میر کی شخصیت: ان کے کلام میں
شاعری کے بارے میں ہمارے یہاں یہ خیال عام ہے کہ یہ شاعر کی شخصیت کا اظہار کرتی ہے۔ اسے طرح طرح سے بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً نورالحسن ہاشمی نے کہا کہ شاعری یا کم سے کم ’’سچی‘‘ شاعری ’’داخلی‘‘ شے ہے۔ لہٰذا جس شاعری میں شاعر کی ’’داخلی شخصیت‘‘ کا سراغ نہ لگتا تھا، اسے ’’خارجیت‘‘ پر مبنی شاعری، لہٰذا جھوٹی یا کم تر درجے کی شاعری کہا گیا۔ چنانچہ زیادہ تر مثنویاں، تقریباً تمام مدحیہ قصائد، زیادہ تر غزل، یعنی وہ غزل جس میں معاملات دل یا معاملات تصوف کا بیان نہ تھا، ان سب کو سچی شاعری یا اعلیٰ شاعری کے زمرے سے باہر قرار دیا گیا۔مثنویوں میں سے کچھ کو ضرور اس لیے معافی مل گئی کہ ان میں ’’سماجی حالات‘‘ یا ’’بیانیہ واقعیت‘‘ کا شائبہ مل جاتا تھا۔ طنز، ہجو وغیرہ میں بھی ’’داخلیت‘‘ کا فقدان تھا کہ ان میں شاعر ’’اپنے دل کی گہرائی‘‘ میں اترنے سے گریز کرتا تھا۔ عمومی طور پر ہمارے نقادوں کی رائے یہی رہی ہے کہ سب سے اچھی شاعری وہ غزل ہے جس میں ’’داخلیت‘‘ ہو۔ مرثیہ چونکہ شاعر کے عقائد اور جذبات کا بیان کرتا ہے، لہٰذا مرثیے اور خاص کر میر انیس کے مرثیے بھی اعلیٰ شاعری کے نمونوں میں شمار ہو سکتے ہیں۔ طنز اور ہجو کا درجہ سب سے اسفل قرار پایا۔شاعری میں شخصیت کے اظہار کے اصول کو یوں بھی بیان کیا گیا کہ شاعری کو ’’اصلیت‘‘ یا ’’حقیقت‘‘ یا ’’واقعی حالات‘‘پر مبنی ہونا چاہیے۔ اس اصول کی رو سے بھی غزل کی ہی شاعری کسی شمار و حساب میں آ سکی اور شرط یہ رکھی گئی کہ غزل کا شاعر وہی کچھ بیان کرے جس سے وہ خود دوچار ہو چکا ہو۔ یعنی شاعری کو ایک طرح کی خودنوشت سوانح حیات قرار دیا گیا۔ چنانچہ عندلیب شادانی نے اپنے مشہور اور بااثر سلسلۂ مضامین میں یہ دعویٰ کیا کہ اچھے شاعر اپنی غزل میں وہی کچھ بیان کرتے ہیں جو ان کے ذاتی تجربے میں داخل ہو۔ ان کے برخلاف، معاصرین میں جو مشہور غزل گو ہیں، مثلاً اصغرؔ، جگرؔ، حسرتؔ وغیرہ ان کی شاعری کم تر درجے کی ہے، کیوں کہ وہ عشق کے ’’سچے واردات‘‘ اور زندگی کے ’’سچے واقعات‘‘ پر مبنی نہیں ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ’’غزل کہنے کا اہل اسی کو سمجھنا چاہیے جو اپنے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے، آپ بیتی کہتا ہے۔‘‘ مثال کے طور پر عندلیب شادانی کو سخت اعتراض ہے کہ غزل کا شاعر اگر مر چکا ہے تو وہ شعر کس طرح کہہ رہا ہے، اور اگر مرا نہیں ہے تو اپنے مرنے کے واقعات کیوں بیان کر رہا ہے؟ حسرتؔ موہانی کے بارے میں شادانی لکھتے ہیں،’’(حسرتؔ کے) اشعار اور حسرتؔ کے سوانح حیات میں ہم آہنگی تو کجا، کوئی دور کا تعلق بھی نہیں معلوم ہوتا۔ مولانا حسرت زید عمرہُ ماشاء اللہ تندرست و توانا کانپور میں براج رہے ہیں۔ پھر کوئی کس طرح تسلیم کر لے کہ ان کے اشعار میں جو واقعات مذکور ہیں، مثلاً مولانا کا قتل یا عالم نزع اور وفات وغیرہ، ان میں کوئی اصلیت ہے؟‘‘ایرانی غزل کے بارے میں شادانی صاحب کا ارشاد تھا کہ وہاں جفاے محبوب وغیرہ کے مضامین اصلیت پر مبنی ہیں، اس لیے چنداں قابل اعتراض نہیں۔ اردو کے غزل گو، خاص کر شادانی کے معاصر غزل گو صرف نقالی کرتے ہیں۔ ان کی زندگیاں ان معاملات سے خالی ہیں۔نام نہاد ’’لکھنؤ اسکول‘‘ کی شاعری کو بھی اسی لیے نام نہاد ’’دہلی اسکول‘‘ کی شاعری کے مقابلے میں کم زور اور کم تر ٹھہرایا گیا کہ نقادوں کے بقول ’’لکھنؤ اسکول‘‘ کی شاعری میں کنگھی، چوٹی، مسی، سرمے، انگیا کرتی کی بات چیت ’’داخلی‘‘ باتیں نہ تھیں۔ اس طرح یہ اصول بھی وجود میں آیا کہ وہ شاعری جس میں جنسی جذبے یا جسمانی حسن کا اظہار کیا گیا ہو، وہ دوئم بلکہ سوئم درجے کی شاعری ہے۔ہمارے نقاد صاحبان یہاں پر یہ بات بھول گئے کہ شاعر اگر معشوق کے جسمانی حسن کا بیان یا اپنے جذبۂ جنس کا اظہار کرتا ہے تو وہ اپنی شخصیت کی سچی تصویر ہی تو کھینچ رہا ہے۔ خیرفی الحال اس بات کو الگ رکھتے ہیں۔ شخصیت کے اظہار کا اصول ہمارے یہاں یوں بھی بیان کیا گیا کہ اسلوب بذات خود کچھ نہیں ہے، مصنف کا سچا اظہار اس کے اسلوب ہی میں ہوتا ہے۔ یہ اصل بظاہر جتنا دلکش ہے، اتنا ہی مبہم ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ اسے ہم لوگوں نے براہ راست انگریزی سے مستعارلیا۔ وہاں یہ فقرہ اس طرح مقبول و مشہور ہے،Style is the manلیکن یہ انگریزی فقرہ خود ہی فرانسیسی سے مستعار ہے۔ اصل فرانسیسی ہے،Le style est Thomme memeاس فقرے کا مصنف کوئی نقاد نہیں بلکہ بوفوں Buffon نامی ایک سائنس داں تھا۔ فرانسیسی میں اس جملے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اسلوب یا Style کا الگ سے کوئی وجود نہیں، مصنف ہی سب کچھ ہے۔ انگریزی میں اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جیسی شخصیت ہوگی ویسا اسلوب ہوگا۔ ہم لوگوں نے یہی مطلب اخذ کیا لیکن اس کے مضمرات پر غور نہ کیا۔ مڈلٹن مری کا قول تھا کہ ’’اسلوب وہ شے ہے جسے کسی انسان کے بدن کا گوشت اور ہڈیاں کہیں، نہ کہ لباس، جسے وہ اوپر سے پہنتا ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ نکلا کہ مصنف کی اصل شخصیت کو پہچانے بغیر ہم اسے یا اس کے اسلوب کو نہیں پہچان سکتے لیکن مصنف کی ’’اصل شخصیت‘‘ کیا ہے، اس کا تعین کم و بیش غیرممکن تھا۔ لہٰذا ہم لوگوں نے اس قول کو اسلوب کے نامیاتی نظریے کے طور پر قبول کیا اور جگہ جگہ رسمی طور پر ہی اس کا ورد کرتے رہے۔عملاً ہم نے اس سے صرف یہ کام لیا کہ مصنف کے ’’اصل کردار‘‘ کی روشنی میں اس کے ادبی مرتبے کا فیصلہ کرنا چاہا۔ لہٰذا ہم نے گمان کیا کہ اگر میرؔ نے ’’ذکر میرؔ‘‘ میں بہت سارا جھوٹ بولا ہے تو اس بات کی بنیاد پر ہم ان کی شاعری کے بارے میں کوئی نتیجہ ضرور نکال سکیں گے۔ مثلاً ہم شاید یہ کہہ سکیں گے کہ جو شخص اتنا جھوٹا ہو وہ اچھا شاعر نہیں ہو سکتا، کیوں کہ اس نے اپنے واردات عشق کے بیان میں بھی جھوٹ سے کام لیا ہوگا۔ غالبؔ کے بارے میں اکثر یہ شبہ ظاہر ہی کیا گیا کہ ان میں انسانی اور اخلاقی کمزوریاں بہت تھیں، لہٰذا ان کی شاعری کے بارے میں بھی ہمارا طرح طرح کے شکوک میں مبتلا ہو جانا حق بجانب ہو سکتا ہے۔جدیدیت نے شاعری میں شخصیت کے اظہار کے بارے میں یہ بات کہی کہ شاعری ’’اظہار ذات‘‘ کا نام ہے۔ اس سے مراد یہ لی گئی کہ شاعر وہی بیان کرتا ہے جو کچھ وہ خود محسوس کرتا ہے۔ وہ کسی کے حکم یا مرضی کا پابند نہیں ہوتا۔ وہ انہیں باتوں کا ذکر کرتا ہے جنہیں وہ سچ سمجھتا ہے۔ شاعر اپنی سچائیاں لکھتا ہے، اپنی بصیرت کا اظہار کرتا ہے۔ حقائق کے بیان کے لیے شاعر کسی کا محتاج نہیں یا مقلد نہیں ہوتا، وہ ہر چیز کو اپنے حوالے سے دیکھنا اور سمجھنا چاہتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، شاعر پنچایتی حقائق کے بجائے ذاتی حقائق کا اظہار کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید شاعری اور نئی شاعری، خاص کر جدید نظم اور نئی نظم کے لیے یہ اصول بالکل صحیح ہے۔ جدید غزل اور نئی غزل کے لیے بھی اس کلیے کو مشعل راہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ میراجی، راشد اور اخترالایمان سے لے کر آج تک کی تمام جدید شاعری کی اساس یہی کلیہ ہے۔جدیدیوں کو افراط و تفریط، بے راہ روی اور دھاندلی بازی کے الزامات سے متہم کیا گیا ہے۔ لیکن ان کے بڑے کارناموں میں ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے ’’اظہار ذات‘‘ کے اصول کو قدیم یا کلاسیکی شاعری پر جاری نہیں کیا۔ ترقی پسند تنقید نے کلاسیکی شاعری کو اپنے نظریات کی روشنی میں پرکھا اور اسے غیراطمینان بخش پایا۔ ان کے برخلاف جدیدیوں نے شاعری کے اظہار ذات ہونے کے اصول کو صرف جدید شاعری کی بنیاد قرار دیا اور اس بات پر اصرار نہ کیا کہ ہماری پرانی شاعری بھی اسی اصول کی روشنی میں پرکھی جائے۔ اس کے علیٰ الرغم، انہوں نے یہ کہا کہ پرانی اور نئی شاعری میں کوئی بنیادی فرق نہیں، کیونکہ دونوں ہی شاعری ہیں۔ اس طرح انہوں نے اس امکان کی طرف اشارہ کیا کہ اظہار ذات ہونا تمام شاعری کے لیے ضروری نہیں۔(۲)مجموعی حیثیت سے جو اصول ہمارے یہاں مکتبی اور سکہ بند تنقید میں رائج ہوا، وہ یہ تھا کہ شاعری اور خاص کر غزل کی شاعری، کسی نہ کسی معنی میں شاعرکی زندگی کا آئینہ ہوتی ہے۔ اس کے دو معنی نکلے۔ ایک تو یہ کہ شاعر کی زندگی اور شخصیت کے بارے میں کچھ نہ کچھ حقائق ہم اس کی شاعری سے اخذ کر سکتے ہیں اور دوسرے معنی یہ نکلے کے شاعر کی زندگی اور شخصیت کی بنیاد پر ہم اس کی شاعری کے بارے میں کچھ نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔ مختلف نقادو ں کے یہاں ان اصولوں کی کارفرمائی مختلف حدوں کے اندر ملتی ہے اور مختلف شاعروں کی بھی تنقید میں ان اصولوں سے کام مختلف حدود کے اندر ہی لیا گیا۔ مثلاً محمد حسین آزاد نے آتشؔ کو بےریا، غیور، کم خوراک، درویش صفت مرد آزاد کے روپ میں پیش کیا تھا اور آتشؔ کے برخلاف انہوں نے ناسخؔ کو خوش خوراک، دنیاوی اور ’’غیرشاعرانہ‘‘ معمولات مثلاً کسرت اور کشتی کا شائق، تھوڑا بہت متکبر اور متمول انسان دکھایا تھا۔ہماری تنقید نے جھٹ یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر آتش و ناسخ دو مختلف طرح کے لوگ تھے تو وہ مختلف طرح کے شاعر بھی ہوں گے۔ لہٰذا آتش کی درویشی اور آزادہ روی کے پیش نظر انہیں ’’دہلوی طرز‘‘ کے ’’داخلی‘‘ انداز کا شاعر قرار دیا گیا اور ناسخؔ کو ان کی دنیاوی دلچسپیوں کے پیش نظر ’’لکھنوی‘‘طرز کا ’’خارجیت پسند‘‘ شاعر کہا گیا۔مختلف شعرا کے یہاں شاعری = سوانح حیات، اور سوانح حیات = شاعری، کے اصول کو مختلف حدوں کے اندر کارفرما دیکھنے کی مثال نظیر اکبرآبادی اور امیر مینائی ہیں۔ ہم نے نظیر اکبرآبادی کی نظموں میں وسیع المشربی، قلندرانہ آزادہ روی اور صلح کل کے انداز دیکھ کر یہ نتیجہ نکالنے میں دیر نہ کی کہ ان کی شخصیت بھی ایسی ہی تھی۔ ان کی نظموں کی بنا پر ہم نے انہیں عوامی شاعر کہہ دیا۔ ان کی غزلوں سے یہ نتیجہ نکالنا غیرممکن تھا، لہٰذا نظیر کی غزلوں کو ہم نے یکسر نظرانداز کر دیا۔