میرا جی اور نئی شعری روایت

اکا دکا شعری تخلیقات کی روشنی میں جدیدیت کے اولین نشانات تلاش کئے جائیں تو تصدق حسین خالد، تاثیر، فراق، شاد عارفی، مجاز، جذبی، جاں نثار اختر، ساحر، کیفی، سلام مچھلی شہری، حتی کہ بیسوی صدی کے اوائل کے بعض شعرا کے یہاں بھی نئی شاعری کی خاموش دستک سنی جا سکتی ہے۔ یہ نشانات فی الواقع بعض شعرا کی ذاتی کدوکاوش کے مرہون منت تھے۔ ان کے پیچھے نئے نفسیاتی، حسی، جذباتی اور ذہنی تقاضوں کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر تھا۔ ان کا مدعا انفرادی لے کی جستجو اور سماجی مقاصد کے شور میں اپنی تخلیقی استعداد کی پہچان اور اس کا اظہار تھا۔


لیکن نئے احساس، جذبے، شعور، لب و لہجے اور نئے لسانی سانچوں کی تعمیر و تشکیل، پہلی جنگ عظیم کے بعد رونما ہونے والے عالم گیر نفسیاتی اور جذباتی اضطراب کی انقلاب آفریں فضا میں، تیزی سے بنتی اور بگڑتی ہوئی انسانی شخصیت کے وسیع اور پیچیدہ تناظر میں انسان کو اسی قدر کے استعارے کے بجائے، ایک وجودی وحدت کے طور پر دیکھنے اور دکھانے کا واضح عمل، جو ایک نئے شعر ی نظام کا محرک بنا، راشد اور میراجی سے منسوب ہے۔ یہ دو نام ایک نئے ذہنی اور جذباتی موڑ کی علامت ہیں اور ایک سفر کے نقیب، خود راشد کے الفاظ میں، ’’میراجی کی شاعری اور میری شاعری میں تفاوت کی کئی راہیں نکلتی ہیں۔ لیکن ہم دونوں نے اردو شاعری میں غالباً پہلی دفعہ اس شعور کا اظہار کیا ہے کہ جسم اور روح گو یا ایک ہی شخص کے دو رخ ہیں اور دونوں میں کامل ہم آہنگی کے بغیر انسا نی شخصیت اپنے کمال کو نہیں پہنچ سکتی۔۔۔‘‘


’’میرا یا میراجی کا مقصد کسی نظریے کی تلقین کرنا نہ تھا بلکہ ہمارے نزدیک انسانی شخصیت کی داخلی ہم آہنگی ایک طبیعی امر تھا اور اس کا ذکر ہم نے بغیر کسی ذہنی کشمکش یا فشار کے کیا ہے۔‘‘


یہ اقتباسات سلیم احمد کے نام راشد کے ایک خط سے منقول ہیں، جس میں راشد نے ’’نئی نظم اور پورا آدمی‘‘ کے بنیادی موقف کی تائید کی ہے اور یہ اعتراف کیا ہے کہ سلیم احمد ’’اردو ادب کے تنقید نگاروں میں غالباً پہلے شخص ہیں جنہوں نے ان کی اور میراجی کی شاعری کے بنیادی مرکبات تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ خط کا خاتمہ ان الفاظ پر ہوتا ہے کہ ’’اپنے سیاسی واردات کے اظہار کے باوجود ’’پورا آدمی‘‘ اس خاکسار کے اندر زندہ ہے جس نے اختر شیرانی کے ملبے کے نیچے سے رینگ کر سر نکالا تھا اور اسے کوئی بلا اچک نہیں لے گئی اور نہ اس کا کوئی اندیشہ ہے۔ لیکن مجھے اس ’پورے آدمی‘ کو اپنے آپ سے اس طرح الگ کرنا بھی گوارا نہیں کہ وہ محض ’جنسی انسان‘ بن کر رہ جائے اور اس کامل ہم آہنگی سے بے بہرہ ہو جائے جو انسانی شخصیت کی سب وسعتوں پر حاوی ہوتی ہے۔‘‘


راشد کی اس وضاحت کے باوجود، دشواری یہ ہے کہ سلیم ا حمد ’’پورے آدمی‘‘ کی تلاش میں راشد اور میراجی کے جس تخلیقی پیکر سے روشناس ہوئے، وہ روح اور جسم کی وحدت کا امین ہونے کے باوجود ادھورا ہے۔ جو صرف اپنے لہو کے حوالے سے سوچتا اور زندگی کو برتتا ہے اور ایک محدود معنی میں لارنس کی Blood Aesthetic کا مفسر ہے۔ ظاہر ہے کہ جسم اور روح کی ثنویت پر غالب آنے کا مطلب صرف یہ نہیں کہ انسانی روح بس جسمانی بلکہ جنسی تقاضوں کی مؤید بن کر رہ جائے۔ سلیم احمد کا سارا ارتکاز اس نقطے پر ہے۔ چنانچہ اپنے بنیادی نظریے کی سند کے طور پرانہوں نے راشد اور میراجی کے جو حوالے استعمال کئے ہیں، وہ سب کے سب اسی نقطے کے گرد گھومتے ہیں۔ اس نظریے کا نقص سمجھنے کے لئے ایک مثال کافی ہوگی۔


سلیم احمد نے اخترالایمان کی شاعری کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’اختر الایمان کی شاعری کا پلاٹ بہت ہی سادہ ہے۔ محبت پھر وہی شادی کاجھگڑا پڑا۔ عاشق کے پاس سب کچھ ہے سوائے زر نقد کے۔ فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ عاشق پیسہ کمانے جائے اور محبوبہ واپسی کا انتظار کرے۔ عاشق پیسہ کمانے جاتا ہے۔ آج میں تیرے شبستان سے چلا جاؤں گا (تقابلی مطالعہ، جاں نثار۔ ساحر) لیکن پیسہ کمانا آسان تھوڑی ہے۔ روز دفتروں کے چکر کاٹتے کاٹتے جدائی کا درد بھی کھو جاتا ہے۔ ہستی بے رنگ معلوم ہونے لگتی ہے۔ نتیجہ، جمود۔‘‘ قطع نظر اس کے کہ شاعری میں کسی ایسے پلاٹ کاپتہ لگا لینا جس کی منطق اتنی سیدھی سادی ہو اور اس پر ایک عنوان کی تختی نصب کر دینا شاعری کو ایک ذاتی یا اجتماعی پروگرام یا تصادم کے عنصر سے عار ی کسی قصے کی شکل میں دیکھنے کے مترادف ہے اور اس کا اطلاق نئی نظم پر کرنا، اس کے تمام ابعاد کو ایک دائرے میں محصور کر دینا ہے۔


خود ترقی پسندوں کے یہاں، جو انسان کو ایک طے شدہ نظریے اور معینہ منطق کی روشنی میں دیکھتے ہیں، شاعری تک پہنچتے پہنچتے یہ منطق کئی ابعاد پر پھیل جاتی ہے اور انسانی معاشرے، مذہب، فن، تہذیب اور فرد سے اس کے رشتوں پر مبنی ہزارہا سوالات سے مربوط ہو جاتی ہے۔ اشتراکی حقیقت نگاری نے اپنے سماجی، سیاسی اور اقتصادی نظریات کو شاعری میں سمونے کے لئے انسانی شعور، عمل اور جذبے کے تمام مظاہر سے ان کا تعلق قائم کرنے کی سعی کی تھی۔


سلیم احمد جب راشد اور میراجی کو ایک نئی روایت کا بانی، نظم جدید کا موجد ( ’’نظم جدید کا ہاتھی سب سے پہلے میرا جی اور راشد نے نکالا۔‘‘ سلیم احمد) کہتے ہیں اور ساری توجہ اس بات پر صرف کر دیتے ہیں کہ ’’میراجی نے کسری آدمی اور پورے آدمی کو ایک دوسرے کے تقابل میں رکھ کر دیکھا اور کسری آدمی کی پیدائش کی مختلف صورتوں پر غور کیا۔‘‘ اور پھر اس پورے آدمی کی شناخت کانشان صرف کسری آدمی کو بناتے ہیں تو وہ نظم جدید کی صرف ایک جہت پر نظر ڈالتے ہیں اور میراجی یا راشد کی کلیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اسی لئے راشد نے بھی اپنی شاعری کی ’’غایت الغایت‘‘ تک سلیم احمد کی رسائی کا اعتراف کرتے ہوئے بھی یہ وضاحت ضروری سمجھی تھی کہ وہ پورے آدمی کو صرف جنسی انسان سمجھتے ہیں جو ’’انسانی شخصیت کی سب وسعتوں پر حاوی، کامل ہم آہنگی سے بے بہرہ ہوتا ہے۔‘‘


