میرا جی اور نئی شاعری کی بنیادیں
’’جی چاہتا ہے کہ بازاری گویا بن کر گلی گلی بستی بستی گھومتا پھروں۔ یوں ہی زندگی گزار دوں۔ ایک عورت اور ایک ہارمونیم کی پیٹی پہلو میں لئے اور دنیا یہ سمجھے کہ وہ ہمارا تماشہ دیکھ کر رحم کھاتی ہے اور میں یہ سمجھوں کہ تماشائی ہوں۔ یہ ہارمونیم کی پیٹی، یہ میرے ساتھ گاتی ہوئی عورت اور یہ ہجوم یہ سب تماشا ہے۔ یہ سب دنیا ہے اور میں ہی دنیا کا تماشا دیکھ رہا ہوں۔ کبھی ہارمونیم کی پیٹی کو بجاتے ہوئے اور کبھی خلوت کے لمحوں میں اس عورت سے ’تبادلہ خیال‘ کرتے ہوئے جو حقیقتاً مجھے کبھی نہیں مل سکتی لیکن بہ ظاہر ہارمونیم کی پیٹی کے مقابلے میں میری بیٹی بن کر شعر کو مکمل کر دیتی ہے۔‘‘ (میرا جی، باتیں، ساقی افسانہ نمبر، جولائی ۱۹۴۵، بہ حوالہ یونس جاوید، ’حلقہ ارباب ذوق، تنظیم، تحریک، نظریہ)، (غیر مطبوعہ تحقیقی مطالعہ)
میراجی کی شخصیت اور شاعری دونوں کے گرد ایک دھند سی پھیلی ہوئی ہے، جیسے جھٹ پٹے کے وقت کا منظر، جب چیزیں اپنی اصل سے کچھ مختلف دکھائی دیتی ہیں۔ پیکر پرچھائیں بن جاتے ہیں اور آواز سرگوشی۔ ایسے میں چیخ بھی سنائی دے تو بتدریج گہراتے ہوئے اندھیرے میں نوک خنجر کی طرح اتر جاتی ہے اور سننے والوں کے لئے رمز بن جاتی ہے۔ میراجی نے غزل، نظم، گیت جو کچھ بھی کہا اس کی ایک الگ پہچان ہے۔ ’’عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں‘‘ والی کیفت، مابعدالطبیعاتی، سری، ماورائی، روحانی طرز احساس اور تجربوں میں الجھنے والے میراجی سے پہلے بھی بہت آئے اور ان کے بعد بھی پیدا ہوتے رہے، مگر میراجی اپنی مثال آپ ہیں۔
ان کے یہاں ایسی غیر معمولی تخلیقی زرخیزی ہے کہ دور دور تک ان کا کوئی ثانی نہیں۔ لغت اور محاورے اور روزمرہ کی زبان ؛ چہ جائے کہ میرا جی کہ تشبیہیں، استعارے، علامات اور شعری پیکر، میراجی کی واردات اور تخلیقی تجربے کا حصہ بن جائیں تو پھر میرا جی کی اپنی ملکیت بھی بن جاتے ہیں۔ ان پر قدیم یا جدید دور کے کسی اور شاعر کا سایہ نہیں دکھائی دیتا، سوائے نظیر اکبرآبادی کے، اور وہ بھی بس جہاں تہاں، مگر اس مسئلے پر بات بعد میں ہوگی۔
میراجی کے چاروں طرف اتنی کہانیاں پھیلی ہوئی ہیں، کچھ سچی کچھ جھوٹی کہ ان کا اپنا چہرہ، دیکھنے والا چاہے بھی تو آسانی سے نہیں دیکھ سکتا۔ ان میں کئی کہانیاں خود میراجی کی ایجاد کی ہوئی ہیں۔ وہ جو اک محاورہ ہے ’’ہوا باندھنے کا‘‘ تو میراجی بھی اپنی ذات اور اپنی تخلیقی کائنات کے گرد ہوا باندھتے رہتے تھے۔ رفتہ رفتہ ا س نے ایک پختہ عادت کی شکل اختیار کرلی اور میراجی کی فطرت ثانیہ بن گئی۔ وہ جب بھی کوئی بات کہتے تھے، انوکھی کہتے تھے اور جب بھی مضمون باندھتے تھے، نیا باندھتے تھے۔ اس رویے نے میراجی کی شخصیت کو تو مرموز بنایا ہی، ان کی شاعری پر بھی اسرار کی پرتیں چڑھا دیں۔ اس کی وجہ سے میراجی کے بیش تر نقاد، یہاں تک کہ اعجاز احمد جیسا شخص بھی جس نے سماجی حقیقت پسندی اور ہوش مندی کا وظیفہ پڑھتے ہوئے عمر گزار دی، میرا جی کی تفہیم کے عمل میں خود میراجی کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں سے بآسانی دھوکا کھا جاتے ہیں۔
چلیے، دھوکا کھانا ایسی بری بات نہیں۔ ہم آپ سب ہی اس تجربے سے گزرتے رہتے ہیں لیکن میراجی کو سمجھنے کے معاملے میں اس رویے کا بنیادی نقصان میراجی کے نقادوں نے یہ اٹھایا کہ میراجی کے تصور شعر کی تلاش اور دریافت میراجی کی اپنی اڑائی ہوئی گرد کے حصار سے نکلے بغیر کرنے لگے۔ میں ادب میں شخصیت پرستی سے پیدا ہونے والی خرابیوں کا منکر نہیں، مگر یہ بھی جانتا ہوں کہ شخصیت کشی کاعمل بھی کچھ کم مہلک نہیں ہے۔
