میر میری نظر میں
آبِ حیات‘‘ میں آزادؔ نے میرؔ کے متعلق یہ روایت بیان کی ہے کہ میرؔ کے ایک دوست انہیں تبدیل آب و ہوا کے لئے اپنے ایک مکان میں لے گئے۔ کچھ دن کے بعد جب وہ آئے تو انہوں نے دیکھا کہ کمرے کی کھڑکیاں بند پڑی ہیں۔ انہوں نے کھڑکیاں کھولیں اور میرؔ سے کہا کہ میں تو اس غرض سے آپ کو یہاں لایا تھا کہ کھڑکیوں سے پائیں باغ کا نظارہ کریں گے اور آپ کا دل کچھ بہلے گا۔ مگر آپ نے تو کھڑکیاں تک نہیں کھولیں۔ میرؔ نے حیران ہوکر پوچھا۔ اچھا، ادھر باغ بھی ہے۔ پھر اپنے کٹے پھٹے مسودوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے۔ میں تو اس باغ کی فکر میں ایسا لگا ہوا ہوں کہ اس باغ کی فکر ہی نہیں۔
میرؔ کے خونِ جگر کا گلزار، رلکے کے اندرونی درخت کی یاد دلاتا ہے۔ رلکے نے کہا تھا کہ شاعر جب کوئی درخت دیکھتا ہے تو اس کے اندر ایک پیڑ بھی اگتا ہے۔ اسی کا نام شاعری ہے۔ اب تک شاعری کا مطالعہ یا تو شاعر کی شخصیت، اس کے ماحول، اس کے مذہبی، اخلاقی، سماجی، سیاسی افکار کی روشنی میں کیا جاتا رہا ہے، یا پھر صرف شاعری کو بنیاد بناکر، فن کی حیثیت سے ہی سروکار رکھتے ہوئے، الفاظ کی ترتیب و تنظیم، تشبیہات، استعارات، زبان کی صحت، محاورات کے استعمال، آوازوں کے زیر و بم پر زور دیا جاتا ہے۔ دراصل یہ دونوں طریقے، دو انتہاؤں کو ظاہر کرتے ہیں۔
پہلی صورت میں شاعر سے سروکار ہوتا ہے جو کسی فلسفے، کسی مسلک، کسی نظریے، کسی زاویۂ حیات کی ترجمانی کرتا ہے اور اس کی بناء پر اس کا درجہ متعین کیا جاتا ہے۔ دوسرے طریقے کے مطابق شاعر کسی زمانے، کسی خیال، کسی مسلک کا ہو اس کے الفاظ اور ان کے حسن، بیان اور حسنِ بیان، لسانی ڈھانچے اور جمالیاتی کرشمے سے ہی غرض ہوتی ہے۔ ایلیٹ نے جانسن کی تنقید نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ نقاد فلسفی یا معلم اخلاق نہیں ہوتا، نہ وہ شاعری کے متن کے مطالعے میں اس بات کو نظر انداز کرتا ہے کہ شاعر کیا کہہ رہا ہے اور اس کے کہنے کی معنویت کیا ہے مگر شاعر جو کچھ کہہ رہا ہے اسے فلسفے کے معیاروں یا سماجی علوم کے پیمانے سے ناپنے کی ضرورت نہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ اس کی مخصوص بصیرت کے آئینے میں ہمیں زندگی کی، انسانو ں کی، فرد اور اس کے مسائل کی، سماج کی روح کی جھلک دکھائی دیتی ہے یا نہیں۔
شاعری زندگی کی نقالی یا ترجمانی نہیں ہے۔ یہ زندگی کی ایک نئی تنظیم، ایک نئی تخلیق ہے۔ یہ افکار سے نہیں، تجربات سے وجود میں آتی ہے اور آفاقی اہمیت کی حامل بھی اس وقت ہوتی ہے جب اس میں ایک مخصوص واقعیت، یک خصوصیت، ایک مقامیت ہوتی ہے۔ اس لئے میرؔ کے مطالعے میں نقاد کو صرف یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ میرؔ نے اپنے دور کے سماج کی بدحالی کی تصویر کس طرح کھینچی ہے اور نہ صرف اس پر بس کرنا چاہیے کہ میرؔ نے الفاظ کا استعمال کس طرح کیا ہے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ میرؔ کی داستان کیا ہے۔ اشاروں اشاروں میں وہ کیا کہہ رہے ہیں اور کس طرح کہہ رہے ہیں۔ ان کی بات کیا سنی سنائی یا لادی ہوئی بات ہے، یا اوپری ہے، یا دل کی گہرائیوں سے نکلی ہے، ان کے سارے وجود کی پکار ہے یا فیشن یا فارمولے کی بازیگری ہے۔ اس بات کی خوبی، عمدگی اور کیفیت کا جائزہ لیتے وقت ہمیں یہ بھی ملحوظ رکھنا ہوگا کہ کس ادبی روایت سے ان کا تعلق ہے اور پھر یہ بھی کہ ان کے بعد بات کہنے کے جو انداز آئے ہیں، ان کی موجودگی میں میرؔ کی بات اب کیسی لگتی ہے۔