اسٹیڈ نے ’’نئی شعریات‘‘ میں یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ رومانی تحریک نے شاعری کو دو مخالف تشویقات میں منقسم کر دیا تھا۔ اس تقسیم سے اس کا اشارہ شاعری کے مقبول عام اور خواص پسند معیاروں کے درمیانی فاصلے کی جانب ہے، جس میں گزشتہ صدی کی آخری دہائیوں میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔ اسٹیڈ کا خیال ہے کہ بیسویں صدی کے شعرا کا بنیادی مسئلہ اس فاصلے کو کم کرنا یا دو انتہا ؤں میں مفاہمت پیدا کرنا ہے۔ چنانچہ اس کے نزدیک، اس صدی کے ممتاز ترین شعرا نے انسانی وجود کو اس کی کلیت کے ساتھ فعال بنانے کی کوشش کی ہے۔ یے ٹس کی اصطلاح ’’ہستی کی وحدت‘‘ یا ایلیٹ کے الفاظ میں ’’غیر منقسم حسیت‘‘ کا مرکزی تصور جسم اور روح کی دوئی کو ختم کرنا اور شاعری کو پورے آدمی کا جمالیاتی اظہار بنانا ہے۔ دوسرے الفاظ میں نئی شاعری اونامونوکے ’’ٹھوس آدمی‘‘ یا ایڈون میور کے ’فطری آدمی‘ کی ترجمان ہے جس کے ساتھ وجود کی تمام دہشتیں، پیچیدگیاں اور تضادات وابستہ ہیں۔


نئی اور پرانی شاعری کا فرق مقبول عام اور خواص پسند رویوں کے فرق سے زیادہ فی الاصل پورے آدمی اور ادھورے آدمی کے اظہار کا فرق ہے۔ اقبال نے نئے انسان کی شخصیت کے تمام ابعاد پر نظر ڈالی۔ لیکن اپنا آئیڈیل اس انسان کو بنایا جو حال میں موجود نہیں بلکہ حال کے انسان کی امکانی شکل ہے۔ اسی لئے ان کی وجودی فکر جدیدیت کی وجودی فکر سے ایک منزل پر الگ ہو جاتی ہے اور حقائق کے بجائے خوابوں اور ممکنہ قیاسات کی نذر ہو جاتی ہے۔ انہوں نے حالی اور آزاد کی طرح چند تعصبات کی زنجیریں توڑیں تو نئے تحفظات پیدا کر لئے۔ ایک پست تر سطح پر ترقی پسند تحریک کا انداز نظر یہی رہا۔ ۱۹۴۰ میں حلقہ ارباب ذوق کا قیام ترقی پسند تحریک کی قطعیت زدگی اور تعصبات کے خلاف ایک ذہنی احتجاج کے طور پر عمل میں آیا اور اس نے ’’ہستی کی وحدت‘‘ یا ’’غیر منقسم حسیت‘‘ کے فنکارانہ انکشاف کو اپنا اعلان نامہ بنایا۔


حلقے کے شعراء اس انسان کو، جو صرف قومی یا معاشرتی یا مذہبی یا سیاسی یا اخلاقی اقدار کی علامت تھا، ٹھوس انسان سے ہم کنار کرنا چاہتے تھے۔ راشد اور میراجی کو اس حلقے کے شعور اور احساس کے سب سے قوی الاثر ترجمانوں کی حیثیت حاصل ہے۔ اسی لئے ترقی پسندوں کی تعریض و تشنیع کا ہدف بھی سب سے زیادہ راشد اور میراجی ہی بنے۔ سردار جعفری نے حلقہ ارباب ذوق کی تمام مساعی کو ہیئت پرستی، ابہام پرستی اور جنس پرستی تک محدود قرار دے دیا۔ ان کا خیال ہے کہ ’’اس حلقے کے لکھنے والے ایک گندی اور مجہول رومانیت کے شکار تھے اور فرائڈ اور ٹی ایس ایلیٹ کی آغوش میں ڈوب کر تمام سماجی ذمہ داریوں سے بے نیاز ہو گئے تھے۔‘‘


اس سلسلے میں سردار جعفری نے یہ عجیب و غریب نظریہ بھی پیش کیا ہے کہ حلقۂ ارباب ذوق کا قیام چونکہ پنجاب میں عمل میں آیا تھا اور پنجاب میں اردو صرف درمیانی طبقے کی علمی زبان ہے اور عوام سے اس کا رشتہ وسیع نہیں، اس لئے حلقے کے شعرا آسانی سے یورپ کے انحطاط کا شکار ہو گئے۔ سردار جعفری نے اس حقیقت کو قطعاً نظر انداز کر دیا ہے کہ ترقی پسند تحریک کی پذیرائی سب سے پہلے پنجاب ہی میں ہوئی، نیز اقبال اور فیض جن کی شاعری کو سردار جعفری ’’عوام کی آرزوؤں اور خوابوں اور سرگرمیوں‘‘ سے الگ نہیں کرتے، اس کی پوری تشکیل، پنجاب ہی میں ہوئی تھی۔ حلقے کے بعض شعراء نے چونکہ سماجی اخلاق کے مروجہ معیاروں سے انحراف کیا اور شاعری میں جنسی حجابات کو دور کرنے کی سعی کی، اس لئے سردار جعفری انہیں فرائڈ کا قتیل سمجھتے ہیں۔


ان میں سے چند نے مذہبی فکر یا انسان کے جذباتی اور نفسیاتی مطالبات کی روشنی میں ایک نئی مذہبیت کو (جو فی الاصل صنعتی معاشرے کی بے دریغ مادیت پرستی کے خلاف ایک ذہنی رد عمل تھی) اپنے تجربوں کی اساس بنایا، اس لئے سردار جعفری نے ان کے رشتے ٹی ایس ایلیٹ کی مسیحی وجودیت سے جوڑ دیے اور مذہب کی اس آفاقی اپیل کو نظر انداز کر دیا جو بیسویں صدی کے شعر و ادب میں جدیدیت کے ایک نمایاں مظہر کا سبب بنی۔


سلیم احمد اور سردار جعفری دونوں میں فرق تقویم اور رویے کا ہے۔ سلیم احمد نے نئی شاعری کے پورے آدمی کو نیکی اور بدی کے سطحی معیاروں سے آزاد ہوکر دیکھا۔ سردار جعفری نے ادبی شرائط اور اقدار سے یکسر بے نیاز ہوکر۔ ایک کا رویہ اثباتی اور ہمدردانہ ہے، دوسرے کا منفی اور معاندانہ، لیکن طریق کار کے اعتبار سے دونوں ایک دوسرے سے مماثل ہیں۔ دونوں نے طے شدہ مفروضات کے ساتھ راشد اور میراجی کے تخلیقی عمل کی جہات اور مراکز کا احاطہ کیا ہے۔ حلقۂ ارباب ذوق کے مقاصد اور سرگرمیاں ادب کو انسانی شخصیت کے ہر معنی خیز تجربے کا مخزن بنانے پر مرکوز تھیں۔ اس لئے اس حلقے کی نشستوں میں مباحث اور گفتگو کا دائرہ کسی مخصوص و معین موضوع تک محدود نہیں ہوتا تھا اور یہ کوشش کی جاتی تھی کہ ادب کو غیر ادبی مقاصد سے الگ کرکے ایک مقصود بالذات مظہر کے طور پر دیکھا جائے۔


ادبی تنقید میں بے باکی اور آزادی ترقی پسند ادیبوں کو حاصل نہیں تھی۔ اس حلقے کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ اس نے ادب کو سیاسی اور اخلاقی آمریت سے نجات دلائی اور بقول راشد ’’ادیبوں اور شاعروں کو ان غیر ادبی گروہوں کے غلبے سے بچایا۔۔۔ جو قاری کی عام انسانی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکر اسے اپنے مخصوص یا سیاسی نظریات کا غلام بنانا چاہتے (تھے)۔‘‘ البتہ عمل کے مقابلے میں رد عمل کی لے چونکہ بالعموم زیادہ اونچی ہوتی ہے، اس لئے حلقے کے بعض شعرا کی انتہا پسندی نے تجربے کی ندرت اور نئے صوتی اور لسانی سانچوں کی تلاش کے نام پر، شعری اظہار کے ایسے پیکر بھی تراشے جو بظاہر ہر قسم کی شعری اور شعوری تنظیم و تہذیب سے بے گانہ دکھائی دیتے ہیں۔ ایسی تخلیقات پر بودلیئر کی یہ بات صادق آتی ہے کہ ہیئت سے غیر معتدل محبت بھیانک اور غیر متوقع بدنظمیوں کو راہ دیتی ہے۔