تو پھر میراجی کو سمجھا کس طرح جائے؟ اور ان کے اپنے تخلیقی تجروں کی رہبری کس حد تک قبول کی جائے؟ ان کے اپنے بیانات کو تسلیم کیا جائے یانہیں؟ اور میراجی کی ادبی شخصیت کو ان کی اپنی ہستی کا گواہ بھی مان لیا جائے یا نہیں؟ میراجی کی کسی بھی تحریر کو پڑھتے وقت یہ سوال بار بار میرے دماغ میں اٹھتے ہیں لیکن اس سے پہلے کہ یہ قصہ اور آگے بڑھے، میں یہ چاہتا ہوں کہ میراجی کے بارے میں مولانا صلاح الدین احمد اور فیض احمد فیض کی ان تحریروں سے، جو میراجی کی بے مثال کتاب ’مشرق و مغرب کے نغمے‘ میں ’’میرا جی کی نثر‘‘ اور ’’میرا جی کا فن‘‘ کے عنوانات کے ساتھ شامل ہیں، ذیل کے دو اقتباسات بھی دیکھ لئے جائیں۔ پہلا اقتباس، مولانا صلا ح الدین احمد کی تحریر سے یوں ہے،
’’میراجی نے کوئی بائیس تئیس برس کی عمر میں لکھنا شروع کیا۔ میری مراد نثر سے ہے۔ اس کی نظم نگاری کی عمر میں نہیں جانتا، لیکن اتنا جانتا ہوں کہ اپنے اولین مضامینِ نثر لکھنے سے پہلے وہ عشق و ناکامی کے پرآشوب دور میں سے گزر چکا تھا، مدرسے کی تعلیم چھوڑ چکا تھا اور کنار نہر کی تنہائیوں اور کتب خانۂ عام کی ویرانیوں کامکین بن چکا تھا۔ بیئر وہ کبھی کبھی ضرور پیتا تھا لیکن چھپ چھپاکر اور نگارش مضامین کے اسباب میں اس ضرورت کو خاصا اچھا دخل تھا۔
جس زمانے میں اس نے یہ تنقیدیں لکھی ہیں، ہمارے جدید نقاد ابھی پروان چڑھ رہے تھے اور انہو ں نے فقط غوں غاں ہی کرنا سیکھا تھا۔ اس اعتبار سے ہم میراجی کو بجا طور پر اردو کی جدید شعری نقد کا مورث کہہ سکتے ہیں اور جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ اس نے یہ تنقیدیں اس زمان میں لکھی ہیں جب اس کی عمر صرف بائیس تئیس برس کی تھی اور اکثر اس وقت لکھی ہی جب اسے بہت ’’پیاس‘‘ لگ رہی ہوتی تھی تو ہم ایک حسرت افروز حیرت میں گم ہو جاتے ہیں اور پھر گم ہوتے ہی چلے جاتے ہیں۔۔۔‘‘
مولانا صلاح الدین احمد کے بعد، اب ملاحظہ کیجئے فیض احمد فیض کے مضمون کا ا قتباس۔ فرماتے ہیں، ’’اس مجموعے (مشرق و مغرب کے نغمے) کی اہمیت کا ایک پہلو تو یہی ہے کہ اس کی اشاعت سے میراجی کی ادبی شخصیت کی (یہ) ادھوری تصویر ایک حد تک مکمل ہو جائےگی، اس شخصیت کے بارے میں بعض محدود اور ایک طرفہ تصورات کی تصحیح ہو سکےگی اور مرحوم کی تخلیقی کاوشوں اور صلاحیتوں کی وسعت اور تنوع کا بہترین اندازہ ہو سکےگا۔
لیکن بات صرف اتنی نہیں ہے کہ میراجی محض شاعرہی نہیں نقاد بھی تھے یا نظم کے علاوہ نثر بھی لکھتے تھے، یہ بھی ہے کہ ان کی نثر کی ماہیت اور فضا ان کی نظم سے قطعی مختلف ہے، میرا جی کے ذہن کا جو عکس ان کی نثر میں ملتاہے، بعض اعتبارات سے ان کی شاعرانہ شخصیت کی قریب قریب مکمل نفی ہے۔ ان مضامین کی نکھری ہوئی شفاف سطح پہ ان مبہم سایوں اور غیر مجسم پرچھائیوں کا کوئی نشان نہیں ملتا جو ان کے شعر کی امتیازی کیفیات ہیں۔ ان کی تخلیق کا یہ حصہ تمام تر اسی پاسبان عقل کی رہ نمائی میں لکھا گیا ہے جسے وہ بہ ظاہر عمل شعر کے قریب بھٹکنے نہیں دیتے۔ ایک حد تک تو خیر شعر اور دلیل میں یہ فرق ناگزیر بھی ہے، لیکن میراجی کی تحریروں سے یہ صاف عیاں ہے کہ انہوں نے تنقیدی جانچ پرکھ کے لئے جذب و وجدان کے بجائے عقل و شعور کا انتخاب مجبوری کا انتخاب مجبوری سے نہیں، پسند اور ارادے سے کیا ہے۔۔۔ مختلف ادوار، اقسام اور اطراف کے ادب کی تفسیر، تفہیم اور تنقیدمیں وہ خالص عقلی اور شعوری دلائل و شواہد سے کام لیتے ہیں، موہوم داخلی کشش و اکراہ کا کہیں سہارا نہیں لیتے۔‘‘
یہاں فیض کی یہ رائے ہمارے لئے اس خیال سے بھی اہمیت رکھتی ہے کہ ان کی شعریات میں میراجی سے مماثلت کے پہلو نہ ہونے کے برابر ہیں مگر فیض سے قطع نظر، میراجی کے ادبی تصورات میں ایک حد تک شریک اور میراجی کے سب سے معروف معاصر ن م راشد نے اپنے مضمون ’’جدید اردو شاعری‘‘ میں خود اپنے، تصدق حسین خالد کے اور میراجی کے ناموں سے تشکیل پانے والے مثلث کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ،