میرؔ کے معاصرین میں میرؔ کا کیا مقام ہے۔ میرؔ کے بعد آنے والوں کے لئے میرؔ کیا معنی رکھتے تھے۔ اور آج میرؔ کتنے زندہ، کتنے شاداب، کتنے دلوں میں سرایت کرنے والے، کتنے ذہنوں پر حکومت کرنے والے ہیں۔ اگر میرؔ کی جگہ صرف الماری میں سب سے اونچی جگہ ایک مقدس نشان کی طرح ہے تو پھر میرؔ کی صرف تاریخی حیثیت ہے اور اگر آج بھی وہ شور انگیز اور ہنگامہ گرم کن ہیں، ہمیں وہ پرانے ہوتے ہوئے اپنے اور نئے اور ہم عصر محسوس ہوتے ہیں تو پھر ان کی اہمیت، عظمت اور معنویت مسلم ہے اور جب تک اردو زبان زندہ اور اردو پڑھنے والے باقی ہیں، میرؔ بھی زندہ اور پائندہ رہیں گے۔
بڑا شاعر وہی ہوتا ہے جو ہر دور میں اپنا معلوم ہوتا ہے۔ اس کے کلام میں نئی نئی جہتیں برابر دریافت کی جاسکتی ہیں، جو زندگی کے ہر موڑ پر اور تاریخ کے ہر بہاؤ میں ساتھ دے سکتا ہے، جس سے ہر بات میں اتفاق کرنا ضروری نہیں، مگر جس کی بات کی صداقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے، جس کو جاننا ضروری ہے کیوں کہ اس کے بغیر ہم زندگی کی ایک متاع گراں مایہ کھودیں گے مگر جس کو ماننا ضروری نہیں، جس کو سمجھنا ضروری ہے لیکن جس کے پیچھے چلنا ضروری نہیں۔
شاعری اور نثر میں بنیادی فرق ہے۔ شاعری صرف کلامِ موزوں نہیں ہے بلکہ کچھ اور بھی ہے۔ موزونیت تو صرف ایک ظاہری پہچان ہے۔ اصل فرق الفاظ کے متعلق رویے کا ہے۔ خیال کی منطقی ترتیب، نحوی قواعد کے مطابق نثر میں ہوتی ہے۔ شاعری میں الفاظ کی ترتیب نثر کی طرح نہیں ہوتی اور الفاظ کا استعمال بھی نثر کے مطابق نہیں۔ ہاں کبھی ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ ایک مغربی ماہر لسانیات نے اعدادو شمار کے ذریعہ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ نثر کو شعر سے، زبان کے وقفے GAPS یا اس میں نثر کی پٹری سے انحراف کی بنا پر ممیز کرتے ہیں۔ مغربی شاعری کے مطالعے سے اس نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ کلاسیکی شاعری میں یہ انحرافات یا وقفے نستباً کم ہیں۔ رومانی شاعری میں زیدہ اور جدید شاعری میں اور زیادہ۔ یہ کلاسیکی پر اس کی فوقیت کی دلیل نہیں ہے، اس کے امتیاز اور شناخت کا ثبوت ضرور ہے۔ کلاسیکی شاعری ایک طور پر نثر کا کام بھی کرتی تھی۔
جدید شاعری اب اپنے مخصوص وظیفے کے ادا کرنے کی طرف زیادہ مایل ہے۔ بہر حال وقفے یا انحرافات کے تناسب کی بحث میں ہمیں یہ بھی ملحوظ رکھنا ہوگا کہ مشرق کی کلاسیکی شاعری، مشاعروں کی روایت کی وجہ سے فوری ترسیل پر زور ضرور دیتی تھی۔ سہل ممتنع جیسے معیاروں کی قائل تھی، الفاظ سے جادو جگانا جانتی تھی، آوازوں کی گونج کو ملحوظ رکھتی تھی اور الفاظ کی پرکھ کے سلسلے میں ایک خاصا ترقی یافتہ معیار رکھتی تھی، پھر وہ الفاظ کے رنگ محل کو سب کچھ نہیں سمجھتی تھی، ان سے کسی نہ کسی روشنی کے مینار بھی بنانا چاہتی تھی، اپنے طور پر کچھ کہنا بھی چاہتی تھی، مسرت کے ساتھ بصیرت بھی دینا چاہتی تھی۔
