاروں میں لہلانے لگ جاتے ہیں۔
اب کہ مشکل ہے مرے دوست دوبارہ ملنا
لوگ برداشت نہیں کرتے ہمارا ملنا
میرے نزدیک یہ معیارِ محبت ہی نہیں
میرے دشمن سے ہے گر تجھ کو گوارا ملنا