ان تینوں شاعروں میں میراجی صرف ایک شاعر نہیں تھا بلکہ اپنی جگہ ایک مکمل ہنگامہ تھا۔ اس زمانے میں جبکہ ان تین شاعروں نے اردو میں آزاد شاعری کا تعارف کرایا، میراجی نے باقی دونوں کے مقابلے میں بڑے دھڑلے سے اس نئی طرز کو استعمال کیا۔ اگرچہ میراجی نے باقاعدہ تعلیم بہت تھوڑی پائی تھی لیکن انہوں نے اپنی ذاتی مساعی سے انگریزی شاعری، نفسیاتی تجزیے اور قدیم ہندو ثقافت کا گہرا علم حاصل کر لیا تھا، جو اگر چہ اپنی اپنی جگہ بہت متضاد چیزیں ہیں لیکن ان کی شاعری میں اس طرح نمایاں ہیں کہ ان کو علیحدہ علیحدہ کرنا ناممکن ہے۔
انگریزی شاعری سے انہوں نے اپنے نئے شعور کا ادراک حاصل کیا اور آزاد شعر کا استعمال سیکھا۔ جدید نفسیاتی تجربوں سے انہوں نے فطرت انسانی کی عمیق اور اتھاہ گہرائیوں کی آگاہی حاصل کی اور قدیم ہندو ثقافت نے میراجی کو ان کی شاعری کے لئے موضوعات اور ماحول مہیا کئے۔۔۔ میراجی اپنے آسان اسلوب کے باوجود ایک ادق شاعر مشہور ہیں حالانکہ ان کا کلام انتہائی عام فہم اور عوامی زبان میں ہے۔ آخری بات یہ کہ میراجی نے نہ صرف جان بوجھ کر اجنبی موضوعات پر مبہم اور غیر واضح اندازمیں طبع آزمائی کی ہے بلکہ وہ خود بھی پیچیدہ اور غیر واضح تھے اور ان کا ابہام فکری ہونے سے زیادہ جذباتی ہے۔‘‘
گویا کہ تخلیقی تجربے کی گرفت میں آنے والے موضوعات کے علاوہ ان کے واسطے سے پیدا ہونے والے اظہار اور اسلوب کے مسئلے بھی میراجی کے شعور میں کسی طرح کی پیچیدگی نہیں رکھتے تھے۔ اپنی شاعری کے حوالے سے شعری زبان و بیان کے مضمرات پر روشنی ڈالتے ہوے میراجی نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ’’جو لوگ اس پر معترض ہیں کہ میں مبہم بات کہتا ہوں، انہیں یہ بھی تو سوچ لینا چاہئے کہ دنیا کی ہر چیز ہر شخص کے لئے نہیں ہوتی۔‘‘ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاعری میں تخلیقی رویے، ادراک، احساسات، پیرایہ اظہار اور انداز بیان کے تمام معاملات کسی ایک بندھے ٹکے طریقے سے طے نہیں کئے جا سکتے۔ ہر تخلیقی تجربہ اور اس تجربے کی لسانی ہیئت اپنے آپ میں ایک قائم بالذات سچائی ہوتی ہے۔ ایک الگ چیلنج ہوتی ہے۔ ایک منفرد سطح پر ہمارے شعور سے اپنا رشتہ قائم کرتی ہے۔ غرض کہ اس کا ایک مختلف اور منفرد اور شاید خود مکتفی وجود ہوتا ہے جسے اس کی قائم کردہ شرطوں کے ساتھ قبول کرنا اور اس کے اپنے تقاضوں کے مطابق سمجھا جانا چاہئے۔
خلاصہ اس تفصیل کا یہ ہے کہ میراجی کی شاعری میں (جسے راشد عام فہم اور سہل کہتے ہیں اور تخلیقی تجربے اور عمل کی تعبیر و تفہیم کے نودریافت پیمانوں نے بھی جس پر عاید کئے جانے والے ابہام والہام کے الزامات، بالآخر اب تقریباً مسترد کردیے ہیں) خواہ ہم آج بھی ناقابل فہم شخصی علامات اور لسانی و اسلوبیاتی ترنگوں کی موجودگی پر مصر ہوں، لیکن جہاں تک میراجی کی شعری منطق اور ادبی سوجھ بوجھ کا تعلق ہے، اس کے استدلال کی بابت دورائیں نہیں ہو سکتیں۔ میراجی کی شاعری مشکل دکھائی دیتی ہے مگر مشکل نہیں ہے اور ہمیں مشکل جو دکھائی دیتی ہے تو اس لیے کہ ہم اپنی نارسائی اور اپنی لسانی تربیت کے حدود سے یکسر بے نیاز ہوکر سارا قصور میراجی کے سر ڈال دیتے ہیں۔ تنقید کی دنیا میں عام طور پر یہی ہوتا آیا ہے اور آج بھی اپنے مخصوص و معین ذوق کی روشنی میں ہر ادبی اور فنی مظہر کو پرکھنے اور جانچنے کی روش عام ہے۔