جہاں تک امیر مینائی کا سوال ہے تو ہم نے اس بات پر کوئی توجہ نہ دی کہ صوفی باصفا اور متشرع مرد نیک نہاد ہوتے ہوئے بھی امیر مینائی نے اپنی تمام شاعری میں خاصی عریانیت یا جنسی لطف اندوزی کے مضامین کیوں روا رکھے ہیں؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں نکلتا کہ وہ لذت کوشی اور رندی و شاہد بازی کے آدمی تھے۔ اور اگر ایسا ہے تو پھر ان کے تصوف کا کیا ہوگا؟ ہم نے اس سوال سے بھی صرف نظر کیا۔ علیٰ ہذٰالقیاس، ہم نے دردؔ کی شاعری اور زندگی میں تطابق دیکھنے میں کوئی کمی نہ کی لیکن رشید احمد صدیقی کے اس کلیے کا جواب دینے سے گریز کرتے رہے کہ غیر شریف آدمی یا اخلاقی طور پر خراب کردار کا حامل شخص اچھا شاعر نہیں ہو سکتا۔میرؔ کے ساتھ جہاں بہت سی ناانصافیاں ہوئی ہیں، وہاں یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری کے بارے میں ان کی زندگی سے اور ان کی زندگی کے بارے میں ان کی شاعری سے دلیل لانے کی کوشش دیگر بڑے شاعروں کے مقابلے میں زیادہ ہی ہوئی۔ مثلاً عندلیب شادانی نے یقین کر لیا کہ میرؔ کے یہاں امرد پرستی پر مبنی اشعار اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ میرؔ امرد پرست تھے۔ یا پھر یاس و حرماں اور غم و اندوہ پر مبنی میرؔ کے بعض مشہور اشعار کی روشنی میں یہ نتیجہ نکل آیا کہ میرؔ کو رونے بسورنے کے سوا کسی چیز سے سروکار نہ تھا۔ حتی کہ میرؔ کے یہاں ظریفانہ اشعار کو بھی یہ کہہ کر ٹال دیا گیا کہ وہ یا تو مبتذِل اور پست ہیں، یعنی درجۂ شاعری سے گرے ہوئے ہیں یا پھر ان کے ظریفانہ رنگ پر بھی حزن و حرماں کی پرچھائیں تلاش کرلی گئی۔ بابائے اردو فرماتے ہیں،میرؔ صاحب کے اشعار میں اندوہ و الم، ناکامی و مایوسی کی جھلک پائی جاتی ہے، یہ ان کی طبیعت کی افتاد ہے۔ ان کے دل سے جب کوئی بات نکلی، وہ یاس و ناکامی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ظرافت کی چاشنی میرؔ صاحب کے کلام میں مطلق نہیں۔۔۔ چند ظریفانہ اشعار بھی پائے جاتے ہیں لیکن یا تو وہ ایسے مبتذل قسم کے ہیں کہ ان سے بدمذاقی پائی جاتی ہے، یا وہی حسرتؔ و یاس جو ان کے دم کے ساتھ تھی۔مجنوں گورکھپوری نے اگرچہ میرؔ کی شاعری میں کسی نہ کسی طرح کا انقلابی، اخلاقی پیغام ڈھونڈ نکالا لیکن دس بیس مشہور شعروں کی روشنی سے چکاچوندھ ہوکر وہ یہ کہنے پر بھی مجبور ہوئے کہ،’’میرؔ غم کے شاعر ہیں۔ میرؔ کا زمانہ غم کا زمانہ تھا۔ اگر وہ غم کے شاعر نہ ہوتے تو اپنے زمانے کے ساتھ دغا کرتے اور ہمارے لیے بھی اتنے بڑے شاعر نہ ہوتے۔‘‘ لیکن اب ان مزاحیہ اشعار کا کیا ہو جن کی پھلجھڑیوں سے میرؔ کا کلام روشن ہے؟ ہجو کو تو یہ کہہ کر ٹال سکتے ہیں کہ صاحب کیا کریں، یہ اس زمانے کے مزاج میں تھی۔ لیکن سچے اور پکے ظریفانہ شعروں کو کہاں لے جائیں؟ لہٰذا مجنوں صاحب نے بابائے اردو کا سکھایا ہوا سبق ذرا بدل کر دہرا دیا۔ جس مضمون کا میں نے اقتباس دیا ہے، اسی میں مجنوں صاحب نے لکھا،’’یاد رہے کہ میرؔ کی ظرافت اوچھے اور سستے قسم کی ظرافت نہیں ہوتی تھی۔ ان کی ظرافت میں سنجیدگی اور بلاغت کی بڑی گہری تہیں ہوتی تھیں۔‘‘ اس کے جواب میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ تہیں کہیں تو اتنی گہری ہوتی تھیں کہ نظر سے اوجھل ہی رہتی تھی، ورنہ میرؔ اس طرح کے شعر نہ کہتے،معقول اگر سمجھتے تو میرؔ بھی نہ کرتےلڑکوں سے عشق بازی ہنگام کہنہ سالی(دیوان ششم)شہرہ رکھے ہے تیری خریت جہاں میں شیخمسجد ہو یا کہ دشت اچھل کود ہر جگہ(دیوان سوم)لذت دنیا سے کیا بہرہ ہمیںپاس ہے رنڈی ولے ہے ضعف باہ(دیوان دوم)کیا جو عرض کہ دل سا شکار لایا ہوںکہا کہ ایسے تو میں مفت مار لایا ہوں(دیوانِ اول)داڑھی سفید شیخ کی تو مت نظر میں کربگلا شکار ہووے تو لگتے ہیں ہاتھ پرآخر عدم سے کچھ بھی نہ اکھڑا مرا میاںمجھ کو تھا دست غیب پکڑ لی تری کمر(دیوانِ اول)کیسہ پرزر ہو تو جفا جو یاںتم سے کتنے ہماری جیب میں ہیں(فردیات)چاہوں تو بھر کے کولی اٹھالوں ابھیکیسے ہی بھاری ہو مرے آگے تو پھول ہودل لے کے لونڈے دلی کے کب کا پچا گئےاب ان سے کھائی پی ہوئی شے کیا وصول ہو(دیوانِ اول)شوخی تو دیکھو آپھی کہا آؤ بیٹھو میرؔپوچھا کہاں تو بولے کہ میری زبان پر(دیوانِ چہارم)اس طرح کے سینکڑوں شعر ہیں، کہاں تک نقل کیے جائیں۔ لیکن دو باتیں جو غور کرنے کی ہیں، وہ یہ ہیں کہ مجنوں صاحب اور مولوی عبدالحق دونوں کو میرؔ کی ظرافت سے معاملہ کرنے میں بڑی مشکل پیش آ رہی ہے۔ دوسری بات یہ کہ مجنوں صاحب کی نظر میں میرؔ کی غم انگیزی کا باعث ان کا زمانہ ہے۔ یہ زمانہ ہی تھا جس نے میرؔ کی زندگی (اور اس لیے شاعری) کو بقول مجنوں گورکھپوری ’’ایک مستقل سولی بنا رکھا تھا۔‘‘ مجنوں صاحب کے برخلاف، مولوی صاحب کا خیال ہے کہ میرؔ کا مزاج ہی غم پذیر تھا۔مولوی صاحب کے مطابق میرؔ کی زندگی ان کی شاعری کو منعکس کرتی ہے اور مجنوں صاحب کے مطابق میرؔ کی شاعری ان کی زندگی کو منعکس کرتی ہے۔ یعنی مولوی صاحب کا ارشاد ہے کہ میرؔ کی شاعری اس لیے غمگین ہے کہ ان کا مزاج غم پذیر تھا، لہٰذا ان کی زندگی غمگین تھی، لہٰذا ان کی شاعری غم سے بھری ہوئی ہے۔ اور مجنوں صاحب کی رائے میں میرؔ کا زمانہ غم سے بھرا ہوا تھا، لہٰذا ان کی زندگی غمگین تھی، اس لیے ان کی شاعری بھی غم سے بھری ہوئی ہے۔ ایسی صورت میں مجنوں صاحب یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ میرؔ کی ظرافت اصلی نہیں بلکہ ان کی سنجیدگی کی نقاب ہے۔ مولوی صاحب نے میرؔ کا کلام شاید زیادہ غور سے پڑھا تھا، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ میرؔ کی ظرافت یا تو رکیک اور مبتذل ہے یا وہ ظرافت ہے ہی نہیں۔ملحوظ رہے کہ دونوں صاحبان نے بس ایک شعر کے علاوہ میرؔ کے کلام سے کوئی ثبوت لانے کی کوشش نہیں کی ہے اور وہ دونوں میں مشترک ہے،تھا میرؔ تو دیوانہ پر ساتھ ظرافت کےہم سلسلہ داروں کی زنجیر ہلا جاتا(دیوان چہارم)میرؔ کے کلام سے کسی اور ثبوت کی زحمت نہ اٹھانے کی روشنی میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ مجنوں صاحب اور بابائے اردو دونوں ہی نے کلام میرؔ سے زیادہ اس مفروضے کو معتبر جانا ہے کہ شاعری اور کچھ ہو یا نہ ہو، شخصیت کا اظہار ہوتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ’’شخصیت‘‘ کے معنی دونوں کے یہاں مختلف ہیں۔ مولوی صاحب کی نظر میں شخصیت نام ہے افتاد و مزاج کا، اور مجنوں صاحب کی نظر میں شخصیت نام ہے سماجی، سیاسی اور سوانحی حالات کے مجموعے کا۔ عندلیب شادانی کو ’’شخصیت‘‘ کی نفسیاتی یا تاریخی توجہیات سے غرض نہیں۔ وہ شعر میں سیدھے سیدھے ’’آپ بیتی‘‘ کا تقاضا کرتے ہیں۔یہ تین صاحبان ہماری کلاسیکی غزل اور خاص کر میرؔ کی غزل کے بہت بااثر نقاد رہے ہیں۔ اور یہ ایک طرح سے ہمارے یہاں آزاد اور حالی کے بعد میر کی تمام تنقید کا لب لباب کہے جا سکتے ہیں۔ ان کے یہاں اور حالی و آزاد کے یہاں جو منطقی مغالطے اور مجموعی طور پر کلام میرؔ سے جو چشم پوشیاں ہیں، ان پر بحث کا یہ موقعہ نہیں۔ یہ بھی ہے کہ اب وہ بڑی حد تک عیاں بھی ہو چکی ہیں۔ جس نے بھی میرؔ کا کلیات ایک بار پڑھ لیا ہوگا اسے میرؔ کے بارے میں محولہ بالا نقادوں کی رایوں کے کھوکھلےپن کا اندازہ ہو ہی گیا ہوگا۔ اس وقت کہنے والی اہم بات یہ ہے کہ شاعری یاغزل کی شاعری کے بارے میں یہ تصور کہ وہ ’’داخلی‘‘ شے ہے، اور شاعر کی ’’شخصیت‘‘ کا اظہار ہوتی ہے، مشرقی اصول نقد سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا۔ یہ اصول مغرب سے مستعار ہے، اور مغرب میں بھی اس کی تاریخ بہت پرانی نہیں ہے۔(۳)مغربی ادب میں دواصول مدت دراز تک رائج تھے۔ ایک تو یہ تھا کہ تمام تخلیقی کارگزاری کسی نہ کسی طور پر اپنے پیش روؤں کی مرہون منت ہوتی ہے۔ دوسرا اصول یہ تھا کہ ہر صنف کے اپنے قاعدے اور رسومیات ہوتے ہیں اور کوئی بھی تخلیقی کارگزاری اپنی صنف کے قواعد اور رسومیات کے حوالے کے بغیر بامعنی نہیں ہو سکتی۔ مغربی ادب میں ان اصولوں پر کم وبیش ارسطو کے زمانے سے اٹھارویں صدی یعنی ’’روشن فکری‘‘ یا enlightenment کے زمانے تک عمل ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ جب کوئی نئی صنف قائم ہونے لگتی تو اسے بھی پرانے اصناف اور پرانے قواعد کی روشنی میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جاتی۔ چنانچہ جب سولہویں صدی کے شروع میں فرانس میں ایسی تحریریں لکھی جانے لگیں جنہیں بعد میں ناول کی تاریخ کا حصہ قرار دیا گیا تو انہیں ہومر کے رزمیوں کے ذیل میں رکھ کر سمجھانے کی کوشش ہوئی۔وسط سولہویں صدی کے فرانس میں ایک خاتون Madeleine de Scudery نے کثرت سے طویل بیانیے لکھے جنہیں ناول کی تاریخ میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ یہ ناول لکھتی تو وہ خود تھی لیکن چھپتے وہ اس کے بھائی ژارژ (Georges) کے نام سے تھے۔ میدلیں دَاسکدیری نے ۱۶۴۱ میں ’’ابراہیم‘‘ نامی ایک ناول چارجلدوں میں لکھا۔ اس کے بھائی نے اپنے دیباچے میں وضاحت سے کہا کہ ’’وہ تحریریں جو دل سے نکلیں‘‘ The works of the spirit ان کو محض اتفاق اور غیرمتوقعات پر نہیں چھوڑ سکتے۔ ایسی ہر تحریر قوانین کی پابند ہوتی ہے اور زیر نظر تخلیق میں یونانیوں، خاص کر ہومر کی الیڈ Iliad کا تتبع کیا گیا ہے۔اس کے ایک صدی بعد انگلستان میں جب فیلڈنگ (Fielding) نے ناول بطور صنف کے بارے میں کلام کیا تو اس نے ناول کو ’’نثر میں مزاحیہ رزمیہ‘‘ (a comic epic in prose) کا نام دیا۔ یہ روایت ہمارے زمانے تک برقرار رہی۔ مشہور جدید فرانسیسی نقاد اور ناول نگار میشیل بتو (Michel butor) نے ۱۹۶۹ء میں ناول کی نظری تنقید پر مضامین لکھے تو اس نے بھی ناول کی معنویت قائم کرنے کے لیے رزمیہ کا حوالہ مستحکم کرنا چاہا۔سولہویں صدی کا مشہور اطالوی نقاد اسکیلجر (Julius Caesar Scaliger) جس کا زمانہ ۱۴۸۴ سے ۱۵۵۸ تک ہے، اپنی غیر معمولی علمیت کے ساتھ ساتھ اس بات کے لیے بھی مشہور ہے کہ اس نے اپنی کتابوں میں جدید مصنف کا نام نہیں لیا ہے اور صرف کلاسیکی ادیبوں سے سروکار رکھا ہے۔ اس تنگ خیالی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یورپ میں تخلیقی ادب پر افلاطون ہی کے زمانے سے جو نکتہ چینیاں ہو رہی تھیں، ان میں اہم ترین بات یہ بھی تھی کہ ادب اور خاص کر شاعری سے جو لطف حاصل ہوتا ہے، وہ اخلاق کی خرابی کا باعث ہوتا ہے۔سولہویں صدی تک یورپ کی تنقید میں یہ بات قائم ہو چکی تھی کہ ادب کا دفاع جمالیاتی نہیں بلکہ فلسفیانہ اور اخلاقی بنیادوں پر ہونا چاہیے۔ بقول جارج سینٹس بری (George Saints bury) نقادوں نے اپنا وظیفۂ حیات یہ مقرر کیا کہ ادب او رخاص کر شاعری کو جمہوریت میں ایک دلکش چکمہ pleasant deceit یا اخلاق کو خراب کرنے والی قوت نہیں، بلکہ ’’مذہبی اور فلسفیانہ حقائق کا قلعہ اور حصار‘‘ ثابت کیا جائے۔مغربی تنقیدی فکر پر افلاطون کی دھونس اس قدر زبردست تھی کہ قبل جدید زمانے تک مغربی نقادوں کی ساری نظری کاوشیں اس کوشش پر مبنی تھیں کہ تخلیقی ادب کو افلاطونی فلسفے کے لیے قابل قبول ثابت کیا جائے۔ صرف ایک یورپی نقاد، جس کو ہم لونجائنس Longinus یا ڈائیونی سیئس Dionysius کے نام سے جانتے ہیں ایسا ہے جس نے شعر کا مقصود ’’وجد آفرینی‘‘ بتایا، اور اپنے تصورات کی بنیاد شاعر کے اسلوب پر رکھی لیکن لونجائنس کا اثر بہت بعد میں محسوس کیا گیا۔ اس کا صحیح نام اور زمانہ بھی معرض بحث میں ہیں اور سب لوگ تو بقول سینٹس بری، اس کوشش میں لگے رہے کہ افلاطون کو کیسے راضی کیا جائے۔ سینٹس بری کا کہنا ہے کہ نوافلاطونیوں، خاص کر فلاطینوس Plotinus (وفات۲۷۰) کے افکار اس سلسلے میں بہت استعمال کیے گئے۔ فلاطینوس کے خیال میں ’’جسم رکھنے والی اشیا‘‘ یعنی Bodily substances کا حسن اس بات پر منحصر ہے کہ وہ الوہی حسن سے کس قدر اور کیا نسبت رکھتی ہیں۔اب رہا یہ معاملہ کہ سچے حسن کا ادراک کیوں کر ہو سکتا ہے، تو ظاہر ہے کہ روح ہی یہ کام کر سکتی ہے۔ لہٰذا حسن کچھ نہیں ہے محض ایک روحانی، الوہی قوت ہے، اور یہ ’’خوبی‘‘ (the Good) کا تفاعل ہے۔ ایسی صورت میں شعریا کوئی بھی تخلیقی فن پارہ، کسی ایک فرد واحد کی شخصیت یا اس کے داخلی تجربات و محسوسات کا اظہار ہو ہی نہیں سکتا۔ وہی شعر یا فن پارہ سچا ہے جو عینی حقائق پر پورا اترے۔ افلاطون کے علیٰ الرغم، فلاطینوس نے اس بات کو شعر کا عیب نہیں ٹھہرایا کہ وہ نقل کرتا ہے۔ فلاطینوس نے کہا کہ اشیا کی نقل کے ذریعہ فن ہمیں ان اصل الاصول کی طرف لے جاتا ہے جوعین حقیقت ہیں۔ بقول فلاطینوس، شعرا ’’حسن کو الفاظ میں ڈھالتے ہیں۔‘‘ ظاہر ہے کہ عینی حقائق او رعینی حسن کو صحیح طور پر بیان کرنے کے لیے انہیں طور طریقوں کو برتنا ہوگا جو قدیم الایام کے استادوں نے رائج کر دیے ہیں۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ جب صرف عین کا ہی بیان کرنا ہے تو شاعر کی اپنی شخصیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔سولہویں صدی میں جب زمانہ بدلنے لگا تو بن جانسن (Ben Jonson) (۱۵۷۳ تا ۱۶۳۷) جیسے لوگ سامنے آئے۔ بن جانسن نے دعویٰ کیا کہ ’’حقیقت کا دروازہ سب کے لیے کھلا ہوا ہے۔ حقیقت کسی کی نوکر نہیں۔‘‘ الگزنڈر پوپ (۶۸۸ تا ۷۴۴) نے تو اٹھارویں صدی میں کہا کہ ’’شیکسپیئر کو ارسطو کے قوانین سے پرکھنا ایسا ہے جیسا کسی شخص کو کسی غیرملک کے قوانین کا تابع ٹھہرانا۔‘‘ اس آزاد خیالی کے باوجود اس تصور کی جھلک انیسویں صدی تک مل جاتی ہے کہ استادوں نے جو طریقے مقرر کردیے ہیں، وہ اٹل ہیں۔ انگریزی کے ایک مشہور اور بااثر ادبی رسالے Edinburgh Review نے ۱۸۰۲ء کے ایک اداریے میں لکھا کہ ’’شعر کے معیارات بعض الہام یافتہ مصنفوں نے عرصۂ دراز ہوا قائم کر دیے ہیں۔ اب ان سے انحراف خلاف قانون ہے۔‘‘ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں یورپ کے مختلف ملکوں نے رومانیت اور علامت پسندی کو ادبی تحریکوں کے طور پر فروغ پاتے ہوئے دیکھا اور ان تحریکوں کے زیرِ اثر یہ خیال یورپ میں آہستہ آہستہ عام ہوا کہ شعر کو کسی خارجی قانون کا تابع نہیں بلکہ شاعر کے الہام اور تخلیقی اپج کا تابع ٹھہرانا چاہیے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ شعر کو اس کے خالق کی شخصیت کا اظہار قرار دیا گیا۔ انیسویں صدی میں جب مغربی خیالات ہمارے یہاں ہر میدان حیات میں درآمد ہوئے تو یہ تصور بھی ہماری تنقید میں درآیا۔ اس کی پکڑ اتنی زبردست تھی کہ اگرچہ یہ ترقی پسند شعریات کے بالکل خلاف جاتا ہے لیکن ترقی پسند زمانے میں بھی یہ قائم رہا۔ٹی۔ ایس۔ الیٹ ’’شخصیت‘‘ یا ’’ذات‘‘ کو ادبی اظہار کے میدان سے باہر قرار دیتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ شاعر کسی جذبے کا نہیں بلکہ محض ایک وسیلے (Medium) یعنی صنف سخن کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن اس نے یہ بھی کہا کہ Lyric شاعری وہ ہے جس میں شاعر خود سے بات کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ لیا گیا کہ Lyric شاعری میں شاعر اظہار ذات کرتا ہے۔ ہم نے اردو میں غزل کو Lyric شاعری کے مماثل قرار دیا، لہٰذا ہمارے یہاں یہ خیال عام ہو گیا کہ صرف وہی غزل سچی غزل ہے جس میں شاعر اپنی شخصیت یا اپنے ذاتی محسوسات کا اظہار کرے۔ وکٹوریائی رومانیت کے زیر اثر ہم لوگوں نے ایسی غزل کو، جسے Lyric کہہ سکتے ہیں، بہت اہمیت دی۔ والٹر پیٹر (Walter Pater) کا کہنا تھا کہ شاعری کا اعلیٰ ترین اور مکمل ترین صنف Lyric ہی ہے۔ اس قول کی بازگشت رشید احمد صدیقی کے اس مشہور اور بااثر فیصلے میں ملتی ہے کہ غزل ہماری تہذیب اور ہماری شاعری کی آبرو ہے۔