بیسویں صدی کے اردو شعرا میں میراجی پہلے شخص تھے جنہیں فرائڈ کے نظریات اور تحلیل نفسی کے طریق کار کا کم از کم اتنا علم حاصل تھا کہ وہ ان کی روشنی میں شعری اظہار کے بعض عناصر کی تعبیر و تفسیر کر سکتے تھے۔ ’’اس نظم میں‘‘ میں بیشتر تخلیقات کا تجزیہ اس طریق کار کی مدد سے کیا ہے۔ میرا جی قدیم ہندو فلسفے بالخصوص سا نکھیہ سے ایک جذباتی ربط رکھتے تھے۔ اس لیے، زندگی کی طرح شاعری میں بھی انہوں نے سماجی امتناعات سے رہائی پانے کی کوشش کی اور جنسی حجابات کا تسلط قبول نہیں کیا۔ لیکن ان کی شاعری صرف جنسی جذبے کی عکاسی نہیں ہے۔ وہ زندگی کی وسعت اور بوقلمونی کا گہرا شعور رکھتے تھے، اور انسانی وجود کے ٓٓٓٓٓٓائینے کے زمانی اور لازمانی مسائل پر نظر ڈال سکتے تھے۔ اشیا، مظاہر اور موجودات کے لیے ان کا والہانہ جذبہ عبودیت اور اخلاص، زندگی سے ان کی گہری رفاقت اور قرب کا شاہد ہے۔


انہوں نے ذات اور کائنات کو صوفی کی نگاہ سے دیکھا اور عاشق کی طرح اس سے محبت کی۔ حال کی طرح ماضی کو بھی زندہ اور موجود ہ حقیقت کے طور پر محسوس کیا اور تاریخ و تہذیب کے ان ادوار سے ایک وجدانی رشتہ جوڑنے کی سعی کی جو زماں کی میکانی تقسیم کے سبب اب داستان کہنہ بن چکے ہیں۔ اس طرح انہوں نے ایک طرف شعوری سطح پر اپنے اجتماعی لاشعور کو زندہ رکھا اور دوسری طرف اپنی انفرادی انا کا اثبات کیا۔ میراجی کی دروں بینی کی بنیاد پر انہیں گردو پیش کی دنیا سے بے خبری یا لاتعلقی کا قصوروار ٹھہراتے وقت یہ بات بالعموم نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ زمانے سے بہت زیادہ واقف ہوئے بغیر بھی اس کا شعور ممکن ہے۔ میراجی اپنی خود نگری کے باوجو د اپنے عہد کی جذباتی فضا اور مسائل سے آگاہ تھے اور ان کے تہذیبی اور مادی اسباب کا محاکمہ کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ہر سچائی کے ادراک میں اس سے اپنے تخلیقی وجود کے فاصلے کو برقرار رکھا، شاید اسی لئے اپنے تمام معاصرین میں ادبی محاسن کی شناخت و تجزیے کا، وہ سب سے بہتر سلیقہ رکھتے تھے۔ اس حقیقت کا اعتراف ان حلقوں میں بھی کیا گیا جو میراجی کو اپنے نظریات سے بیگانہ ہی نہیں ان کا دشمن بھی سمجھتے تھے۔ مثلاً سجاد ظہیر کے الفاظ میں،


’’اکثر موقعوں پر ان کی تنقید سنجیدہ، بے لاگ اور جچی تلی ہوئی ہوتی تھی۔ ان میں اچھے اور برے ادب کی پرکھ کا بہت اچھا شعور تھا۔ اسی مجمع میں کئی ایسے ترقی پسند ادیب بھی تھے جن کے مقابلے میں میراجی کا تنقیدی نقطہ نظر بعض لحاظ سے زیادہ مفید اور وقیع معلوم ہوتا تھا۔‘‘


فیض نے ’’مشرق و مغرب کے نغمے‘‘ کے سلسلۂ مضامین پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ان مضامین میں میراجی نے تنقید ی جانچ پرکھ کے لئے جذب و وجدان کے بجائے عقل و شعور کا انتخاب مجبوری سے نہیں، پسند اور ارادے سے کیا ہے۔‘‘ اور ’’مختلف ادوار، اقسام اور اطراف کے ادب کی تفسیر، تفہیم اور تنقید میں وہ خالص عقلی اور شعوری دلائل و شواہد سے کام لیتے ہیں۔‘‘ ان الفاظ سے گمان یہ ہوتا ہے کہ جذب اور وجدان شعور اور عقل کی ضد ہیں، جب کہ میراجی کے سلسلے میں ان کی نظم کو سامنے رکھا جاے یانثر کو، بنیادی حیثیت اس حقیقت کو حاصل ہے کہ انہوں نے شعور کو جذبے اور وجدان کی سطح پر دیکھا۔ نطشے کی طرح میراجی بھی اپنے پورے وجود کے ساتھ اپنی تحریر میں عیاں ہوئے ہیں اور ان کی تحریروں میں فکر اور جذبے کی حدیں باہم دگر اس طرح مدغم ہوگئی ہیں کہ ان میں کسی امتیاز کا پتہ چلانا دشوار ہے۔


جذبہ و فکر کی اس آمیزش نے میراجی کے تخلیقی اظہار کی ہر سطح پر توازن اور تفکر کا آہنگ قائم رکھا ہے، ایسا تفکر جو دھیان کی مسلسل اور آہستہ خرام لہروں سے مماثل ہے، جس میں شدت کے باوجود سکون اور تحرک کے ساتھ ساتھ ٹھہراؤ کا احساس ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ میراجی کی انتہائی پیچیدہ شخصیت اور اس سے بھی زیادہ پیچیدہ تخلیقی تفاعل اور اس کے نتائج کو ان کی عملی زندگی کے چند بے حجاب مظاہر کی بنیاد پر دو ٹوک فیصلوں کی نذر کر دیا گیا۔


میراجی نے احساس، اظہار اور فکر، ہر زاویے سے نئی شاعری کے فروغ کی راہ ہموار کی۔ وہ طبعاً انیسویں صدی کے فرانسیسی اشاریت پسندوں کی طرح زندگی کی طرف ایک متصوفانہ رویہ رکھتے تھے۔ لیکن اس صوفیت نے ان کی ارضیت کو مجروح کرنے کے بجائے اس میں مزید شدت پیدا کردی۔ بودلیئر اور ملارمے سے قطع نظر، پو اور لارنس یا چنڈی داس اور امرو پر ان کے مضامن دراصل خود میراجی کی ذات کا اظہار ہیں یا ان آئینوں کی مثال ہیں جن میں اپنی تلاش کا سفر کرتے ہوئے میراجی نے اپنے ہی سائے لرزاں دیکھے تھے۔ بودلیئر کا ذکر کرتے ہوئے جب میراجی نے یہ کہا تھا کہ ’’(بودلیئر نے) تاریکی ہی میں اجالے کی تلاش کیوں کی؟‘‘ اگرچہ جواباً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اجالے کا احساس صرف تاریکی ہی میں ہو سکتا ہے۔ موجودہ اردو شعرا میں سے کم از کم ایک دو شاعر ایسے ہیں جو اپنی شاعری کے حقیقت پرستانہ مواد کے لئے اپنی ذاتی زندگی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔‘‘ تو میراجی کا اشارہ غالباً اپنی ہی طرف تھا۔


میراجی کی ا پنی ایک روایت (جو غلط فہمی پر مبنی تھی) کے مطابق ۱۸۶۱ میں بودلیئر نے بنگال کا سفر کیا تھا۔ اس کی شاعری میں سانولے سلونے حسن کے متواتر تذکرے اور اس حسن کے وسیلے سے ایک مابعد الطبیعاتی تجربے کا ادراک میراجی کی عشقیہ زندگی اور تجربے کے جغرافیائی اور طبیعی پس منظر کے علاوہ، (میراسین کے سانولے حسن کی وساطت سے) کرشن بھکتی تک میراجی کی رسائی کے عمل سے بھی مماثلت رکھتا ہے۔ میراجی زمین ہی سے گزر کر آسمان تک یا پیکر کے حوالے سے تجرید تک پہنچے تھے، جسے علامتی تبدل کے ذریعے انہوں نے دوبارہ ایک نئی حقیقت میں منتقل کر دیا۔ اسی لئے میراجی تصور میں بھی اتنی ہی کشش محسوس کرتے ہیں جتنی کہ حقیقت میں۔ چنڈی داس پر اپنے مضمون میں انہوں نے لکھا تھا کہ،