البتہ، آج بھی ا س مفروضے پر اصرار کا کوئی جواز دکھائی نہیں دیتا کہ میراجی کے شعری تصورات اسی قسم کے لسانی اور فنی داؤں پیچ سے بھرے ہوئے ہیں جن کی نشاندہی میراجی کی نظموں سے ہوتی ہے۔ جیسا کہ فیض نے کہا تھا، تنقید، تفہیم اور تعبیر کے عمل میں میراجی بالعموم عقلی دلیلوں اور شہادتوں سے کام لیتے ہیں۔ راشد نے میراجی کے جس ابہام کی طرف اشارہ کیا ہے اس کا عقبی پردہ ان کی شاعری مہیا کرتی ہے، نہ کہ ان کی نثر- اور مولانا صلاح الدین احمد نے بھی میراجی کو جدید ادبی تنقید کا مورث جو قرار دیا ہے تو اسی بنا پر کہ میراجی نے اپنے مضامین اور تجزیوں میں ایک نئی شعری گریمر، نئے تناظر سے کام لیا ہے اور حتی الامکان اس قواعد اور اس تناظر کو صاف طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
میراجی کے مضمون ’’نئی شاعری کی بنیادیں‘‘ پر گفتگو سے پہلے اس تمہید یاپس منظر کا بیان ہونا بھی ضروری تھا کہ میراجی کا یہ مضمون ان کے تخلیقی اثرات سے تقریباً عاری اور محفوظ ہے۔ اس مضمون میں میراجی ایک وسیع زاویہ نظر اختیار کرتے ہیں، اپنا مقدمہ اردو کی مجموعی شعری روایت کے حوالے سے قائم کرتے ہیں اور نئے پرانے کی کشمکش کے پھیر میں نہیں پڑتے۔ یہ خوبی ہمیں نہ تو نئی جدید شاعری کے موضوع پر راشد کے مضامین میں نظر آتی ہے، نہ اختر الایمان کے یہاں۔ راشد اور اختر الایمان دونوں کی تحریریں نئے پرانے کے اختلاف اور تصادم کے عناصر سے بھری پڑی ہیں جب کہ میراجی، جن کی خود نگری اور تنہا روی ضرب المثل بن چکی ہے، اپنی تنقیدی نظر اور ذوق کے لحاظ سے خاصے روادار اور وسیع المشرب دکھائی دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر اس مضمون میں میراجی نے جو موقف اختیار کیا ہے، اسے مختصراً ہم ذیل کے نکات کی روشنی میں سمجھ سکتے ہیں۔ یہ سب ہی نکتے میرا جی کے اپنے بیانات پر مبنی ہیں۔ مگر ان کا جائزہ لینے سے پہلے ’روشنائی‘ میں میراجی سے متعلق سجاد ظہیر کے ایک بیان پر نظر ڈال لینا بھی بہتر ہوگا۔ فرماتے ہیں، ’’اکثر موقعوں پر ان کی تنقید سنجیدہ، بے لاگ اور جچی تلی ہوئی ہوتی تھی۔ ان میں اچھے اور برے ادب کی پرکھ کا بہت اچھا شعور تھا۔ اس مجمعے میں کئی ایسے ترقی پسند ادیب بھی تھے جن کے مقابلے میں میراجی کا تنقیدی نقطہ نظر بعض لحاظ سے زیادہ مفید اور وقیع معلوم ہوتا تھا۔‘‘
محولہ بالا اقتباس کے آخری جملے، ’’اس مجمعے میں کئی ایسے ترقی پسند ادیب بھی تھے جن کے مقابلے میں میرا جی کا تنقیدی نقطہ نظر بعض لحاظ سے زیادہ مفید اور وقیع معلوم ہوتا تھا۔‘‘ پر ذرا دیر کے لئے رک کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ مجھے معلوم ہیں کہ میراجی کے تئیں معترضانہ رویہ رکھنے والے غالی الفکر نقاد سجاد ظہیر کی اس رائے سے کس حد تک اتفاق کریں گے اور میراجی کے بارے میں عام غلط فہیموں پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس بھی کریں گے یا نہیں، مگر ایک بات تو صاف ہے کہ میراجی کے ادبی تصورات میں اور ان کی شعریات میں اس طرح کے الجھاؤ اور پیچ کا وجود نہیں ہے جوخواہ مخواہ ان کے نام کے ساتھ نتھی کر دیا گیا ہے۔ اپنے اس مضمون، ’’نئی شاعری کی بنیادیں‘‘ میں میراجی نے جن باتوں پر خاص زور دیا ہے، ان کی فہرست حسب ذیل ہے،
(۱) کچھ لوگ اردو کی آزاد نظم کو شاعری کہنے لگے ہیں۔ میں ان میں سے نہیں ہوں۔ کچھ لوگ آزاد نظم کے ساتھ موضوع کے لحاظ سے مزدور اور عورت کو ملاکر نئی شاعری سمجھتے ہیں۔۔۔ میں ان کی بھی نہیں کہتا۔
(۲) نئی شاعری ہر اس موزوں کلام کو کہا جا سکتا ہے جس میں ہنگامی اثر سے ہٹ کر کسی بات کو محسوس کرنے، سوچنے اور بیان کرنے کا انداز ہو۔
(۳) کوئی شاعر روایتی بندھنوں سے الگ رہ کر احساس، جذبے یا خیال کے اظہار میں اپنی انفرادیت کو نمایاں کرتا ہے تو وہ نیا شاعر ہے ورنہ پرانا۔
(۴) اردو ادب کی تاریخ میں نئی شاعری کا پتہ ہمیں نظیر اکبر آبادی سے ملتا ہے۔
(۵) غالب کے بعد حالی یا آزاد اور اسماعیل میرٹھی کے نام ایک سانس میں لینے چاہئیں کیونکہ انہوں نے چند اصولوں کے مدنظر چند وقتی ضروریات کے تقاضے سے شعوری طور پر بعض نئے رجحانات کی طرف رغبت دلائی اور غزل سے ہٹ کر نظم کو اختیار کیا۔