میرؔ کو میں مکمل شاعر کہتا ہوں۔ اس لئے کہ ایک تو ان کی شخصیت کھری ہے۔ انہوں نے زندگی کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے۔ امراء کی صحبتیں اٹھائیں۔ دلی کی رونق اور اس کی بربادی دیکھی، جو معزز تھے انہیں ذلیل ہوتے اور جو نیچ تھے انہیں اوپر جاتے دیکھا۔ انہوں نے جنگوں میں بھی حصہ لیا اور فقیروں کی صحبتوں میں بھی۔ انہوں نے لڑکوں سے بھی عشق کیا اور عورتوں سے بھی۔ انہوں نے جامع مسجد کی سیڑھیوں پر تہذیب اور زبان کو دیکھا اور پوری طرح جذب بھی کیا۔ انہوں نے فن کے لئے ریاض بھی کیا۔ غرض وہ گردو پیش کی زندگی میں حصہ لیتے رہے، مگر ایک آن، ایک مزاج، ایک رکھ رکھاؤ، ایک انداز کے ساتھ۔
انداز کا لفظ انہیں بہت پسند تھا۔ اپنی شاعری کی بھی یہی خصوصیت انہوں نے بتائی ہے۔ وہ دنیا میں اس طرح رہے جیسے بطخ پانی میں رہتی ہے۔ ان کے یہاں ایہام بھی مل جائے گا مگر وہ ایہام گوئی کے خلاف تھے۔ تلاش مضمون کے کنج میں بھی انہوں نے قدم رکھا ہے، مگر تلاشِ مضمون ان کی خصوصیت نہیں ہے۔ معاملے کی چاشنی بھی ان کے یہاں ہے۔ مگر جرأت کو انہوں نے ان کی چوما چاٹی پر تنبیہ کی تھی۔ انہوں نے بہت جلد اپنا رنگ پالیا۔ اور اس رنگ کی تقلید آزاد ہی کے الفاظ میں قل ہو اللہ کا جواب لکھنے کے مترادف ہے۔ اس رنگ میں غصہ نہیں، غم ہے۔ بلند آواز تلقین نہیں، نرم گفتار فہمایش ہے۔ خطابت نہیں، سرگوشی ہے۔ اعلان نہیں، نکتہ سنجی ہے۔ تلوار نہیں نشتریت ہے۔ فلسفہ نہیں، فکر محسوس ہے۔ تصور کی بازیگری نہیں، صوفیانہ مزاج کی دلداری اور دل آسائی ہے۔ تپتے ہوئے سورج کی جھلسائی ہوئی گرمی نہیں، شبنم میں نہائی ہوئی خنک راتوں کی لطافت ہے۔ روز روشن کی بے رحم دھوپ نہیں، ایک خواب آلود چاندنی ہے۔
جزئیات ہیں۔ مگر جزئیات کا ہوکا نظیرؔ کی طرح نہیں، یہ صرف تصویر میں جان ڈالنے کے لئے چند ماہرانہ نقوش ہیں۔ نامرادی میں بھی زیست کرنے کے آداب ہیں۔ خودی ہے مگر خودی کے ساتھ بے خودی بھی ہے۔ ’’میں’‘ کے ساتھ ’’ہم‘‘ بھی ہے۔ آدمی پر بھی نظر ہے مگر انسان آنکھ سے اوجھل نہیں ہوتا۔ بندگی کی بیچارگی بھی ہے اور صرف بندہ رہنے اور خدا نہ ہونے کی حسرت بھی۔ اس رنگ میں کبھی کبھی اوپری نظر میں بڑا سپاٹ پن بھی محسوس ہوتا ہے مگر غور سے دیکھا جائے اور شعر کو دہرایا جائے تو اس کی تہہ داری کا راز کھلتا ہے۔ اس میں تکرار بہت ہے مگر یہ وہ تکرار ہے جو مقدس صحیفوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ نے کی صدا میں فریاد کی لے تو ہوگی ہی۔