’’آج تک انسانی زندگی تخیل ہی کے ماتحت ارتقائی منازل طے کرتی آ رہی ہے۔ اور ہر ملک کے تخیل کاسب سے پہلا گہرا اور وسیع نقش اس ملک کی دیو مالا ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی دیومالا کے بندھنوں سے کم و بیش رہائی پاتے گئے اور تہذیب کی ترقی انہیں تصورات کی پوجا سے ہٹاکر مادیت کی طرف لاتی گئی۔ لیکن ہندوستان اپنی روایتی سست رفتاری اور حکایت پرستی کے ساتھ، اس سلسلے میں بھی اب تک اپنے ابتدائی تخیل ہی کا قیدی ہے۔ مابعد الطبیعات سے اس کا شغف آج بھی ظاہر ہے۔ آج بھی اس کے خاکی اس قدیم جنت کے تصور ہی کے بل پر زندگی گزار رہے ہیں جسے ان کے ذہنوں نے صدیوں پہلے اختراع کیا تھا۔‘‘


میراجی نے جسم اور روح کے سنجوگ یا جسم کو روح بناکر اس کی عبادت کرنے کا ذکر بار بار کیا ہے۔ یہ دراصل جسمیت کو زیادہ بامعنی اور عمیق بنانے کاعمل ہے۔ اس طرز فکر کو عام طور پر میراجی کی ماورائیت یا ہندو فلسفے سے ان کی گہری شیفتگی تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ ملارمے پر مضمون میں میراجی نے اس کے حوالے سے ایک معنی خیز جملہ نقل کیا ہے کہ ’’وہ خواب اور حقیقت کو ایک دوسرے میں اس طرح آمیز کر دینا چاہتا تھا کہ دونوں کے مابین فرق باقی نہ رہے۔‘‘ ملارمے کی ذہنی الجھن کا مرکزی نقطہ مشہود اور مجرد حقائق کی کشمکش تھی۔ اس الجھن کو دور کرنے کے لئے اس نے خواب کو بھی حقیقت ہی کی ایک شکل کے طور پر تسلیم کر لیا۔ اس کی رمزیت اور تخیل پرستی کا اصل سبب یہی ہے کہ مجرد حقیقتیں دو ٹوک لسانی پیکروں میں منتقل نہیں ہو سکتی تھیں، جب کہ اشارے سوئے ہوے خوابوں کو بھی جگا سکتے تھے اور ایک ٹھوس تجربے کی طرح انہیں برتنے پر قادر تھے۔


ملارمے کی طرح میراجی نے بھی اس طرز احساس سے ایک شعری اصول وضع کیا ہے، جسے ان کے تخلیقی اظہار کا دستور العمل سمجھنا چاہئے۔ نفسیاتی تحلیل کے مطالعے سے میراجی پر یہ بھید کھلا تھا کہ ’’علامت واشارات خیال کی سب سے بڑھ کر اور آپ روپی صورت ہے۔‘‘ اور ’’دن اور رات کے (نیند اور بیداری کے) خوابوں میں علامت، اشارات اور استعارے کی زبان ایک ایسا بے ساختہ ذریعہ اظہار ہے جو احساسات پر کسی قسم کے بندھن نہیں ڈالتا۔‘‘ خیال پر ارتکاز کے ذریعہ میراجی منظم حقیقتوں کے خلاف بچکانہ بغاوت، یا فرائڈ کی اصطلاح میں حقیقتوں سے ’’بے معنی مذاق‘‘ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ہر سچے فن کار کی طرح وہ جانتے تھے کہ فن حقیقت کی مشہود شکلوں کا عکس محض نہیں ہوتا۔ فن کار اپنے انفرادی رویے کی روشنی میں گرد وپیش کی دنیا کو پھر سے خلق کرتا ہے۔ اس تخلیق کا وسیلہ اگر مروجہ اصطلاحیں یا الفاظ بنائے جائیں تو حقیقتیں اجاگر ہونے کے بجائے مسخ ہو جاتی ہیں۔


بقول فرانز الیگزینڈر، الفاظ مستعمل ہونے کے بعد، اپنی مرضی کے مطابق معنی کی ترسیل کرتے ہیں یعنی اپنے مروجہ انسلاکات کے تابع ہو جاتے ہیں۔ میراجی نے خیال کو چونکہ حقیقت کی وسیع تر امکانی صورتوں میں دیکھا تھا، اس لئے ان کے انکشاف میں بھی وہ مروجہ صیغۂ اظہار کی نارسائیوں سے با خبر تھے۔ زنگ خوردہ لسانی سانچوں کی اطاعت سے انکار، جس نے اردو کی شعری روایت کو نئے اسالیب سے روشناس کرایا،


فی الواقع میراجی کے اس تصور سے مربوط ہے جسے وہ جسم اور روح کے سنجوگ یا حقیقت اور خواب و خیال کے ادغام باہمی سے تعبیر کرتے تھے۔


نتیجتاً جسم صرف جسم نہیں رہ جاتا اور روح صرف روح نہیں رہ جاتی۔ میراجی کے نزدیک یہ صوفی یا بیراگی کا تجربہ تھا جس کی دنیا مظاہر کی دنیا سے الگ یعنی ارض خاک کی آلودگیوں سے آزاد بھی ہوتی ہے لیکن آسمان کی طرح صاف اور منزہ بھی نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں اس دنیا کی زبان وبیان اور تصورات و استعارات کو، اس دنیا میں رہتے ہوے بھی وہ ایک ’’رومانی نفاست کا لباس‘‘ پہناتا ہے اور ’’ان کیفیات کا اظہار کرتا ہے جن کے بیان کے لئے حقیقتاً اس دنیاکی زبان میں الفاظ میسر نہیں آتے۔‘‘ یعنی الفاظ اپنے مستعملہ مفہوم کے دائرے سے نکل جاتے ہیں اور ایسے تلازمات کو راہ دیتے ہیں جن کی بنیاد خیال کی آزادی پر ہوتی ہے۔


ٹرلنگ نے ’’فن اور نیوراتیت‘‘ کے باہمی رشتے پر بحث کرتے ہوئے چارلس لیمب کے اس تصور کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تخیل کا عمل دیوانگی نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس، گزشتہ کئی برسوں میں فن اور ذہنی بیماریوں کے تعلق پر اتنا زور دیا گیا کہ بعض حلقوں میں فن کی تخلیق کے لئے مصنوعی طریقے سے ذہنی عدم توازن اور اختلال کی کیفیتیں پیدا کرنے کی وبا عام ہو گئی۔ میراجی نے حقیقت کی استدلالی سطح سے تفاوت اور خیال و خواب یاموہوم شکلوں کی حقیقت اور تخلیقی منطق کی بنیاد پر خالص شاعری کا تصور پیش کیا تو ان پر نیوراتیت اور دیوانگی کے الزامات کی یورش ہونے لگی۔ اور تخلیقی عمل کی اس بنیادی شرط کو نظر انداز کر دیا گیا کہ خالص تخیل کی قسم کا کوئی تجربہ انسان کے دائرۂ امکان میں شامل ہی نہیں۔


میراجی کے تنقیدی مضامین بالخصوص ’مشرق و مغرب کے نغمے‘ میں علامتی شاعری کے حوالے سے ان کی تمام بحثیں دراصل ان کی اپنی شاعری کا جواز ہیں۔ فیض کے ان الفاظ میں کہ میراجی نے تنقیدی مطالعے میں ’’عقل و شعور کا انتخاب مجبوری سے نہیں پسند اور ارادے سے کیا ہے‘‘ یہ ترمیم ضروری ہے کہ شعور شاعر کا اختیاری عمل نہیں بلکہ اس کی مجبوری ہے۔ میراجی نے نیم شعوری یا لاشعوری تجربوں کی بازیافت شعور ہی کی مدد سے کی ہے لیکن شعور کو انہوں نے نثری استدلال کے سامنے سرنگوں نہیں ہونے دیا۔ ان کے بظاہر مجنونانہ یا مجذوبانہ تجربے ان کی ذہنی زرخیزی کے زائیدہ تھے لیکن ان تجربوں کی پیچیدگی ایلیٹ کے اس معروف قول کی خودساختہ شہادت نہیں تھی کہ ’’جدیدعہد کی زندگی پیچیدہ ہے اس لئے شاعری بھی پیچیدہ ہوگی۔‘‘