(۶) غالب کے بعد اقبال ہی ہمیں صحیح معنوں میں ایک نیا شاعر ملتا ہے۔
(۷) نوجوان شعرا کا ایک ہجوم ہمارے سامنے آکھڑا ہواہے اور اس ہجوم کے پہلو میں نئی صورتیں، نئے موضوع، نئے انداز بیان ایک الجھن پیدا کرتے ہیں۔
(۸) ادب شخصیتوں کا ترجمان ہے اور شخصیتیں زندگی کی نمائندگی کرتی ہے۔
(۹) ترقی پسند ادب کا نظریہ۔۔۔ اس خواب کو کثرت تعبیر نے پریشان کر دیا ہے۔
(۱۰) (ترقی پسندوں کی) بنیادی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے ترقی پسند ادب کو محض اشتراکی، جمہوریت کا ہم معنی سمجھا اور یوں اپنی انتہا پسندی کے باعث صرف ایک نئے قسم کے اذیت پرستانہ ادب کے سمجھانے والے بن کر رہ گئے۔
(۱۱) ایک دوسرے کو جاننے کے لئے جس خلوص کی ضرورت ہے، سوچ کی جو گہرائی درکار ہے وہ ہر کسی کی طبیعت میں باقی نہیں رہی۔۔۔ (اسی لیے) ادب زندگی سے قریب ہوتے ہوئے بھی اکثر دور ہی رہتا ہے۔
(۱۲) پہلے ارو و شاعری کے راج بھون میں پھولوں کی ایک سیج بچھی ہوئی تھی۔ پھر مغربی تعلیم اور تمدن کی آندھی آئی خس و خاشاک اڑاتی — لیکن اپنے جلو ے میں نئی کونپلوں کو پروان چڑھانے والی برکھا بھی لائی۔
(۱۳) نیا شاعر اب ایک ایسے چوک میں کھڑاہے جس کے دائیں بائیں آگے پیچھے کئی راستے نکلتے ہیں۔
(۱۴) نیا شاعر ماحول میں اپنی گہری دلچسپی کا بہانہ کرتا ہے لیکن حقیقتاً وہ صرف ا پنی ذات کے ایک دھندلے سے عکس میں محو ہے۔
(۱۵) نئے شاعر کی زندگی میں ہمیں ایک سے زیادہ باتیں الجھاتی ہیں۔ شہروں کے فاصلے مٹے، نئی تعلیم آئی اور کنویں کا مینڈک سوچنے لگا کہ اس کی ذات اور ماحول سے بالاتر بھی ایک زندگی ہے۔
(۱۶) گہرے منظم تفکر سے ہٹ کر ہر بات کو سرسری نظر سے دیکھنا انسان (نئے شاعر) کا خاصہ بن گیا۔ سطحیت حاوی ہو گئی اور غیر ذمے داری بڑھ گئی۔ نئے لکھنے والے نوجوان، شاعر پہلے بننے لگے۔۔۔ اور شاعری کے لئے جس قدر علم کی ضرورت ہے اس کی طرف بعد میں توجہ کرنے لگے بلکہ اسے یک سر نظر انداز کر گئے۔
(۱۷) نفسانفسی کے عالم میں نئے اصول نہ بن سکے۔ اس حالت میں نیا شاعر ڈولنے لگا اور دنیا کا تو اصول یہی ہے کہ جسے ٹھوکر لگے وہ اسے دھکا دیتی ہے تاکہ وہ منہ کے بل گرے۔
(۱۸) نئی شاعری ایک مسلسل تجربہ ہے۔
(۱۹) جب تک ہم سیاسی، سماجی اور انفرادی زندگی کے تانے بانے کو نہ سلجھا لیں۔۔۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ نئی شاعری اپنے بلند اور وسیع امکانات کے باوجود ابھی ایک تجربہ ہے۔۔ جس کی فوری تکمیل کی توقعات بے معنی اور نامناسب ہیں۔
میراجی نے اپنے مضمون میں جو بنیادی باتیں کہی ہیں وہ تمام باتیں اوپر ان ہی کے لفظوں میں نقل کر دی گئی ہیں تاکہ ان کا نقطہ نظر کسی طرح کی آمیزش کے بغیر سامنے آ سکے اور ہم اپنی ترجیحات کے مطابق انہیں کوئی معنی نہ پہنائیں۔ چار پانچ صفحوں کے اس چھوٹے سے مضمون میں ذاتی بصیرتیں بھری پڑی ہیں اور ان کے ہر نکتے پر نئی حسیت اور شعریات کی بحث کا ایک پورا باب مرتب کیا جا سکتا ہے۔ سب سے خاص بات یہ ہے کہ کیا ترقی پسند نقاد اور کیا نئے نقاد، ان میں سے کسی کے یہاں وجدان کی ایسی لچک، ایسی کشا وہ قلبی اور وسعت نظر ہمیں نہیں ملتی جس کا اظہار میراجی کے اس مضمون سے ہوا ہے۔