غزل بڑی کافر صنفِ سخن ہے۔ یوں تو یہ غنائی صنفِ سخن ہے مگر ارتقا کے ساتھ اس میں شاعری کی دوسری اور تیسری آوازیں بھی مل گئیں۔ یہ در اصل ایک تجربے کی غواصی ہے۔ شاعر ایک خاص بحر میں غوطہ لگاتا ہے۔ غوطہ زنی کی سمت اور منزل بحر قافیے اور ردیف نے متعین کی ہے۔ ہر غوطے میں موتی ہی اس کے ہاتھ نہیں لگا۔ سیپیاں اور گھونگھے بھی مل جاتے ہیں۔ میرؔ کی کم غزلیں مرصع کہی جاسکتی ہیں۔ نسبتاً کمزور اشعار، دراصل جاندار اشعار کو اور اجاگر کرتے ہیں۔ ذہن تھم تھم کر بلند ہوتا ہے۔ مسلسل بلندی پر انسان ٹھہر نہیں سکتا۔ پھر یہ ایسی ہی بات ہے جیسے آدمی منزل کی طرف نگاہ جماتے ہوئے بھی ادھر ادھر دیکھنے سے باز نہ رہ سکے۔ میرؔ کے یہاں لمبی بحروں میں غزلیں بھی ہیں اور چھوٹی بحروں میں بھی اور درمیانی بحروں میں بھی۔ گو ان کی لمبی اور چھوٹی بحروں کا چرچا زیادہ ہوا ہے۔ یہ عام تجربہ ہے کہ دوسروں پر نظر زیادہ ٹھہرتی ہے، بیچ کی دنیا پر کم۔ مگر میرؔ کی بہترین غزلیں تینوں قسم کی بحروں میں مل جائیں گی۔
میرؔ کی غزل کی دو خصوصیتیں اور ہیں۔ ایک تو انہوں نے کثرت سے غیر مردّف غزلیں کہی ہیں اور ان میں ان کی بہترین غزلیں بھی آجاتی ہیں۔ دوسرے انہوں نے غزلوں میں قطعہ بند اشعار بہت کہے ہیں۔ ان کا شمار کیا جائے تو خاصی لمبی فہرست بنےگی۔ محض ریزہ خیالی اور منتشر جلووں کے ساتھ ان کے یہاں مرتب تصویریں بھی ہیں، کہانیاں اور ڈرامے بھی ہیں اور داستان کا آغاز اور انجام بھی مل جاتا ہے۔
غزل عشق کی داستان ہے۔ حسن کی مصوری بھی عشق کے حوالے سے ہوتی ہے۔ میرؔ کے یہاں حسن کی مصوری بھی ہے مگر میرؔ کا مخصوص میدان وارداتِ عشق ہے جو زندگی کو معنی اور مقصد، سمت اور جہت، گہرائی اور گیرائی دیتا ہے۔ یہ عشق جسم کا ہو یا روح کا، حقیقی ہو یا مجازی یہ قدروں سے عشق ہو یا ایک تہذیب سے، افکار سے ہو، یا جذبات کے طوفان سے، زندگی کے نہاں خانے کی کلید بن جاتا ہے۔ سعدی نے کہا تھا کہ قحط سالی کے زمانے میں لوگ عشق کو فراموش کر گئے تھے۔ سعدی نے محض ایک پرلطف بات کہہ دی تھی ورنہ قحط سالی ہو یا فاقہ مستی۔ عشق کا سایہ سر سے جاتا نہیں۔ پھر سعدیؔ نے اس آشوب کی طرف بھی اشارہ کیا تھا جب زندگی کی اعلیٰ قدریں تہس نہس ہوجاتی ہیں۔
کہنا یہ ہے کہ یہ عشق محض جنسی جذبے کا اظہار نہیں ہے۔ محض جذبات کا ابال نہیں ہے۔ محض ایک حیاتیاتی عمل نہیں ہے، بلکہ ایک علامت ہے اس مزاج، اس کیفیت، اس استعداد، اس عطیہ ربانی کی جو انسان کو حیوان سے ممتاز کرتی ہے اور اسے بدن کے اسرار میں روح کا جلوہ دکھاتی ہے، جو جز میں کل، ذرے میں آفتاب، کرن میں سورج، پھول میں گلستاں، قطرے میں سمندر کا نظارہ کراتی ہے۔ جو فرد کو سماج، سماج کو تہذیب، تہذیب کو انسانیت کی سعیٔ لازوال بناتی ہے۔ شیوہ ہائے بتاں کی طرح اس کے ہزاروں نام ہیں۔
میرؔ نامرادی کے باوجود زندگی کے اور عشق کے آداب کے عاشق ہیں۔ نظیر ہماری مشترک تہذیب کے عاشق ہیں، انیس گنج شہیداں کے عاشق ہیں۔ غالبؔ تماشائے زندگی کے عاشق ہیں۔ اکبر مشرقیت کے عاشق ہیں۔ اقبالؔ فقر غیور کے عاشق ہیں۔ غرض بڑی اور معنی خیز شاعری میں عاشق کے بغیر کام نہیں چلتا۔ اس عشق میں تسلیم و رضا کی بھی گنجائش ہے اور جبر ِ حیات پر طنز کی بھی۔ بدن کے حسن شرابی کی بھی اور روح کے طور وسینا کی بھی، فریادکی لے کی بھی اور مستی کی ترنگ کی بھی۔ قوسِ قزح کی طرح اس میں سات رنگ ہیں اور ہر رنگ اپنی بہار رکھتا ہے۔