بیسویں صدی کی مغربی نظری تنقید میں بھی ادب= اظہار شخصیت یا ذات کا تصور اس قدر مقبول ہوا کہ ڈر اماتک کی تنقید اس کی زد میں آ گئی۔ اگرچہ یہ بات سب مانتے ہیں کہ ڈراما سے زیادہ لاشخصی صنف سخن کوئی نہیں لیکن اس بات کی کوشش کی گئی کہ ڈرامے، خاص کر شیکسپیئر کے ڈرامے کا مطالعہ کچھ اس نہج سے ہو کہ ہمیں اس کی شخصیت کے بارے میں کچھ علم ہو سکے۔ اس سلسلے میں یادگار کوشش کیرولائن اسپرجن Caroline Sprgeon کی ٹھہری۔ ان خاتون نے ۱۹۳۹ء میں ایک کتاب شائع کی جس کا نام تھا Shakespeare’s Imagery and What it Tells Us۔ اس کتاب میں انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ شیکسپیئر نے اپنے ہر ڈرامے میں بعض پیکروں کو خوشے cluster کی شکل میں بار بار استعمال کیا ہے۔ ان پیکروں کا مطالعہ کرکے انہوں نے شیکسپیئر کے عادات و اخلاق، طور سبھاؤ، پسند ناپسند وغیرہ کے بارے میں بعض حکم لگائے۔ظاہر ہے کہ شیکسپیئر کے عادات و اخلاق وغیرہ کے بارے میں کیرولائن اسپرجن کے خیالات نامقبول رہے۔ اس نامقبولیت کی وجہوں میں ایک یہ بھی وجہ تھی کہ مغرب میں یہ احساس تھا کہ شخصیت یا ذات کے اظہار کا اصول ان ادیبوں اور ان اصناف پر نہیں جاری ہو سکتا جو اس اصول کے رائج ہونے کے پہلے وجود میں آئے تھے، مثلاً شیکسپیئر، یا جن کی نوعیت ہی غیرشخصی ہے، جیسے ڈراما۔ لیکن ہمارے یہاں یہ اصول عام طور پر جاری کیا گیا کہ شعر نام ہے شخصیت یا ذاتی تجربات کے اظہار کا، اور وہ شعر جس میں یہ صفت نظر نہ آئے، دوئم درجے کا شعر ہے۔ اسی باعث میر، حتی کہ غالبؔ کے بھی کلام کو شخصی اظہار کا جامہ پہنایا گیا اور اس اصول سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا گیا کہ جب شاعری شخصیت کا اظہار ہے اور ہر شخصیت اپنی جگہ بے عدیل ہوتی ہے تو شاعر وہ اچھا ہے جس میں کوئی انفرادیت ہو۔(۴)مندرجہ بالا بحث سے یہ بات ظاہر ہو گئی ہوگی کہ شعر کو شاعر کی شخصیت کا اظہار قرار دینے کا اصول آفاقی نہیں ہے اور یہ ہماری کلاسیکی شاعری کے لیے تو وضع ہی نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن یہ سوال پھر بھی رہ جاتا ہے کہ آخر شاعر اپنے کلام میں کچھ تو کہتا ہے، کیا اس کے قول، یعنی بیان یا utterance میں اس کی شخصیت کا کچھ بھی انعکاس نہیں ہوتا؟ اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ ’’شخصیت‘‘ سے ہم کیا مراد لیتے ہیں؟ کیرولائن اسپرجن نے تو یہاں تک کوشش کی تھی کہ شیکسپیئر کی پسند و ناپسند، وضع قطع وغیرہ تک معلوم کر لی جائے لیکن اگر شخصیت مجموعہ ہے انسان کے شعور، لاشعور، توریث، تعلیم اور ماحول کا، تو شاعر کے کلام کے ذریعہ اس کا پتہ لگنا غیرممکن ہے۔پھر ایک سوال یہ بھی ہے اگر شخصیت کا پتہ لگ بھی جائے تو اس سے کون سا ادبی مسئلہ طے ہو سکےگا؟ اگر ہم فیصلہ کر بھی لیں کہ (مثلاً) میرؔ کو ٹھنڈا پانی بہت پسند تھا یا وہ وقت کے پابند نہ تھے، تو اس سے ہمیں ان کا کلام سمجھنے میں کیا مدد ملےگی؟ فرض کیجیے ہم یہ کہیں کہ اگر یہ ثابت ہو سکے کہ میرؔ کی شخصیت ان کی شاعری میں نمایاں ہے، تو یہ بھی ثابت ہو جائےگا کہ میرؔ کی شاعری سچی ہے اور سچے تجربات وجذبات پر مبنی ہے۔ لیکن اگر یہ ثابت بھی ہو جائے تو اس سے میرؔ کے کلام کی خوبی نہیں ثابت ہو سکتی۔شاعری کی خوبی اگر اس بات میں ہے کہ اس میں وہی باتیں لکھی ہیں جو شاعر نے خود بھوگی یا محسوس کی ہیں تو پھر شعر کے بارے میں معنی، استعارہ، علامت، یہ سب اور اس طرح کے دیگر تصورات بے معنی ہو جاتے ہیں۔ پھر تو ہر وہ شعر جس میں کوئی تاریخی بات کہی گئی ہے، بڑا شعر نہیں تو اچھا شعر ضرور ٹھہرےگا، اس بناپر کہ اس میں جو بات کہی گئی ہے وہ بالکل سچی ہے، چاہے اس میں کچھ معنویت نہ ہو۔ شعر کی خوبی اس بات میں نہیں کہ وہ سچ پر مبنی ہو۔ شعر کی خوبی اس بات میں ہے کہ وہ معنویت کا حامل ہو۔ایک بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ اگر کسی شاعر نے کسی مضمون یا استعارے کو بار بار استعمال کیا ہے تو اس مضمون یا استعارے کا تجزیہ کرکے ہم اس شاعر کی شخصیت یا داخلی وجود وغیرہ کے میلان کے بارے میں نتائج نکالنے میں حق بجانب ہوں گے۔ یہ نکتہ بظاہر تو بہت دلکش ہے لیکن اس میں کئی مغالطے ہیں۔ مثلاً غالبؔ کے یہاں رشک کے مضامین اور میرؔ کے یہاں خودداری کے مضامین بہت ہیں۔ لہٰذا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ غالب کے مزاج میں رشک کا مادہ بہت تھا اور میرؔ بڑے خوددار تھے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ رشک یا خودداری کے مضامین کی کثرت صرف یہ ثابت کرتی ہے کہ شاعر کو ان مضامین سے شغف تھا۔ اس سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ یہ خواص خودشاعر میں موجود بھی تھے۔ ممکن ہے کہ اس کے برعکس بھی ہو، انسان کے لیے اکثر ایسے خواص دلکشی کے حامل ہوتے ہیں جن سے وہ خود محروم ہوتا ہے۔دوسری بات یہ کہ اگر غالبؔ کے یہاں رشک، اور میرؔ کے یہاں خودداری کے مضامین بہت ہیں، تو ایسے بھی مضامین کم نہیں جو رشک اور خودداری کی ضد ہیں۔ مثلاً غالبؔ کے یہاں معشوق کی خوشامد اور اس کے حضور فروتنی کے بھی شعر ہیں اور یہ باتیں رشک کے خلاف جاتی ہیں۔ مثلاً دیوانِ غالبؔ بے تکلف کھولنے پر یہ شعر نظر پڑے،غالبؔ ترا احوال سنا دیں گے ہم ان کووہ سن کے بلالیں یہ اجارہ نہیں کرتےکیا تعجب ہے جو اس کو دیکھ کر آجائے رحمواں تلک کوئی کسی حیلے سے پہنچادے مجھےگدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئےاٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیےدر پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیاجتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلاظالم مرے گماں سے مجھے منفعل نہ چاہہے ہے خدا نہ کردہ تجھے بے وفا کہوںجہاں تک سوال میرؔ کا ہے، تو ان کا کلام ایسا مخزن ہے جہاں سے ہر شخص اپنے حسب دلخواہ شعر نکال سکتا ہے۔ خودداری، غرور، رشک، عاجزی، معشوق سے لڑائی جھگڑا، ہاتھا پائی، بیزاری، بے حد لگاوٹ، کھلا کھلا جنسی اظہار، جو چاہیے حاضر ہے۔ ایسے شاعر کے بارے میں ہم صرف یہی کہہ سکیں گے کہ وہ ہر شخص کے ڈھب کا آدمی ہے۔ یہ بات میرؔ کے کلام کی مجموعی حیثیت تو بیان کرتی ہے لیکن میرؔ کی شخصیت کے بارے میں ہمیں کچھ نہیں بتاتی۔مضامین کی کثرت یا قلت پر بھروسا کرکے شخصیت کے بارے میں حکم لگانے میں تیسرا مغالطہ یہ ہے کہ ایسا حکم شعرگوئی کے حالات کو نظرانداز کرتا ہے۔ کسی زمانے میں کوئی مضمون زیادہ مقبول یا غیرمقبول ہوتا ہے اور شعرا کے کلام میں اس مقبولیت یا غیرمقبولیت کا انعکاس لازمی ہے۔ یہ صرف ہمارے زمانے کی صفت نہیں کہ بعض مضامین یا پیکر یا استعارے اکثر شعرا کے یہاں نظر آتے ہیں۔ ہر دور میں، بلکہ ہر پانچ سات برس میں مضامین کی مقبولیت کا اشاریہ بدلتا رہتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک خاص مضمون کسی زمانے میں شاعر کو بہت اچھا لگتا ہو اور بعد میں اس نے اسے ترک کر دیا ہو۔ کسی مضمون یا پیکر یا استعارے کی کثرت کسی کلام میں علامتی انداز پیدا کر سکتی ہے، اس کے معنی کی تفہیم میں ہماری مدد کر سکتی ہے لیکن خود صاحب کلام کے بارے میں کوئی معتبر اطلاع نہیں بہم پہنچاتی۔ مثال کے طور پر، اٹھارویں صدی کے نصف دوم میں یہ مضمون عام تھا کہ جو شخص اپنے کلام میں رنج و غم کے مضامین بھر دیتا ہے وہ شاعر نہیں، مرثیہ گویا سوز خواں وغیرہ ہے۔ یہ چند شعر دیکھیے،لب قدرت سے جز فریاد کچھ ریزش نہیں کرتایہ کچھ شاعر نہیں ہے اپنے دل کا مرثیہ خواں ہے(قدرت اللہ قدرتؔ)کچھ میں شاعر نہیں اے مصحفیؔ ہوں مرثیہ خواںسوز پڑھ پڑھ کے محبوں کو رلا جاتا ہوں(مصحفیؔ، سوم)نالہ موزوں می کند عمریست اما پیش یارنیست مظہر در شمار شاعراں گویا ہنوز(میرزا مظہر جانجاناں شہیدؔ)یہ مضمون انیسویں صدی کے شروع میں بھی نظر آ جاتا ہے۔ سید محمد خان رند (۱۷۹۷۔ ۱۸۵۷) کہتے ہیں،عاشق مزاج روتے ہیں پڑھ پڑھ کے بیشتراشعار رند کے نہ ہوئے مرثیے ہوئے(دیوان دوم)ان اشعار کی روشنی میں میرؔ کے ایک مشہور شعر کے معنی بدل جاتے ہیں اور یہ آپ بیتی یا اظہار شخصیت کا شعرنہیں رہ جاتا بلکہ ایک مقبول مضمون کا اظہار ہو جاتا ہے،مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نےدرد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا(دیوانِ اول)بعض لوگو ں کا خیال ہے کہ اگر خود شاعر نے اپنے بارے میں کوئی بات اپنے شعر میں لکھی ہے تو اسے درست مان کر شاعر کی شخصیت یا کلام کے بارے میں حکم لگا سکتے ہیں۔ یہاں پہلی بات یہ ہے کہ اپنے بارے میں کسی کا بیان، چاہے وہ ہمارا محبوب شاعر ہی کیوں نہ ہو، بے دلیل قبول کر لینا عقل مندی نہیں،باطل است آنچہ مدعی گویدخفتہ راخفتہ کے کند بیدارشعرا صاحبان اور خاص کر کلاسیکی شعرا، اپنی برائی بھی لکھ ڈالیں تو اسے بھی نامعتبر سمجھنا چاہیے، بشرطیکہ ان کی بات کا الگ سے کوئی ثبوت نہ ہو۔ ہم لوگ بھول جاتے ہیں کہ غزل کی دنیا مضمون کی دنیا ہے، آپ بیتی اور اقبال جرم کی نہیں۔ جنسی تعلقات و اشواق پر مصحفیؔ کے چند شعر سنیے،چھوڑا نہ میاں مصحفیؔ تم نے کوئی لونڈاتم کام میں اپنے غرض استاد ہو کوئی(دیوان اول)امرد پرست تو نہیں اتنا میں مصحفیؔپر بیش و کم ہے فرقۂ نسواں سے اختلاط(دیوان اول)وہ آہوے رمیدہ مل جائے نیم شب گرکتا بنوں شکاری اس کو بھنبھوڑ ڈالوں(دیوان چہارم)جو ملے بھی وہ تو مجھ سے نہ ہو فعل زشت سرزدیہ دعا قبول میری مرے پاک ذات کرنا(دیوان سوم)ہر چند امردوں میں ہے اک راہ کا مزاغیر از نسا و لے نہ ملا چاہ کا مزا(دیوان چہارم)ان اشعار کو آپ بیتی پر مبنی قرار دیا جائے تو مصحفیؔ کے کردار یا شخصیت کی جو تصویر ان سے بنتی ہے وہ اتنی متضاد ہے کہ ان کے بارے میں کوئی حکم لگانا غیرممکن ہو جاتا ہے۔ اور اگر ان اشعار کو مضمون آفرینی پر مبنی کہیں تو کوئی مشکل نہیں پڑتی۔ شاعروں کا کام ہی ہے کہ نت نئے مضمون باندھیں اور اس طرح اپنی قادرالکلامی کے ثبوت دیتے ہوئے غزل میں تنوع اور دلکشی پیدا کریں۔میں نے مصحفیؔ سے مثال اس لیے پیش کی کہ ان کے یہاں جنسی مضامین کے ساتھ اپنا ذکر میرؔ کے یہاں سے زیادہ ہے۔ ورنہ عمومی طور پر اپنی برائی بیان کرنے میں میرؔ اور مصحفیؔ میں کوئی خاص فرق نہیں۔ ایک دیوان سوم کے شروع کو سرسری دیکھیے تو یہ شعر ملیں گے،کیا تم کو پیار سے وہ اے میر منھ لگاوےپہلے ہی چومے تم تو کاٹو ہو گال اس کااگر ہم قطعۂ شب سا لیے چہرہ چلے آئےقیامت شور ہوگا حشر کے دن روسیاہی کاجب نہ تب ملتا ہے بازاروں میں میرؔایک لوطی ہے وہ ظالم سرفروشمیرؔ کو طفلان تہہ بازار میںدیکھو شاید ہو وہیں وہ دل فروشمیرؔ نے جس زور شور سے اپنی برائیاں کی ہیں، اس سے بھی بڑھ کر انہوں نے معشوق کو برا بھلا کہا ہے۔ معشوق کے لیے ’’اوباش‘‘ میرؔ کا خاص لفظ ہے۔ تو کیا ہم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہوں گے کہ میرؔ کا کوئی معشو ق یا میرؔ کے سب معشوق، اس شعر کے مصداق تھے،صحبت میں اس کی کیوں کے رہے مرد آدمیوہ شوخ و شنگ و بے تہہ و اوباش و بدمعاشملحوظ رہے کہ یہ شعر دیوان پنجم کا ہے، جس کی ترتیب کے وقت میرؔ کی عمر ۸۰برس سے متجاوز تھی۔ تو کیا ہم یہ نتیجہ نکالیں کہ ہشتاد سالگی میں بھی میرؔ نہ صرف یہ کہ عشق پیشہ تھے بلکہ یہ بھی کہ ان کا معشوق انتہائی ناپسندیدہ کردار کا کوئی شاہد بازاری تھا؟ اگر ہاں، تو یہ نتیجہ بھی اخذ کرنا ہوگا کہ میرؔ میں سنجیدگی، متانت، بڑھاپے کا رکھ رکھاؤ، اپنی استادی اور شہرت کا لحاظ، یہ سب نام کو نہ تھا۔ وہ پست مذاق شخص تھے اور پست طبیعت لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا پسند کرتے تھے۔اگر شاعری کو شخصیت کا اظہار مانا جائے اور بڑھاپے کی عشق مزاجی اور اوباشوں کی صحبت کو شخصیت کا اشاریہ قرار دیں تو میرؔ کی شخصیت نہایت فرومایہ اور ان کی ذہنی سطحی نہایت پست ثابت ہوتی ہے۔ اگر بڑا شاعر ہونے کے لیے انسان کے مزاج میں کچھ ثقل و ثقاہت اور ذہنی بلندی کا کچھ مرتبہ لازمی ہے تو یہ سوال بھی اٹھ سکتا ہے کہ میرؔ کے وہ سینکڑوں اشعار جن پر لوگ صدیوں سے سردھن رہے ہیں، میرؔ کی تصنیف ہیں بھی کہ نہیں؟ ایسی صورت میں یہ ممکن نہیں معلوم ہوتا کہ جس میرؔ کا ذکر ہم اوپر پڑھ چکے ہیں، اسی نے دیوان ششم میں یہ شعر بھی کہے ہوں گے،ہو کے بے پردہ ملتفت بھی ہوا ناکسی سے ہمیں حجاب رہابدن میں صبح سے تھی سنسناہٹانہیں سناہٹوں میں جی جلا تھاگلشن کے طائروں نے کیا بے مروتی کییک برگ گل قفس میں ہم تک نہ کوئی لایاباتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گاپڑھتے کسو کو سنیے گا تو دیر تلک سردھنیے گادل کی تسلی جب کہ نہ ہوگی گفت و شنود سے لوگوں کیآگ پھینکے گی غم کی بدن میں اس میں جلیے بھنیے گاہم نے نہ دیکھا اس کو سو نقصان جاں کیاان نے جو اک نگاہ کی اس کا زیاں ہوامرغ چمن کی نالہ کشی کچھ خنک سی تھیمیں آگ دی چمن کو جو گرم فغاں ہواظاہر ہے کہ تھوڑی سی ڈھیل دوں تو پورا نہ سہی، آدھا دیوان ششم اسی اندازکے شعروں پر مشتمل نقل کر سکتا ہوں۔ لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ جس طرح سے اوباش والے شعروں سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ میرؔ کے مزاج میں متانت کا فقدان اور سفاہت کا وفور تھا، اسی طرح مندرجہ بالا اشعار سے بھی یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ میرؔ ہنسنے، کھیلنے، ٹھٹھول اور عامیانہ گفتگو، مزاح اور خوش طبعی، چھیڑ چھاڑ، جسمانی لذت اور سیر و تفریح کی صلاحیتوں سے بالکل عاری تھے۔ میرؔ کے بڑے شاعر ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ وہ ہر طرح کے مضمون کو اپنی شاعرانہ گرفت میں لے آتے ہیں۔ کوئی چیز نہ اتنی چھوٹی ہے اور نہ اتنی بڑی کہ میرؔ اس کے ساتھ معاملہ نہ کر سکیں۔دیوانِ چہارم میں میرؔ کا شعر ہے،بہم رکھا کرو شطرنج ہی کی بازی کاشنہ میرؔ بار ہے خاطر کا یار شاطر ہےمیں نے جب یہ شعر پہلی بار پڑھا تو دل نے بے ساختہ تحسین و استعجاب کے کلمے کہے۔ دونوں مصرعے کس قدر رواں اور پھر بھی دوسرے مصرعے میں ’’بار خاطر‘‘ اور ’’یار شاطر‘‘ جیسے نامانوس فقروں کو ایک ساتھ نہایت کامیابی کے ساتھ کھپانا، پھر ’’شطرنج‘‘ کی مناسبت سے ’’یار شاطر‘‘ میں معنی کا ایک اور پہلو اور خود ’’یارشاطر‘‘ میں خفیف سا اشارہ اس بات کا کہ میرؔ بالکل ننھے معصوم بھی نہیں، کچھ اور بھی مطلب رکھتے ہیں، غرض کس کس بات کی تعریف کی جائے۔میں دیوان سوم میں یہ شعر دیکھ چکا تھا،جہاں شطرنج بازندہ فلک ہم تم ہیں سب مہرےبسان شاطر نو ذوق اسے مہروں کی زد سے ہےاس مضمون سے مشابہ مضمون کی ایک رباعی خیام سے بھی منسوب ہے، ملاحظہ ہو،مالعبتگانیم و فلک لعبت بازازراہ حقیقتے نہ از راہ مجازبازیچہ ہمی کنیم بر نطع وجودرفتیم بہ صندوق عدم یک یک بازلیکن ’’شاطرنو‘‘ کی جو صفت اس شعر میں بیان ہوئی ہے اس سے گمان ہوتا ہے کہ میرؔ کو شطرنج سے کچھ شغف رہا ہوگا۔ اب جو میں نے دیوان چہارم میں مذکورہ بالا شعر پڑھا تو میرا گمان اور پختہ ہوا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد میں نے ’’گلستان‘‘ میں یہ فقرہ دیکھا کہ ’’درخدمت مرد ماں یار شاطر باشم نہ با رخاطر‘‘ تو معلوم ہوا کہ دیوان چہارم کے شعر کی روشنی میں میرؔ کی شخصیت کے بارے میں صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعدی کی ’’گلستان‘‘ انہوں نے غور سے پڑھی تھی۔ میرا خیال ہے شاعری میں شخصیت کی تلاش بس اسی طرح کی باتوں تک محدود رہنی چاہیے۔