میراجی مزاجاً انیسویں صدی کے فرانسیسی اشاریت پسندوں کی طرح سریت کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے۔ صرف سطح کے اوپر تیرتی ہوئی حقیقت ان کے لئے شاید غیر دلچسپ تو نہیں تھی مگر یہ حقیقت کی آخری حد بھی نہیں تھی۔ بودلیئر کے تذکرے میں میراجی نے ایک سوال اپنے آپ سے پوچھا تھا کہ اس نے تاریکی ہی میں اجالے کی تلاش کیوں کی اور پھر یہ جواب بھی ڈھونڈ نکالا تھاکہ ’’اجالے کا احساس صرف تاریکی ہی میں ہو سکتا ہے۔‘‘ اس کے بعد میراجی نے یہ بھی لکھا تھاکہ ’’موجودہ اردو شعرا میں کم از کم ایک دو شاعر ایسے ہیں، جو اپنی شاعری کے حقیقت پسندانہ مواد کے لئے اپنی ذاتی زندگی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔‘‘ تو کیا میراجی کا یہ اشارہ آپ اپنی طرف تھا؟ شاید ہاں، کیوں کہ میراجی گنتی کی اس کمیاب مخلوق میں شامل ہیں جن کی آگہی، اعصاب حواس اور جذبات کی نفی نہیں کرتی اور جو انسانی ہستی کے جائزے میں دیکھی ان دیکھی سمتوں کا حساب ایک ساتھ کرتے ہیں۔ چنڈی داس پر اپنے مضمون میں جب میراجی یہ کہتے ہیں کہ،
’’دنیا کے اکثر ممالک بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ ساتھ اپنی دیو مالا کے بندھنوں سے کم و بیش رہائی پاتے گئے اور تہذیب کی ترقی انہیں تصورات کی پوجا سے ہٹاکر مادیت کی طرف لاتی گئی۔ لیکن ہندوستان اپنی روایتی سست رفتاری اور حکایت پرستی کے ساتھ اس معاملے میں بھی اب تک اپنے ابتدائی تخیل ہی کا قیدی ہے۔ مابعد الطبیعات سے اس کاشغف آج بھی ظاہر ہے۔۔۔‘‘
تو دراصل اپنے آپ کو دھیان میں رکھ کر یہ بات کہتے ہیں۔ جسم اور روح کے سنجوگ کی طرح میراجی خیال اور مادے کے سنجوگ، جذبے اور آگہی کے سنجوگ، حقیقت اور ماورائے حقیقت کے سنجوگ میں بھی یقین رکھتے تھے۔ طبیعت کا یہی وصف انہیں اپنے معاصر ترقی پسندو اور غیر ترقی پسندوں یا ’’جدیدیوں‘‘ دونوں سے ممیز کرتا ہے۔ ملارمے کا سب سے بڑا ذہنی مسئلہ انسانی تجربے کی دنیا میں ٹھوس اور موہوم یا مجرد اور مشہود (Concrete) حقیقتوں کا تصادم اور ان کے مابین کشمکش تھی۔ اس نے خواب کو حقیقت ہی کے ایک روپ کی طرح جو قبول کیا تھا تو اسی لئے کہ دونوں میں سے کسی ایک کی سچائی کو مسترد کرنے سے وہ قاصر تھا۔ علامات، اشارات اور خوابوں کے وسیلے سے ظہور پذیر ہونے والی ’’منظم حقیقتوں‘‘ کے ساتھ اپنے حقیقت پسند اور انقلابی ہم عصروں کے برعکس میراجی کسی طرح کا ’’بے معنی مذاق‘‘ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے بدیہی حقیقتوں کے حدود کو بھی ہمیشہ پیش نظر رکھا اور حلقہ ارباب ذوق کے ہیئت پرستوں یا ترقی پسند مصنفین کی حقیقت پرست صفوں کے بہاؤ میں نہیں آئے۔
شعور کا نقطۂ عروج میراجی کے نزدیک ’’نثری استدلال‘‘ نہیں تھا۔ اسی لئے میراجی نے اپنی جستجو کاسفر کسی بیرونی سہارے کے بغیر جاری رکھا اور اپنے شب چراغ کی روشنی پر قانع رہے۔ میراجی کے لئے ہندو فلسفہ، بالخصوص ویشنومت سے جڑا ہوا بھکتی کا تصور کسی طرح کا مذہبی عقیدہ نہیں تھا۔ اس قسم کے تصورات کو میراجی نے ایک تخلیقی عقیدے کے طور پر قبول کیا تھا اور ’’نئی شاعری‘‘ میں اس خود مختار و خود سرمذہبیت کو سمونے کی کوشش کی تھی جو منظم عقیدے کی حدوں سے آگے جاکر اور سطح سے اوپر اٹھ کر، آزادانہ اپنے امکانات کی تلاش کرتی ہے۔ وہ ایک بکھرتی ہوئی، ٹوٹتی ہوئی انسانی تنظیم، رفتہ رفتہ ایک بے معنی ہوتی ہوئی معاشرت۔۔۔ لیکن ایک مستحکم جذباتی نظام کے شاعر تھے۔ ایسا نہ ہوتا تو میراجی اپنے شعری تصورات کی پیشکش میں اتنے غیر مبہم اور معقول نظرنہ آتے۔
’’نئی شاعری کی بنیادیں‘‘ میں انہوں نے کئی ایسی باتیں کہی ہیں، مثال کے طور پر آشوب امروز میں گھرے ہوئے تنہا فرد کی حسیت اور حیثیت کے بارے میں جنہیں جدیدیت کے مفسرین نے میراجی کے بعد بھی ایک وظیفے کی طرح دو ہرایا ہے، آج تک دوہرائے جا رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ میراجی نے کچھ ایسے سوالات بھی اٹھائے ہیں جو سماجی حقیقت نگاری کی جمالیات سے گہری مناسبت رکھتے ہیں اور روایتی، رسم پرستانہ جدیدیت میں یقین رکھنے والے جنہیں بآسانی ہضم نہیں کر سکتے۔ یہاں میرا اشارہ نئی شاعری کی ان بنیادوں کی طرف ہے جن سے میراجی یا تو سرسری گزر جاتے ہیں، یا انہیں لائق اعتنا نہیں سمجھتے۔ یہ نکتے حسب ذیل ہیں،