شاعری کا کام در اصل تہذیب کے ارتقاء میں پورے انسان، اس کی دوسرے انسانوں اور فطرت سے ہم آہنگی، زمین سے اس کے رشتے اور آسمانوں میں اس کی جگہ کو باقی رکھنے کا نام ہے، انسان تہذیبوں اور صنعتوں، شہری زندگی، سیاست اور حکومت، فطرت پر اقتدار کی دوڑ میں بہت کچھ حاصل کرتا ہے مگر اپنی بنیاد سے کچھ کٹ بھی جاتا ہے۔ شاعری خوابوں کے ذریعہ سے حقایق کی نئی تنظیم اور توسیع ہے۔ لفظ میں یہ کمال ہے کہ یہ علم بھی دیتا ہے اور خیال بھی اور خواب بھی۔ یہ گنجینۂ معنی کا طلسم بھی ہے اور بوتل سے نکلا ہوا جن بھی۔ یہ سخن بھی ہے ماورائے سخن بھی۔ سطر بھی اور بین السطور بھی۔ اس کے کوزے میں دریا بند ہو سکتے ہیں، اس کے قطرے میں سمندروں کا جال سما سکتا ہے۔
لفظوں کے امکانات اسی پر کھلتے ہیں، اسی کے ہاتھ میں لوہا موم ہوتا ہے جو کسی گہرے جذبے کا مارا ہوا ہو، مگر اس نے اس جذبے کو ہضم بھی کیا ہو، جو زندگی کا سارا زہر پی سکے اور اسے امرت بنا سکے۔ یہ جذبہ، یہ تیر، یہ زخم الفاظ کو بھی تیر و نشتر بنا دیتا ہے۔ ویسے الفاظ کے خزانے بہت سوں کے پاس ہوتے ہیں، مگر الفاظ کو برتنا، ان کو سلیقے سے کام میں لانا، ان کی آوازوں، ان آوازوں کی گونج، ان کے معانی کی تہوں، ان کے ذایقے، ان کی خوشبو، ان کی گرمی یا نرمی، ان کے ا نسلاکات، ان کی خیال کی سیڑھیاں، ان کی دوسرے الفاظ کے ساتھ مل کر کرنیں اور کیفیتیں، یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں، اس کے لئے بڑا ریاض کرنا پڑتا ہے۔ بڑا خونِ جگر کھانا پڑتا ہے۔ مگر اس سے پہلے کسی خیال، کسی جلوے، کسی تجربے، کسی صورت، کسی مورت، کسی باغ، کسی ویرانے، کسی خلوت، کسی جلوت کا سایہ ضروری ہے۔ جبھی تو میرؔ نے کہا تھا،
اے آہوان کعبہ نہ اینڈ و حرم کے گرد
کھاو کسی کا تیر کسی کے شکار ہو
میرؔ نے یہ تیر کھایا تھا اور اس کا زخم ساری عمر دل پر لیے رہے۔
چشمِ خون بستہ سے کل رات لہو پھر ٹپکا
ہم نے جانا تھا کہ اے میرؔ یہ آزار گیا
دل پر خون کی اک گلابی سے
عمر بھر ہم رہے شرابی سے
نثر میں الفاظ خراماں ہوتے ہیں۔ شاعری میں رقص کرتے ہیں۔ خرام دیکھا جاتا ہے۔ رقص محسوس بھی کیا جاتا ہے۔ میرؔ کا رقص موسیقی کا تابع نہیں، مہذب رقص ہے۔ لفظ کے امکانات، اس کے ذریعہ سے لہجے کے اتار چڑھاؤ کے اظہار، ایک لفظ سے ایک دنیا آباد کر دینے کی قدرت، سادگی میں پرکاری، کفایت میں بھرپور کیفیت سیکھنا ہو تو میرؔ کا کلام سب سے اچھا رہبر ہے۔
سہل ہے میرؔ کا سمجھنا کیا
ہر سخن اس کا اِک مقام سے ہے
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
زبان کی خوبی نہ فارسی تراکیب میں ہے، نہ صنایع بدایع کے استعمال میں، نہ اسلوب کا شہید ہونے میں بلکہ بہترین الفاظ کی بہترین ترتیب میں یا یوں کہا جائے کہ موزوں ترین الفاظ کی موزوں ترین ترتیب میں۔ یہ ترتیب پڑھنے والے یا سننے والے کے ذہن میں چراغاں کردیتی ہے۔ اسے شاعر کی دنیا میں پہنچا دیتی ہے، اسے کتاب خواں ہی نہیں صاحب کتاب بھی بناتی ہے۔ اس کے ذہن میں ایک نگارخانہ آباد کر دیتی ہے۔ یہ نگار خانہ صرف تراکیب کا، صرف تشبیہات کا، صرف استعارات کا، صرف محاوروں کامرہونِ منت نہیں ہوتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ’’استعارہ اس سلسلے میں زیادہ پر اثر ہے، کیوں کہ استعارے میں لفظ میں آتش گیر مادہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ کوئی لفظ بیکار نہیں ہوتا، کوئی لفظ بدصورت نہیں ہوتا۔ اس کی افادیت، اس کا حسن اس کے استعمال پر منحصر ہے۔