میراجی کی پیچیدگی انسانی وجود کی ان گتھیوں کا پتہ دیتی ہے جو ازل سے اس کے ساتھ لگی ہوئی ہیں، علی الخصوص دیار مشرق کی پراسرار روایتوں، رسوم، عقائد اور دیو مالا میں گھرے ہوئے انسان کی پیچیدگیاں۔ ناصر کاظمی کے لفظوں میں، ’’میراجی جب دیو مالا کا ذکر کرتا تھا تو اس کے پیش نظر پرانے ہندوستان کی پوری دیومالا ہوتی تھی۔ یونانی دیو مالاپر رابرٹ گریوزکی کتاب پڑھ کر تو دیومالا کا عاشق نہیں ہوا تھا۔ اور ایلیٹ کی نظم ’ویسٹ لینڈ‘ اس نے بھی پڑھی تھی مگر اس کی جڑیں اپنی زمین کی روایت میں تھیں۔‘‘


میراجی کی خیال پرستی ان کے ارضی ماحول اور تہذیبی ورثے سے وابستگی ہی کا ایک روپ ہے۔ یہ ورثہ میراجی کے لئے کتب خانوں اور عجائب گھروں میں محصور تاریخ کے بجائے ایک زندہ روایت بلکہ ایک فعال حقیقت کی مثال تھا۔ چنانچہ خیال کی مدد سے انہوں نے ماضی کی حقیقت کو بھی حال کا تجربہ بنانے کی سعی کی اور بجائے خود خیال کو ایک شے کی طرح محسوس یا۔ ’اس نظم میں‘ کے دیباچے میں میراجی نے لکھا تھا کہ ’’خیال ہی میری نظر میں بنیادی شے ہے۔ اس میں اگر کسی کو دو قدم آگے بڑھانے کی صلاحیت نہیں تو اظہار کی کوشش بے مصرف اور بےکار ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خیال پرستی، واقعہ نگاری یاحقیقت پسندی کی ضد نہیں بلکہ اس کی توسیع ہے۔ ایک اور اقتباس یوں ہے، ’’جب سے یہ دنیا بنی ہے، اجالے اور اندھیرے کی کشمکش جاری ہے۔ شاید ہم حال کے اجالے میں اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتے اور اپنے آپ کو دیکھے بغیر ہمیں اطمینان بھی نہیں ہوتا۔ اس لئے ہم ماضی اور مستقبل میں اپنی ہی ایک غیر مرئی ہستی کو جاننے کی جستجو کرتے ہیں۔‘‘


یعنی ہستی میراجی کے لئے ایک غیر مرئی تجربہ بھی تھی اور ماضی، حال اور مستقبل (مستقبل نسبتاً دھندلی سطح پر، مستقبل سے میرا تعلق بے نام سا ہے۔‘‘ میراجی) ایک زمان موجود (ابدی حال) یا غیر منقسم وحدت، جس میں ان کے حدود فاصل ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو گئے تھے۔ مادی اعتبار سے حقیقت صرف حال ہے۔ ماضی اور مستقبل تصور۔ میراجی نے اس حقیقت کی حدیں وسیع کرنے کے لئے جذباتی اور وجدانی اشتہار کے ذریعے تصور کو بھی علامتی تبدل کے وسیلے سے حقیقت ہی کا پیکر بنا دیا۔ اس مسئلے کو سمجھنے کے لئے پکا سو کے فنی طریق کار پر نظر ڈالی جائے تو حقیقت اور تصور کی ثنویت میں ایک بنیادی وحدت کا نشان بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ پکاسو نے ایک آرٹ میگزین کے مدیر سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ،


’’جب میں کوئی تصویر پینٹ کرتا ہوں تو اس حقیقت سے لاتعلق رہتا ہوں کہ اس میں دو اشخاص کبھی میرے لئے موجود تھے۔ پھر وہ میرے لئے موجود نہیں رہ جاتے۔ ان اشخاص کا ادراک مجھے ابتدائی تحرک عطا کرتا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے ان کی شکلیں گڈ مڈ ہونے لگتی ہیں۔ وہ میرے لئے (حقیقت نہیں رہ جاتے) افسانہ بن جاتے ہیں۔ پھر وہ یکسر غائب ہو جاتے ہیں یا یوں کہا جائے کے مختلف قسم کے مسائل میں منتقل ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ میرے لئے دو اشخاص نہیں رہ جاتے، بلکہ ہئیتوں اور رنگوں میں ڈھل جاتے ہیں ؛ ایسی ہیئتیں اور رنگ، جو ان تبدیلیوں کے بعد بھی دو اشخاص کاتجربہ عطا کرتے ہیں اوران کی زندگی کی لرزشوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔‘‘


فنی اظہار کا عمل تجریدی ہو یا تجسیمی، اس کا آغاز ہمیشہ کسی شے سے ہوتا ہے اور حقیقت کے نشانات کو نئی جہتوں سے متعارف کرانے کا عمل بعد میں آتا ہے۔ اس اعتبار سے خالص شاعری یاخالص فن کا تصور بے معنی ہے۔ میراجی کے شعری طریق کار کی نوعیت کو سمجھنے کے لئے اس بنیادی صداقت کو ملحوظ رکھنا ناگزیر ہے۔


ہندوستان سے میراجی کا ذہنی رشتہ ان کے انفرادی میلان طبع کی مشرقیت سے قطع نظر، ان کی عصری آگہی کا زائیدہ بھی تھا۔ جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا جا چاہے میراجی کا پورا تخلیقی اور فکری سفر تلاش ذات کا سفر تھا۔ انہوں نے فرانسیسی اشاریت پسندوں میں بھی مشرقیت کی وہی روح جلوہ گر دیکھی جو ان کے اپنے وجود کی علامت تھی۔ اس لئے ان پر یہ اعتراض کہ ’’یورپ کے انحطاط‘‘ کا شکار وہ مغربی شاعری کی نقالی کے باعث ہوئے تھے، بے بنیاد ہے۔ تلاش ذات کے سفر میں میراجی کو ودیاپتی کے گیتوں اور امرویا چنڈی داس کی شاعری سے لے کر یونان کی سیفو، روس کے پشکن، امریکہ کے پو اور وہٹمین، چین کے لی، انگلستان کے لارنس اور فرانس کے بودلیر اور ملارمے یا جرمنی کے بائنے تک، سب میں اپنی ہی الجھنوں اور آزماشوں کا عکس نظر آیا اور اس لمبی مسافت کو طے کرنے کے بعد جذبہ وفکر کی متنوع منزلوں سے گزر کر وہ دوبارہ اپنے آپ تک ہی واپس آئے۔


اس سے صرف اس حقیقت کا اظہار نہیں ہوتا کہ مشرقیت، تہذیب کے ایک علامتی تصور کی حیثیت سے ارض مشرق ہی کی میراث نہیں رہ گئی تھی اور فی الواقع انسانی وجود کی اس جہت کا اشاریہ تھی جو کاروباری تعقل سے ناآسودگی کے باعث ہر سوچنے والے (تخلیقی سطح پر) کی شخصیت سے منسلک ہوتی ہے، بلکہ یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ بیسویں صدی کے عالمگیر روحانی اور ذہنی اضطراب نے ہندوستان یا مشرق کے پسماندہ ممالک کو بالآخر ان سوالات کا حل ڈھونڈنے یاان کی ناگزیریت کو تسلیم کرنے پرمجبور کر دیا جو جدید تہذیب کی دوڑمیں مشرق سے بہت آگے نظر آنے والے مغربی ملکوں کو پہلے ہی در پیش تھے۔