الف) میراجی صرف موجودہ معاشرتی یا فکری صورت حال تک اپنے آپ کو محدود نہیں رکھتے اور ایک نئے امکان کی بات بھی کرتے ہیں۔ سماجی اور اقتصادی پس منظر میں ادب اور آرٹ کے نئے اسالیب پر نظر ڈالتے ہیں اور نئے شاعروں کی اکثریت کے برعکس گردو پیش کی حقیقتوں سے ہراساں نہیں ہوتے۔ اس واقعے پر بے اطمینانی کا اظہار کرتے ہیں کہ نیا شاعر ہر چند کہ ’’ماحول میں اپنی گہری دلچسپی کا بہانہ کرتا ہے، مگر حقیقتاً وہ اپنی ذات کے گورکھ دھندے کا قیدی بن چکا ہے۔ اس جنجال سے نکلنے کے لئے وہ کسی بیرونی سہارے کی تلاش میں ہے۔‘‘
ب) میراجی کے بعد کی نسل کے شاعر، جو اپنے آپ کو میراجی کی روایت سے جوڑتے ہیں اور ترقی پسندوں کی سماجیات میں یقین نہیں رکھتے، ان کے یہاں ماحول سے بیزاری کا اظہار بالعموم افسرد گی یا فنا پرستی کی سطح پر ہوا ہے۔ کبھی کبھار وہ احتجاج اور برہمی کاراستہ بھی اپنا لیتے ہیں مگر زیادہ تر ان کا لہجہ مایوسی، بے سمتی کی پیدا کردہ الجھن اور شکست خوردگی کا ہے۔ وہ امکان یاقیاس کی بات یا تو کرتے ہی نہیں یا پھر مستقبل کے سیاق میں صرف خوف زدگی اور دہشت کا اظہار کرتے ہیں۔
ج) میراجی اس امر پر بھی متاسف ہوتے ہیں کہ نیا شاعر اپنے ماحول کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکا ہے۔ وہ کسی قدر بوکھلایا ہوا ہے۔ جس عمارت کو اسے سجانا ہے، نئے روپ میں ڈھالنا ہے، اس کی بنیادوں کاحال اسے پوری طرح نہیں معلوم ہے۔
د) نئے شاعروں کے احساس تنہائی کی بابت بھی میراجی بس اتنا کہتے ہیں کہ ’’گھر سے دور ہوکر تنہائی کا احساس نشو ونما پانے لگا۔‘‘ گویاکہ جدید صنعتی اور میکانکی تہذیب کا وہی المیہ جس کی طرف اکبر نے اور اقبال نے اشارے کئے ہیں، ’’کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جاکر‘‘ یا ’’ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا، اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا۔۔۔‘‘ میراجی اس المیے کے پس منظر میں نئے شاعر کے اس رویے کی بات کرتے ہیں جو ’’چار دن کی چاندنی میں ذاتی خواہشات کی تکمیل‘‘ چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ بعض نئے شاعروں کے یہاں احساس تنہائی کے مضمرات بہت پیچیدہ ہیں اور اس کے اسباب صرف جسمانی یا جذباتی سہاروں کے فقدان یا ’’زندگی کے اختصار کے احساس‘‘ میں نہیں ڈھونڈ ے جا سکتے۔ ’’ماورا‘‘ کی ایک نظم (انسان) میں راشد نے کہا تھا،
الٰہی تیری دنیا جس میں ہم انسان رہتے ہیں
غریبوں جاہلوں مردوں کی بیماروں کی دنیا ہے
یہ دنیا بے کسوں کی اور لاچاروں کی دنیا ہے
ہم اپنی بے بسی پر رات دن حیران رہتے ہیں
ہماری زندگی اک داستان ناتوانی ہے
بنا لی اے خدا اپنے لئے تقدیر بھی تو نے
اور انسانوں سے لے لی جرأت تدبیر بھی تو نے
یہ داد اچھی ملی ہے ہم کو اپنی بے زبانی کی
اور نظم ختم اس مصرعے پر کی تھی کہ، خدا سے بھی علاج درد انساں ہو نہیں سکتا۔
خود میراجی کی شاعری کا مجموعی مزاج اور اس کے کلیدی تصورات کا جائزہ لیتے ہوے راشد نے کہا تھا کہ ’’(یہ شاعری) انسان کی ابدی تلاش کی تمثیل ہے جس کے راستے میں انسان شہری کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک زائر کی حیثیت سے متواتر سرگرم ہے تاکہ اپنی گمشدہ خودی کو دوبارہ پا سکے، جو اپنی ذات کے ساتھ مفاہمت اور ہم آہنگی کی تجدید کے بغیر ممکن نہیں۔‘‘ (لامساوی انسان، ایک مصاحبہ) میراجی کے وقت تک نئی شاعری کا جو سرمایہ سامنے آیا تھا، ظاہر ہے کہ انہوں نے اپنی رائے اسی سرمائے کی بنیاد پر قا ئم کی تھی۔