میرؔ سوز نہایت سادہ زبان استعمال کرتے تھے۔ شوق قدوائی نے ’’عالم ِ خیال‘‘ میں فارسی تراکیب سے احتراز کیا۔ آرزوؔ ’’سریلی بانسری‘‘ میں خالص اردو استعمال کرتے ہیں۔ گاندھی جی نے کہا تھا کہ ’’مناجاتِ بیوہ‘‘ کی زبان ہندستانی ہے۔ میرؔ بھی سادہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ وہ فارسی تراکیب بھی استعمال کرتے ہیں، مگر اس طرح کہ شعر کی روانی اور اس کے اردو پن میں فرق نہیں آتا۔ میرؔ کا یہ شعر دیکھیے۔
اک موجِ ہوا پیچاں، اے میرؔ نظر آئی
شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی
کھا گیا ناخنِ سر تیز جگر دل دونوں
رات کی سینہ خراشی میں ہنر ہم نے کیا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کے اس کا ر گہہ شیشہ گری کا
میں نسخہ حمیدیہ میں غالبؔ کی باغبانی صحرا کا معترف ہوں، اس لئے کہ اس نے انہیں منتخب دیوان کے گلشن سدا بہار تک پہنچایا۔ یہ اور بات ہے کہ نسخۂ حمیدیہ کے بہت سے جواہر ریزے انتخاب میں نہ آپائے۔ نسخۂ حمیدیہ غالبؔ کا آغاز سفر ہے، منزل منتخب دیوان ہی ہے اور اس میں میرؔ کا فیضان جلوہ گر ہے۔ انہوں نے میرؔ کے رنگ میں شعر نہیں کہے۔ کہہ بھی نہیں سکتے تھے۔ میرؔ کے راستے پر چل کر شعر کہے۔ میرؔ کا اثر قبول کرکے شعر کہے۔ میرؔ کے رنگ میں مصحفیؔ اور نصیرؔ نے بھی کہاہے اور بقول آزاد نظیر کے کچھ اشعار بھی میرؔ سے پہلو مارتے ہیں۔
ہمارے دور میں فانیؔ نے میرؔ کے رنگ میں شعر کہے ہیں کیوں کہ میرؔ اور فانیؔ کے مزاج میں خاصی قربت ہے۔ پھر آزادی کے بعد ناصرؔ کاظمی، خلیل الرحمن اعظمی اور ابنِ انشا نے اس رنگ میں داد ِ سخن دی ہے۔ یہاں بھی میرؔ کے مزاج کاسایہ دکھائی پڑتا ہے۔ اس کو ہمارے ایک نقاد نے ایک خطرناک رجحان کہہ کرنظروں سے گرانے کی کوشش کی تھی۔ سیاست کی عینک سے ادب کو دیکھنے کی اس کوشش کو بےادبی نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔ ایسے اشخاص کو ایلیٹ کے یہ الفاظ یاد رکھنے چاہئیں جو اس نے ڈبلو۔ بی۔ ییٹس پر پہلے سالانہ لکچر کے موقع پر ۱۹۴۰ء میں کہے تھے۔ ایک فن کار جب پوری دیانت سے اپنے فن کی چاکری کرتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی قوم بلکہ ساری دنیا کی بڑی سے بڑی خدمت بھی کرتا ہے۔
آئیے دیکھیں کہ میرؔ نے اپنے فن کی چاکری کرکے اپنے دل پرخون کی گلابی سے یا اپنے نشتر سر تیز سے اپنی قوم اور ساری دنیا کی کیا خدمت کی ہے۔
ناکام ہونے ہی کا تمہیں غم ہے آدمی
بہتوں کے کام ہوگئے ہیں کل یہاں میاں
زیرِ فلک بھلا تو رووے ہے آپ کو میرؔ
کس کس طرح کا عالم یاں خاک ہوگیا ہے
کوہکن کیا پہاڑ کاٹے گا