البتہ ان سوالات میں شدت بیسویں صدی کے مخصوص سیاسی اور معاشرتی حالات، نیز مادہ پرستی میں غلو کے سبب سے پیدا ہوئی۔ ان سوالات کی طرف میراجی کا یہ رویہ بڑی حد تک متصوفانہ ہے، اور ان کے ثقافتی تصور نیز نظام جذبات سے مشروط۔ اپنی کتاب ’گیت ہی گیت‘ کے دیباچے میں میراجی نے خود کو اس نادان بچے کی شکل میں دیکھا تھا جو زندگی کی جوئے رواں کے ساحل پر کھڑا اپنے تجربوں کی کشتیاں یکے بعد دیگرے بہتے ہوئے پانی کے سپرد کرتا جاتا ہے اور ہر کشتی بے قرار موجوں پر اپنی چھب دکھاکر دھیرے دھیرے دور ہوتی جاتی ہے۔ پایان کار ہر تجربہ فراموش کاری کی دھند میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ میراجی ’’ہست‘‘ اور ’’نیست‘‘ کے مابین اشتراک کی ایک راہ یوں نکال لیتے ہیں کہ نیست کے آگے بھی کچھ نہیں، جس طرح ہست کے آگے کچھ نہیں ہے۔


یادیں ہست اور نیست کی اسی محدودیت کو مغلوب کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اس طرح ساحل سے زندگی کے طلسم و تماشے کا نظارہ کرنے والا نادان بچہ ایک خود آگاہ مجذوب بن جاتا ہے۔ یہ نادانی اس کی معصومیت کا دوسرا نام ہے جو مادی دنیا کی آلودگیوں اور ترغیبات کے باوجود اس کے وجود کی طہارت کو نقصان نہیں پہنچنے دیتی اور وہ ہستی کی نیستی اور نیستی کی ہستی میں مماثلت کا ایک پہلو نکال کر ان کے نشاط اور اذیت، دونوں کے بار کو کم کر لیتا ہے۔


میرا جی نسلاً آریہ تھے۔ تخلیقی اظہار میں رنگ و نسل کے کسی خاص حلقے سے وابستگی کوئی معنی نہیں رکھتی لیکن میرا جی نے اپنے نسلی رشتے کو اپنی تخلیقی شخصیت کی قوت متحرکہ کے طور پر دیکھا اور اس بات کی شعوری کوشش کی کہ ان کی شاعری کے مشرقی اور متصوفانہ عناصر کو اس رشتے سے منسوب کرکے ماضی وحال کی وحدت کے تناظر میں سمجھا جائے۔ آْریوں کی آوارہ خرامی، ناصبوری اور فراز سے نشیب کی طرف یا ماورائیت سے ارضیت کی جانب تحرک اور ارضیت میں الوہیت کے نشانات کی دریافت میراجی کے لئے محض تاریخی واقعات کی دستاویز نہیں۔ انہوں نے ان واقعات کے پردے میں اپنی فکری ترکیب کے کئی معنی خیز پہلوؤں کو بھی مخفی دیکھا، کیونکہ وہ اس احساس سے خود کو کبھی الگ نہ کر سکے کہ آریہ قبائل ’’جن کا سفر کہیں رکنے میں نہیں آتا تھا، انہی کی ذہانت، انہی کا حافظہ اور انہی کی طبیعت نسل درنسل (ان) تک پہنچی ہے۔‘‘


یہ احساس میراجی کے لئے ایک آسیب بن گیا تھا۔ چنانچہ تخلیقی اظہار کے عمل میں بھی وہ اس سے مغلوب رہے اور اس کی وساطت سے قدیم ہندوستان، ہندو دیومالا اور بھکتی کی روایت تک پہنچے۔ ان کے لئے یہ مراجعت نہیں تھی بلکہ خیال کا اگلا قدم تھا، جس نے وقت کی دیواریں ان کے جذبہ و فکر کی بساط پر منہدم کر دی تھیں اور ازل سے ابد تک پھیلی ہوئی وسیع کائنات انہیں ایک اکائی دکھائی دیتی تھی۔ اس سلسلے میں ایک ہم بات یہ ہے کہ میراجی نے ہندو فلسفے، خاص طور سے ویشنو مت کے بھکتی کے تصور کو، جو ان کے حواس میں رچ بس جانے کی وجہ سے زندگی کی طرف ان کے رویے اور ان کے فنی شعور پر یکساں شدت کے ساتھ اثر انداز ہوا، مذہبی عقیدے کے بجائے ایک تخلیقی عقیدے کے طور پر قبول کیا تھا اور شاعری میں اس نئی مذہبیت کو سمونے کی کوشش کی تھی، جو منظم عقیدے میں بے یقینی کے باوجود انسان کے باطن سے ایک گہرے تعلق کی متحمل ہو سکتی ہے۔


کرشن، رادھا شکتی، یشودھا، دریودھن، کپل وستو، برندا بن کے مسلسل تذکروں یامندر، پجاری، پروہت، آرتی، گیانی، دیوداس، جمنا تٹ اور دوسری مذہبی علامتوں کی طرف متواتر اشاروں، یا ان کے گیتوں کی مقامی فضا کے پیش نظر میرا جی کی شاعری کے بارے میں یہ غلط نظری عام ہے کہ انہوں نے ہندو مت سے اپنی وابستگی کے باعث، جو ان کے اجتماعی لاشعور کا نتیجہ تھی، یہ طرز اظہار و احساس اختیار کیا تھا۔ اس غلط نظری کا ایک اور سبب میراجی کی انوکھی شخصیت ہے جو جیتے جی افسانہ بن گئی اور جس کے گرد رومانیت کا ایک ہالہ پھیل گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سلسلے میں حقیقتوں تک پہنچنے سے پہلے لوگ افسانوں میں گم ہو گئے۔ میراجی کو اپنے مداحوں اور معترضوں کی اس غلط نظری کا خود بھی احساس تھا۔ شاید اسی لئے انہوں نے یہ ضروری سمجھا کہ اپنے ذاتی عقیدے کی وضاحت کریں، ’’یہ بات غلط ہے کہ میں نے اسلام کو ترک کیا۔ میں ایک خدا کو اب بھی مانتا ہوں۔ مگر میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک اسلام کو سمجھا ہے۔ اس کے بعد مجھے اسلام کی اصل شکل نظر نہیں آئی۔ لیکن مجھے قرآن پڑھ کر اب بھی غش آ جاتا ہے۔‘‘


ظاہر ہے کہ شاعری میں ذاتی عقیدے کااظہار بہر نوع شعری طریق کار کا تابع ہوتا ہے۔ میراجی طبعاً تصوراتی دیومالا کے بجائے تجسیمی دیومالا سے دلچسپی رکھتے تھے۔ اسلامی فکر بنیادی طور پر تجسیمی طرز احساس کی نفی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ میراجی کا شعری طریق کار بھی مجرد فکر کے ساتھ زیادہ دور تک نہیں جا سکتا تھا۔ اگر وہ اپنے ذاتی عقیدے (اسلام) کو اساطیری اظہار کا ذریعہ بناتے تو انہیں بہر طور اسلام سے وابستہ تہذیبی حدود کو قبول کرنا پڑتا، اس لئے میراجی نے ایک اجتماعی دیومالا کی طرف قدم بڑھایا۔ ان کا ماضی کا تصور چونکہ حالی کے برعکس ایک مخصوص تہذیبی اعمال نامے تک محدود نہیں تھا اور وہ اپنے ماضی کے تصور کو اپنے جذباتی تناظر سے الگ نہیں کر سکتے تھے، اس لئے انہوں نے اس دیومالا کو اپنے تجربوں سے مربوط کیا جو ان کے باطنی ہیجان کی متحرک تصویریں پیش کر سکے۔


اپنے آریہ ہونے کا ذکر میراجی کسی مذہبی اشتراک کے جذبے کی بنیاد پر نہیں کرتے۔ یہ اشتراک از اول تا آخر ثقافتی تھا۔ میراجی کی مذہبیت بھی ان کے ثقافتی تصور کا حصہ تھی۔ اس لئے میراجی قدیم تانترکوں اور آج کی بیٹ نسل (Beat Generation) کے پریشان مغز نوجوانوں سے یکساں مماثلت رکھتے ہیں، گرچہ دونوں کے مسائل کی نوعیتیں جداگانہ ہیں۔ مذہب اور تاریخ سے حالی اور اقبال کا رشتہ معین اور استدلالی تھا۔ میراجی کا رشتہ کئی جذباتی اور مبہم رشتوں کا مجموعہ جسے نہ اسلام کا نام دیا جا سکتا ہے نہ ہندو مت کا۔ کرشن میں انہیں اپنے ذاتی آشوب اور نامرادیوں کی تشفی دکھائی دی اور اپنے منفرد تخلیقی مزاج کی آسودگی کا سامان، اس لئے بھکتی تحریک اور شاعری کے وہی حصے انہیں متاثر کر سکے جن میں حقیقت سے زیادہ زور مجاز پر اور روشنی سے زیادہ رنگوں پر ہے۔