اس سلسلے میں غور طلب بلکہ ایک حد تک پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ میراجی کے دور کے بعد نئے شاعروں کی جو نسل سنہ ساٹھ کے بعد نمایاں ہوئی، اس میں بھی اکثریت ایسوں کی ہے جو اپنے تجربے کو کسی ایسی انسانی تمثیل کے مرتبے تک نہیں لے جاتے جو انسانی ہستی کا ازلی اور ابد ی نشان بن سکے۔ میراجی کا امتیاز یہ ہے کہ وہ فوری قسم کے محدود دائرے میں گردش کرتے ہوئے، چھوٹے چھوٹے تجربوں کو بھی اپنے تخلیقی تجربے کی اساس بناتے ہیں تو اس طرح کہ اس کا مرتبہ بلند ہو جاتا ہے اور دائرہ پھیل جاتا ہے۔ وہ زماں اور مکاں کے قیدی نہیں بنتے ہر چند کہ زماں اور مکاں کو ایک ناگزیر حوالے کے طور پر قبول تو کرتے ہیں اور اپنے تجربے کو ایک ساتھ حقیقی اور ماورائے حقیقی جہات کے ساتھ برتنا بھی جانتے ہیں۔
شاعر میں نئے پن کی صفت کے ساتھ نظیر، غالب اور اقبال کے نام ایک سانس میں لینے کا مطلب یہ ہے کہ میراجی کا شعری وجدان فیشن زدہ نئے شاعروں کے برعکس بے لوچ نہیں تھا۔ تخلیق کے منصب کا وہ نسبتاً کہیں زیادہ ترقی یافتہ تصور رکھتے تھے۔ میراجی کی شاعری اور ادبی فکر ایک واضح وجود ی آہنگ رکھتے ہوے بھی دراصل انسانیت دوستانہ وجودیت کے اس تصور کی ترجمان تھی جو ہمارے زمانے میں سارتر کی تحریروں سے جھلکتا ہے۔ وجودیت، جدید نفسیات اور ایک وسیع المشرب انسانی فکر کے امتزاج سے میراجی نے انفرادی اور شخصی تجربے کا مفہوم بدل دیا تھا۔ ان کی نظم ’’جاتری‘‘ اور ’’سمندر کابلاوا‘‘ سے ان کے اسی انداز نظر کی نمائندگی ہوتی ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ میراجی کی شاعری اور میراجی کے ادبی تصورات اور ترجیحات کو سمجھنے میں ان کے بعد کی نسل کے بیش تر ادیبوں اور شاعروں نے غلطی کی ہے جس طرح میراجی کی شاعری کو نجی علامتوں، جنسی محرکات اور ایک معینہ ’’من کی موج‘‘ کے حساب سے دیکھنا غلط ثابت ہوا، اسی طرح میراجی کی ادبی فکر کو بھی ایک انوکھے، مرکز سے کھسکے ہوے، آشفتہ مزاج اور روایتی معنوں میں غیر ذمہ دار فرد کے مبہم اظہار کانام دینا صحیح نہیں ہوگا۔ میراجی کی شاعری اور ان کی نثر دونوں کے ساتھ اس سے بہتر سلوک کیا جانا چاہئے۔ یہ مضمون ’’نئی شاعری کی بنیادیں‘‘ تصوراتی (Conceptional) سطح پر بہت بڑی یا غیر معمولی تحریر نہیں ہے لیکن اس کا تصوراتی چوکھٹا (Frame work) بلا شبہ اس سے کہیں زیادہ کشادہ ہے جتنا کہ ہم اب تک سمجھتے آئے ہیں۔
ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ عظمت اللہ خاں کے ’’سریلے بول‘‘ کے مقدمے سے لے کر اختر الایمان، راشد اور میراجی کے مضامین تک ناسمجھی کی باتوں کا وہ سلسلہ راہ نہیں پاسکا تھا جس نے بعد کے ادوار میں ایک انتہا پسندانہ میلان کی شکل اختیار کر لی اور جس کے نتیجے میں نئی شاعری نہیں نیا شاعر بھی دھیرے دھیرے سمٹتا گیا۔ اپنے بعد رونما ہونے والے شعری منظر نامے سے اختر الایمان کی ناآسودگی محض بے سبب تو نہیں تھی۔
میراجی کے اس مضمون میں کچھ جملے تو ایسے ہیں کہ ان کا اطلاق میراجی کے زمانے کی نئی شاعری سے زیادہ اس دور کی شاعری بلکہ شاعروں پر ہوتا ہے جنہوں نے یہ محاذ انیس سو ساٹھ پینسٹھ (۶۵۔ ۱۹۶۰) کے بعد سنبھالا، جب رسمی اور تقلیدی جدیدیت نے اپنی پیش رو روایت کے خلاف ایک طرح کا اعلان جنگ کر رکھا تھا۔ اس اقتباس پر کوئی تبصرہ کئے بغیر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں۔
’’گہرے منظم تفکر سے ہٹ کر ہر بات کو سرسری نظر سے دیکھنا انسان کا خاصہ بن گیا۔ سطحیت حاوی ہوگی اور غیر ذمہ داری بڑھ گئی۔ نئے لکھنے والے نوجوان، شاعر پہلے بننے لگے۔ اردو شاعری کے لئے جس قدر علم کی ضرورت ہے، اس کی طرف بعد میں توجہ کرنے لگے۔ بلکہ اسے یکسر انداز کر گئے اور اس لئے علم کی یہ کمی جب گہرائی اور وسعت کے اس فقدان سے ہم آہنگ ہوئی، جو نئے شعرا میں اکثر موجود ہے تو اعتراضات کی گنجائش نکلی۔ گویا ابھی ایک تجربہ تکمیل کو پہنچا بھی نہ تھا کہ تجربہ کرنے والوں کے دعوؤں نے مخالف بھی پیدا کر دیے!‘‘