عشق کی زور آزمائی ہے
آگے کسی کے کیا کریں دستِ طمع دراز
وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
ہوگا کسی دیوار کے سائے کے تلے میرؔ
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو
ہم نہ کہتے تھے کہ مت دیر و حرم کی راہ چل
اب یہ جھگڑا حشر تک شیخ و برہمن میں رہا
کل پاوں ایک کاسۂ سر پر جو آ گیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُر غرور تھا
دیا عاشق نے جی تو عیب کیا ہے
یہی تو اک ہنر ہوتا ہے ہم میں
شاید کسی کے دل کو لگی اس گلی میں چوٹ
میری بغل میں شیشۂ دل چور ہوگیا
سرزد ہم سے بے ادبی تو راہ عشق میں کم ہی ہوئی
کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا
آج کا فرد آج کے آشوب میں بری طرح گرفتار ہے، یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ مگر آج کو سب کو کچھ سمجھنا، لمحے کو وقت جاننا، موج کو دریا سمجھنا غلطی ہے۔ آج کے انسان، اس کے مسائل، اس کے امکانات کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ اپنے تجربے، اپنے کاروبارِ شوق سے ہم کیسے بے نیاز ہو سکتے ہیں مگر ان کو ایک وسیع تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ اپنی پوری تاریخ اور انسانیت کی پوری تاریخ، اپنی دھرتی اور اپنے آسمان اور ساری دھرتی اور سارے آسمان، اپنے سوائے سرسبزی کے ساتھ ابر بے پروا خرام اور دوسروں کی کشت ویراں پر بھی نظر ضروری ہے۔ میرؔ اس لحاظ سے بڑے اچھے رہبر ہیں۔ انہیں خدائے سخن غلط نہیں کہا گیا ہے۔ ان کی خودی اور اس خودی کے ساتھ زندگی کرنے کا حوصلہ معمولی چیز نہیں ہے۔ یہ غالبؔ کی شوخیٔ فکر اور اقبالؔ کی مستیٔ فکر سے بھی بڑی ہے۔ یہ کل کی مدد سے آج سے عہدہ برآ ہونے کا حوصلہ دیتی ہے۔ یہ قنوطی، الم پرست حزیں لے نہیں، دردمند لے ہے۔ اس میں ایک بلند نظری اور کشادہ دلی ہے۔ یہ مرمر کے جیے جانے اور خونبانہ کشی مدام کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ یہ اپنے نرم، دل میں اترجانے والے اور رہ رہ کر یاد آنے والے لہجے میں ہم سے کہتی ہے۔
بارے دنیا میں رہو غمزدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
یہ فرد کو بتاتی ہے۔
ملیے، اس شخص سے جو آدم ہووے
ناز اس کو کمال پر ذرا کم ہووے
ہو گرمِ سخن تو گرد آوے یک خلق
خاموش رہے تو ایک عالم ہووے
عسکری نے میرؔ جی پر مضمون کے آخر میں بڑے پتے کی بات کہی ہے۔
’’میر نے زندگی کے متعلق جو کچھ سمجھا اور سوچا ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ بھر پور زندگی اس وقت مل سکتی ہے جب آدمی اپنی خودی کو کائنات، زندگی اور عام انسانوں کے سامنے نذر کر دے لیکن ساتھ ہی اپنی خودی سے مایوس اور بیزار بھی نہ ہو اور یہ رائے کوئی قنوطیت پسند اور یاس پرست آدمی نہیں دے سکتا۔‘‘
مگر میرؔ کو سمجھنے کے لئے شاعری کی زبان کو سمجھنا پڑےگا۔ میرؔ کے ان دو اشعار کا کیا مطلب ہے۔
سخت کافر تھا جس نے پہلے میرؔ
مذہب عشق اختیار کیا
میرؔکے دین و مذہب کو پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
ظاہر ہے کہ یہ شاعری کے رمز و ایما کی زبان ہے۔ اسی طرح