ان کی لمسیت، لذت پرستی یاجسمی پیاس کے حوالے سے روح کی پکار تک رسائی (لب جوئے بار میں استمنا بالید کے ذریعے لاشعور کے تزکیے کا عمل) تن آسانی میں ظاہری آرائش یا جسم کی سجاوٹ پر زور دینے کے باعث روح سے بے التفاقی یا جسم اور روح کے سنجوگ سے بے نیازی کے باعث پیدا ہونے والی الجھنوں کا احساس، ایسا ہر تصور اسی انداز نظر پر مبنی ہے۔ وسیع تر نیز نسبتاً غبار آلود سطح پر ان کے گیتوں اور متعدد نظموں مثلاً ’سنجوگ‘، ’ایک منظر‘، ’جنگل میں ویران مندر‘ ، ’اجنتا‘ ’رس کی انوکھی لہریں‘ سے میراجی کے فکری اور تخلیقی میلانات کی اسی جہت پر روشنی پڑتی ہے۔ میرا جی کی منظر یہ نظموں یا ان نظموں میں جہاں جنگل کی علامت کے گرد سارے رنگ رقصاں دکھائی دیتے ہیں۔ (مثلاً جنگل میں ویران مندر، تفاوت راہ، تنہائی، کٹھور) مراجعت کی وہ لہر نہیں ملتی جس نے جدیدیت کے ایک باقاعدہ فکری میلان کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔


صنعتی معاشرے کی پریشاں سامانی کے تناظر میں، ہر چند کہ ان نظموں سے فطرت کی طرف واپسی کے رجحان کااستخراج ممکن ہے (خاص طور پر ’تفاوت راہ‘ سے)، تاہم ان کی مجموعی فکر کے پیش نظر، جنگل کو شر نگارسے ان کی دلچسپی کا اشاریہ یا دروں بینی کو محفوظ رکھنے کا وسیلہ سمجھنا زیادہ مناسب ہوگا۔ دھیان کی موج کا بے روک سفر جنگل کے اتھاہ اور گمبھیر سناٹے میں شہروں کی پرشور فضا کی بہ نسبت زیادہ سہل ہے۔ میراجی کے لئے جنگل کی تاریکی، تنہائی اور خاموشی صنعتی شہر کے شور شرابے سے نجات یا دوسرے لفظوں میں فرار کا ذریعہ نہیں تھی، نہ وہ شعور کی چبھتی ہوئی روشنی سے گھبراکر اندھیرے کو اپنی آماجگاہ بنانا چاہتے تھے۔ وہ خود کو کھونا نہیں بلکہ پانا چاہے تھے۔ جنگل ان کے لئے دراصل باطن کے نور کی حفاظت یا جسم اور روح کے سنجوگ اور دھیان کے مشغلے کو قائم رکھنے کا وسیلہ تھا، جہاں وہ اپنے سکوت سے ہم کلام ہو سکتے تھے اور اپنی رنگ اور رس کی پیاس بجھ سکتے تھے۔


جدیدیت کے میلان یا نئی شاعری اور میراجی کی فکر کے مابین امتیاز کی یہ لکیر بہت اہم اور توجہ طلب ہے۔ میراجی اصلاً ایک مستحکم ثقافتی اور جذباتی نظام کے شاعر ہیں۔ صرف موجودہ عہد کے تمدنی مسئلے کے شاعر نہیں ہیں۔ ان کے عرصہ حیات میں موجودہ عہد کی شاعری کا منظر نامہ بعض بنیادی عناصر کی شمولیت کے باوجود ادھورا تھا۔ البتہ میراجی نے چونکہ کسی مخصوص سماجی یا سیاسی فلسفے کے حوالے سے اپنی ذات اور کائنات کا مشاہدہ نہیں کیا اور اپنی نظر کو کسی بیرونی ہدایت کا پابند نہیں بنایا۔ اس لئے ان کی حسیت زندگی اور اس کی ہنگامہ خیز تبدیلیوں کے ساتھ بدلتے ہوئے فنی اور فکری معیاروں سے بھی بیگانہ نہیں رہی۔ اور ان کی نگارشات میں ایک خاموش طریقے سے موجودہ عہد کے آشوب سے متعلق مسائل بھی درآئے۔


’کلرک کا نغمہ محبت‘ میں سماجی مشن کے ایک بے نام پرزے میں تبدیل ہونے والے آدمی یا ’گھسٹتے ہوئے رینگتے رینگتے‘ میں عصری زندگی کی یکسانیت، بے رنگی اور اکتاہٹ کی اندوہ پرور تصویریں، میراجی کے ذاتی آشوب کے بجائے ان کے عہد کے عام آشوب کی ترجمان ہیں لیکن جیسا کہ شروع میں ہی عرض کیا جا چکا ہے، جدیدیت چونکہ نئے انسان کے فوری یا عصری مسائل کی تعبیر و توجیہ کا نام نہیں اور ہر عہد کی طرح موجودہ عہد کا انسان بھی بالکل سامنے کی (Avant- Grade) الجھنوں کے علاوہ ان قضیوں میں بھی ملوث ہوتا رہتا ہے جو ایک ابدی اور لامکانی بعد رکھتے ہیں، اس لے میراجی کی متعدد نظموں میں بیک وقت ایک زمانی اور لازمانی تناظر کی گونج سنای دتی ہے۔


’سمندر کا بلاوا‘ میں موت کی آفاق گیر حقیقت اور دوام کی لاحاصل آرزوؤں سے ہم کنار زندگی کا تصادم، جسم کے زوال اور فنا کی اس الجھن کا ترجمان ہے جو بقول ژید ہر تخلیقی ذہن کا آسیب ہے یا فلسفہ و شعر کی بنیادی حقیقت اور اسی کے ساتھ ساتھ اجتماعی خودکشی کے آزار میں مبتلا نئی انسانیت کا کرب بھی بگولوں کے تند بھوتوں، بے برگ صحرا اور ہر صدا کو مٹانے کی دھمکی دیتی ہوئی انوکھی اور تھکی ماندی صدا کی علامتوں میں ظاہر ہوا ہے۔ میراجی نے اس کرب پر دھیان کی آسائشوں کے حصول سے فتح پالی اور اپنی نظم ’جاتری‘ کے خاموش تناظر کی طرح تغیر و تبدل اور اختیار و بندگی کا ازلی و ابدی تماشا دور سے دیکھتے رہے۔ دھیان کی چھایا کے مرکز سے ان کی نگاہ کبھی نہیں ہٹی۔ ان کے مطالعے میں سب سے بڑی غلطی (جو بہت عام ہے) یہ ہوئی ہے کہ ان کے پیش کردہ ہر تجربے کو انہی کی ذات کا عکس سمجھ لیا گیا۔


میراجی کے صیغۂ اظہار کی انوکھی جہت بھی، جس سے اردو کی رسمی شاعری یا اس شاعری کا تربیت یافتہ مذاق نامانوس تھا، ان کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے اور قاری کو ان کے وسیع ثقافتی اور جذباتی پس منظر سے الگ کرکے معینہ اور قطعی نتائج تک لے جانے کی کسی قدر ذمہ دار ثابت ہوئی۔ میراجی اپنے پیچیدہ اور پراسرار تجربوں کو نئے لسانی ڈھانچوں کے بغیر شاید منکشف ہی نہیں کر سکتے تھے۔ ان کے یہاں خود سے باتیں کرنے کا رجحان چونکہ نمایاں ہے، اس لئے انہوں نے زندگی کے تماشے میں شامل دوسرے کرداروں کی حقیقت کا بیان بھی اکثر خود کلامی کے لہجے میں کیا۔ ان کرداروں کی حیثیت جداگانہ تھی، گرچہ ان کے تجربے میراجی کی ذات سے بھی ایک مضبوط ربط رکھتے تھے، لیکن بعض تجربوں کے ربط کی نوعیت شاہد و مشہود کے ربط باہم سے مماثل ہوتی ہے، جس میں شاہد کی نظر مشہود کی داخلی اور خارجی ہیئت کے تعین پراثر انداز ہوتی ہے اور مشہود کا تاثر شاہد کی نفسی اور حسی صورت حال میں تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔


مشہود سے مکمل لاتعلقی اسی صورت میں ممکن ہے جب دیکھنے والی آنکھ کی حیثیت کسی خودکار مشین سے مختلف نہ ہو۔ اس لئے ایلیٹ کی نکتہ سنجی اور اس کے شخصیت سے مکمل گریز کے نظریے کی تمام دلیلوں کے باوجود، تخلیقی عمل میں ذات کے اظہار اور نمود کی پیچیدہ منطق تقریباً ناقابل تردید ہے۔ میراجی نے ہر مظہر کو اپنی نگاہ سے دیکھا، اس لئے ہر بیرونی صداقت اور تجربے کے اظہار میں، اس صداقت یا تجربے سے ان کے انفرادی رشے کی بازگشت فطری تھی۔ لیکن ان کی خودکلامی کی تکنیک سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ ہر تجربہ ان کی سوانح کا حصہ تھا، کوئی جواز نہیں رکھتا۔ تخلیقی اظہار و عمل میں بیرونی تجربہ ان کی سوانح کا حصہ تھا، کوئی جواز نہیں رکھتا۔ تْخلیقی اظہار و عمل میں بیرونی تجربے سے قرب اور اس سے فاصلے کا احساس، دونوں یکساں اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔


جہاں تک میراجی کا تعلق ہے، اس مسئلے پر کسی بحث اور قیاس آرائی کی گنجاش نہیں کہ وہ ادب کو ذات کا عکاس سمجھتے تھے لیکن یہ ذات ان کے نزدیک زندگی کے تمام معنی خیز پہلوؤں پر محیط ہوتی تھی۔ اس لئے اس کی وساطت سے ادب میں ایسے معاملات و مقدرات کے اظہار کی راہ بھی نکلتی تھی جو زندگی کی کلیت سے مربوط ہوں، خواہ کسی فرد سے ان کا رابطہ ذاتی نوعیت کا نہ ہو۔ میراجی کی شاعری میں پورے آدمی کی موجودگی کا پس منظر، زندگی کی کلیت سے میراجی کی آگہی کا تیار کردہ ہے۔ ان کی مشرقیت (مرادی معنوں میں) مشرق و مغرب کی آویزش کے سبب رونما ہونے والی ایک عالم گیر جذباتی، نفسیاتی اور فکری لہر کا نقش ناتمام تھی، جو چند ترمیمات اور اضافوں کے بعد جدیدیت کی شکل میں ادب کے ایک مؤثر میلان کی حیثیت سے نمودار ہوئی۔ ان کے جذب اور ربودگی نے انہیں اپنے دھیان کے دائروں سے باہر نکلنے نہیں دیا۔ تاہم جدیدیت کی فکری بنیادوں کے کئی گوشے ان کی نگاہوں میں روشن تھے۔ میراجی کے حسب ذیل اقتباسات چند اختلافی نکات کے باوجود اس امر کی شہادت دیتے ہیں۔


’’آج سائنس کی ایجادوں نے ہر ایک چیز کو ہر دوسری چیز سے قریب کر دیا ہے لیکن انسان انسان سے دور ہو چکا ہے۔ مانا کہ وہ پہلی سی آنکھ اوجھل والی بات اب نہیں رہی۔ لیکن ایک دوسرے کو جاننے کے لئے جس خلوص کی ضرورت ہے، سوچ کی جو گہرائی درکار ہے، وہ ہر کسی کی طبیعت میں باقی نہیں رہی، یا کم سے کم مٹتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادب زندگی سے قریب ہوتے ہوئے بھی اکثر دور ہی رہتا ہے۔


نیا شاعر اب ایک ایسے چوک میں کھڑاہے جس سے دائیں بائیں آگے پیچھے کئی راستے نکلتے ہیں۔ لیکن ا سے پوری طرح نہیں معلوم ہے کہ کون سا راستہ اس نے طے کر لیا۔ ماضی کے تجربے کیا اہمیت رکھتے ہیں۔ کب تک اسے یوں ہی کھڑا رہنا ہے۔ حال کی اضطراری کیفیات کس حد تک اس کا ساتھ دیں گی اور کون سے راستے پر اس کو چلنا ہے۔ مستقبل کے خطرات اس کو کیا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔


(الف) نیا شاعر ماحول میں اپنی گہری دلچسپی کا بہانہ کرتا ہے۔


(ب) لیکن حقیقتاً وہ صرف اپنی ذات کے ایک دھندلے سے عکس میں محو ہے۔ اس کے آس پاس اب وہ پرانے سہارنے نہیں رہے جن کے بل پر لوگ گھریلو زندگی کے جھمیلے میں سب عمر بسر کر دیتے ہیں۔ وہ اب اکیلا ہے اور اسے سہارے کی جستجو ہے۔


(ج) کبھی وہ غلط چیزوں کو سہارا سمجھ لیتا ہے۔ کبھی صحیح سہارے تک پہنچ کر بھی اسے نہیں معلوم ہوتا کہ کیا بات ہوئی اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جس عمارت کو اسے سجانا ہے، نئے روپ میں ڈھالنا ہے، اس کی بنیادوں کاحال اسے پوری طرح نہیں معلوم ہے۔۔۔ شہروں کے فاصلے مٹے۔ نئی تعلیم آئی۔۔۔ تعلیم اور تجارت کی آسانیوں نے نئے مقامات کی سیر کرائی اور گھریلو زندگی کا نقشہ مٹنے لگا۔ گھر سے دور ہوکر تنہائی کااحساس نشو ونما پانے لگا۔


(د) وہ احساس جسے ہر طرف بڑھتی اور پھیلتی ہوئی طاقتیں کمتری کے احساس میں تبدیل کرنے لگیں، اس کے ساتھ ہی نئے دور میں رفتار حیات کی تیزی نے، جہاں زندگی کے اختصار کا احساس دلایا وہاں اضطراری کیفیت کی طرف بھی ہر کسی کے ذہن کو مائل کر دیا کہ جوں توں اس چار دن کی چاندنی میں ذاتی خواہشات کی تکمیل کر لینا چاہئے۔‘‘


گزشتہ صفحات میں میراجی کے شعری طریق کار اور محرکات کا جو جائزہ پیش کیا گیا، اس سے نتیجہ نکالنا غلط نہ ہوگا کہ جدیدیت کی فلسفیانہ بنیادوں کے کئی عناصر میراجی کے تخلیقی شعور کی ترتیب و تشکیل میں ممد ہوئے تھے اور ان کے نظام افکار نیز فنی تصورات میں کئی ایسے رنگ شامل دکھائی دیتے ہیں جو ان سے پہلے اردو کی شعری روایت میں نایاب تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی مسلم ہے کہ میراجی کی شاعری کی جڑیں ان کے جغرافیائی اور ثقافتی ماحول میں بہت دور تک پیوست ہیں۔ چنانچہ اس کی تقویم میں اس کے مخصوص انسلاکات کو کسی بھی طرح مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے علامتی مفہوم میں یہ روایت چونکہ فرانسیسی اشاریت پسندوں یا دیار مغرب کے بعض رند مشرب شعرا کے تہذیبی، نفسیاتی اور جذباتی رویوں سے مماثلت کے متعدد پہلو رکھتی ہے، اس لئے میراجی کی شاعری کو ایک وسیع تر زاویۂ ادراک کے آئینے میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔


ان کا اجتہاد یہ ہے کہ اپنی شاعری کے لئے انہوں نے تفہیم و تجزیے کے تعمیمی معیاروں کو خیر باد کہہ کر نئے تخلیقی اصولوں کی ضرورت کا احساس دلایا اور اپنی بصیرت کا رشتہ جس ذہنی روایت سے جوڑا، وہ اردو شاعری پر عجمی روایات کے تسلط کی نفی کرتی ہے، نیز انیسویں صدی کے مقصدی اور افادی ادب کی تحریک اور اس کے فروغ کے ساتھ سامنے آنے والے اردو شعرا کے لئے یکسر نامانوس ہے۔ راشد کا خیال ہے کہ میراجی کی شاعری مجموعی طور پر ’’انسان کی ابدی تلاش کی تمثیل ہے، جس کے راستے میں انسان شہری کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک زائر کی حیثیت سے متواتر سرگرم ہے تاکہ اپنی گمشدہ خودی کو دوبارہ پا سکے، جو اپنی ذات کے ساتھ مفاہمت اور ہم آہنگی کی تجدید کے بغیر ممکن نہیں۔‘‘


میراجی کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے کسی بیرونی حقیقت کی استعانت یا مذہبی عقیدے یا سماجی اور سیاسی نظریے کی مدد کے بغیر فرد کے ذاتی نظام جذبات سے اخلاص کو شرط بناکر، اس تلاش کی سمت کا پتہ لگایا۔