مسجد ایسی بھری بھری کب ہے
میکدہ اک جہان ہے گویا
’’مسایل تصوف‘‘ میں میکشؔ اکبرآبادی نے دیر، حرم، میکدہ، کفر، قشقہ، گہر، ترسا، مغ، مغ بچہ، پیر مغاں کے رموز کی بڑی خوبی سے تشریح کی ہے۔ اس لئے اردو غزل کے رمز و ایما میں جو اسرار و معارف اور جو سماجی اور سیاسی حقایق بیان کئے گئے ہیں، ان سے آشنا ہونے کے لئے ہندوستان میں تصوف کے اثر اور نفوذ اور سماجی زندگی میں اس کے انسان دوستی کے مسلک سے واقف ہونا ضروری ہے۔ میرے استاد خواجہ منظور حسین کی کتاب ’اردو غزل کا روپ بہروپ‘ جو حال میں پاکستان میں شائع ہوئی ہے، اس دور کے سماجی اور سیاسی زندگی کو غزل کے رمز و ایما کے آئینے میں دیکھنے کی بڑی قابل قدر کوشش ہے اور اس سے یہ بات بھی مسلم ہو جاتی ہے کہ گلشن، قفس، آشیاں، صیاد، گل چیں، میکدہ، دیر، کعبہ، طوفاں، ساحل، رقیب، ترک، کافر، پیر مغاں جیسی اصطلاحیں بڑ ی بلاغت، بڑی تہہ داری اور بڑی معنویت رکھتی ہیں۔
میرؔ کا یہ شعر ہر دور کے عاشق اور مجاہد کو خراجِ عقیدت کہا جا سکتا ہے۔
مرگِ مجنوں پہ عقل گم ہے میرؔ
کیا دوا نے نے موت پائی ہے
آخر میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ میرؔ اردو زبان اور اس کی تہذیب کے سب سے اچھے نمایندے ہیں۔ میرؔ کی زبان میں عام چلن کا جس، خانقاہ کے تجزیہ نفس اور تزکیہ کا رس اور دربار کے آدابِ محفل کی شائستگی ہے۔ میرؔ کی زبان اپنی پوری تاریخ اور پوری فکر کی امین ہے۔ یہ نہ ہندی سے شرماتی ہے، نہ فارسی سے کتراتی ہے۔ یہ مقامی رنگ، ہندوستانی مزاج، وسیع المشربی، انسان دوستی، رواداری اور محبت کی زبان ہے۔ یہ اہلِ دل کی زبان ہے۔ میرؔ سے زیادہ الفاظ سوداؔ اور نظیرؔ نے استعمال کیے ہیں مگر میرؔ کے یہاں ان کے استعمال میں ایک خاص سلیقہ ہے۔ یارانِ سرپل، مخملِ دوخابہ، انچھر، بستار، آسن، مولانا، دوانہ، بانکے، ترچھے، میوۂ رسیدہ، کے جہانِ معانی کو میرؔ کے اشعار میں ہی دیکھا جاسکتا ہے۔
اس لئے ہر شاعر کو اپنی غذا کے لئے اور زندگی اور عشق کے تازہ معرکے سر کرنے کے لئے میرؔ کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے اور میرؔ کی ملول و حزیں مگر جاندار لے پر کان دھرنا پڑتا ہے۔ کیا ہوا اگر میرؔ کا پست اندک پست ہے مگر میرؔ کابلند تو بسیار بلند ہے۔ پستی کے احساس کے باوجود نگاہ بلندی پر ہونی چاہیے۔ افسوس ہے کہ میرؔ کا کلیات مکمل صحت کے ساتھ اور تشریحات کے ساتھ، میرؔ کی عظمت کے اعتراف کے باوجود، ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔ اب تک سب سے اچھا اڈیشن وہی ہے جو آسی کے دیباچے کے ساتھ نول کشور سے شائع ہوا تھا اور یہ بھی اب نایاب ہے۔ آج کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ میرؔ کا کلیات تدوین کے موجودہ معیار کے مطابق شائع ہو۔ اس سے اردو زبان، اردو شاعری اور ہماری تہذیب تینوں کا بھلا ہوگا۔ میرؔ آج کے سب اردو دوستوں، سب شاعروں اور ادیبوں اور ہماری مشترک تہذیب کے سبھی چاہنے والوں کو یہ دعوت دے گئے ہیں۔
در ہمی حال کی ہے سارے مرے دیوان میں
سیر کر تو بھی یہ مجموعہ پریشانی کا