میر کے مطالعے کی اہمیت
اردو شعر و ادب کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باوجود یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ابھی تک ہمارے بہت سے امامان فن کے کلیات و دواوین تو دستیاب ہی نہیں ہوتے یا ملتے ہیں تو بہت غلط ہیں اور ان کی کتابت و طباعت بھی قابل اطمینان نہیں ہے۔ اس لیے اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ تمام اساتذہ کے کلام کے مستند ایڈیشن، دلنشیں صاف اور ستھری کتابت وطباعت کے ساتھ شائع ہوں تاکہ ایک طرف ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کی ذہنی غذا کا سامان ہو سکے اور دوسری طرف تحقیق و تنقید زیادہ صحیح بنیادوں پر ہو سکے۔ میرؔ کی کلیات کا وہ ایڈیشن جو نول کشور پریس نے آخری بار شائع کیا تھا اور جس کی صحت عبد الباری آسیؔ نے کی تھی، اب کہیں دست یاب نہیں ہوتا۔ عبادت بریلوی نے پاکستان سے کلیات میرؔ کا ایک نیا ایڈیشن ایک طویل مقدمہ کے ساتھ شائع کیا تھا۔ اس کے متن میں بہت سی غلطیاں راہ پا گئی تھیں مگر یہ بھی اب ہندوستان میں نہیں مل سکتا۔ اس لیے کلیات میرؔ کے ایک ایسے مستند ایڈیشن کی ضرورت سختی سے محسوس کی جا رہی تھی جو دیدہ زیب بھی ہو۔ خوشی کی بات ہے کہ زیر نظر ایڈیشن جو علمی مجلس دلی نے شائع کیا ہے، اس ضرورت کو بڑی حد تک پورا کرتا ہے۔ ویسے ادبی دنیا میں حرف آخر تو کوئی بھی نہیں ہوتا۔ میرؔ کے متعلق کچھ کہنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ آسان اس لیے کہ میرؔ کی عظمت ان کے زمانے سے آج تک مسلم رہی ہے اور مشکل اس لیے کہ اس عظمت کا تجزیہ یا اس کا سائنٹفک مطالعہ ابھی تک پورے طور پر نہیں ہو سکا ہے۔ کسی شاعر پر تنقید کے لیے سب سے اہم تو اس کا کلام ہے لیکن اس کے علاوہ شاعر کے حالات زندگی، اس کی شخصیت کے نمایاں پہلو، اس کے ماحول، اس سے پہلے کی شاعری کے اسالیب، سب کوذہن میں رکھنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر جانسن کایہ خیال اگرچہ غلط نہیں ہے کہ زمانہ کسی شاعر کو یونہی اہم قرار نہیں دیتا مگر اسے آنکھ بند کرکے تسلیم کرنے سے فکر کی راہیں بند ہو جاتی ہیں اور تنقید میں ایک تقلیدی رنگ آ جاتا ہے جو ادب کی ترقی کے لیے مضر ہے۔ اس لیے میرؔ کی مسلمہ عظمت کو ذہن میں رکھتے ہوئے بھی ہمارا فرض یہ ہے کہ تنقید کے ان جامع اصولوں کی روشنی میں جو دور حاضر کا عطیہ ہیں، ہم میرؔ کو پرکھنے کی اور اس طریقے سے اپنے تنقیدی معیاروں کو پرکھنے کی برابر کوشش کرتے رہیں۔ یہ بھی ایک عجب اتفاق ہے کہ اگرچہ میرؔ پر بہت کچھ لکھا گیا ہے مگر سوائے خواجہ احمد فاروقی کی کتاب ’’میر، حیات اور شاعری‘‘ اور ڈاکٹر عبد اللہ کی ’’نقد میر‘‘ کے ابھی تک میر کا کوئی تفصیلی جائزہ موجود نہیں ہے۔ میرؔ پر مضامین کی ایک بڑی تعداد ہے اور ان میں سے بعض ایک سنجیدہ اور قابل قدر مطالعے کا نتیجہ ہیں۔ پھر بھی محسوس ہوتا ہے کہ میرؔ کے متعلق بہت کچھ بے سوچے سمجھے تسلیم کر لیا گیا ہے، اسی لیے ہماری کوشش یہ ہے کہ میر کی شاعری کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے، ان کے فکر و فن کی اہمیت واضح کی جائے اور اردو شاعری میں ان کے کارنامے کی نوعیت متعین کی جائے۔ میرؔ کے حالات بہت کچھ ’’ذکرِ میر‘‘ سے معلوم ہو سکتے ہیں جو ان کی خود نوشت سوانح عمری ہے لیکن میرؔ کے سارے بیانات کو بے چوں و چرا تسلیم کر لینا جیسا کہ خواجہ احمد فاروقی نے کیا ہے، درست نہیں معلوم ہوتا۔ میرؔ نے اپنے والد کی بزرگی کا جو تذکرہ کیا ہے، اسی پر اکتفا کر کے میرؔ کے بچپن کی تصویر کھینچنا ہمارے عام نظام اخلاق کے مطابق ہو تو ہو لیکن ادبی تحقیق کا تقاضا کچھ اور ہے۔ ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ میرؔ نے جو کچھ کہا ہے وہ سر تا سر جھوٹ ہے لیکن میرؔ کےسچ کا ثبوت اس دور کے تذکروں اور تاریخوں سے ملنا چاہئے۔ آزادؔ نے بعض قدیم تذکروں کی مدد سے آبِ حیات کے نگار خانے میں میرؔ کی ایک جیتی جاگتی تصویر ضرور بنائی ہے مگر آزادؔ کے تاثرات و تعصبات بھی مسلم ہیں۔ میرؔ کے حالات کے سلسلے میں گل رعنا، جواہر سخن، مقدمہ نکات الشعراء، مقدمہ مثنویات میر، مقدمات کلیات میر، تذکرۂ خوش معرکۂ زیبا، تذکرہ مجموعۂ نغز، آب حیات کا تنقیدی مطالعہ از مسعود حسن رضوی اور قاضی عبدالودود کے متعدد مضامین اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن چونکہ ہماری تحقیق اب تک محدود اثروں میں گھومتی رہی ہے اور بنیادی اور ضمنی باتوں میں فرق نہیں کرتی اس لیے ان سے ہمیں میرؔ کو سمجھنے میں بہت زیادہ مدد نہیں مل سکتی۔ معمولی واقعات اور نتیجہ خیز واقعات میں فرق ہے۔ میرؔ کے والد کا نام در اصل اتنا اہم نہیں جتنا میرؔ اور خاں آرزوؔ کے بگاڑ کے وجود کو سمجھنا۔ ذکر میر اور نکات الشعراء میں خان آرزو کے متعلق متضاد باتیں کیوں ملتی ہیں؟ میرؔ باوجود اس کے کہ مختلف امرا سے کسی نہ کسی طرح متوسل رہے ہیں کیوں اپنی درویشی اور بے نیازی پر اس قدر زور دیتےہیں؟ اس گتھی کو سلجھانا ضروری ہے۔ میرؔ کا گھریلو ماحول، ان کی اکبر آباد کی زندگی، دہلی میں ان کے عنفوانِ شباب کے تجربات، ان کی دیوانگی، بعض امرا سے ان کے مراسم، لکھنؤ میں بیتی ہوئی زندگی، آصف الدولہ سے ان کے معاملات، معاصرین سے ان کے تعلقات، یہ ایسے مسائل ہیں جن پر ابھی تک بہت کچھ تحقیق کی ضرورت ہے۔ میرؔ کا کلام ان کی زندگی میں مشہور ہو گیا تھا۔ ان کے جو دیوان ملتے ہیں ان میں ایک تاریخی ترتیب ہے لیکن ان کے دہلی اور لکھنؤ کے کلام کو علاحدہ کرنا ضروری ہے تاکہ اس کے ارتقا پر رائے زنی ہو سکے۔ میرؔ کے معاصرین کے اقوال ہم آنکھیں بند کر کے نہیں مان سکتے ہیں۔ ہمیں ان سارے جذبات و تعصبات کو ذہن میں رکھنا چاہیے جو ایک ہم عصر اور میرؔ جیسے نازک مزاج ہم عصر کے متعلق قرین قیاس ہیں۔ ہمیں یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اس زمانے میں تحقیق اور تنقید کا معیار کیا تھا اور ذاتی اور شخصی تعلقات شاعری پر رائے میں کس حد تک اثر انداز ہوتے تھے پھر لکھنؤ اور دہلی کے تہذیبی ماحول میں جو فرق رونما ہو رہا تھا اس کا احساس بھی ضروری ہے۔ میرؔ کے حالات اور شخصیت کے متعلق تحقیق ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ میرؔ کی شخصیت کا نفسیاتی مطالعہ بھی ابھی نہیں کیا گیا ہے لیکن اگر ہم موجودہ معلومات کو تقلید کی روش یا اجتہاد کے جذبے سے بلند ہو کر پرکھیں تو میرؔ کی زندگی اور ان کی شخصیت کے متعلق چند موٹی موٹی باتیں ضرور کہہ سکتے ہیں۔ میرؔ کو بچپن ہی میں مہربان ’’چچا‘‘ اور شفیق باپ کی موت کی وجہ سے ایک محرومی کا احساس ہوا۔ بھائی نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ چنانچہ محرومی کے احساس میں ظلم کا احساس بھی شامل ہو گیا۔ دہلی میں انہیں خان آرزو جیسے سنجیدہ اور ثقہ آدمی کی صحبت ملی مگر خان آرزوؔ کی شفقت انھیں نصیب نہ ہوئی۔ قصور خاں آرزوؔ کا زیادہ ہے یا میرؔ کا۔ اس کے متعلق کوئی قطعی بات نہیں کہی جا سکتی مگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ خاں آرزوؔ میرؔ کے اطوار سے خوش نہ تھے۔ یہ اطوار اخلاقی اعتبار سے کتنے ہی قابل اعتراض کیوں نہ ہوں ان کی شاعری کو سمجھنے کے لیے بہت اہم ہیں۔ مجھے تو کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک عالم اور ایک ’‘رند‘‘ کے مزاج میں جو فرق ہو سکتا ہے وہ یہاں بھی موجود تھا۔ اس فرق نے اپنا رنگ دکھایا۔ میرؔ، خان آرزو سے رخصت ہوئے، ایک گھنے سایہ دار درخت کا سایہ ان کے لیے عذاب ہوگیا۔ انھوں نے کڑی دھوپ کی آزادی پسند کی اور اس سائے میں جو چوٹیں ان کے دماغ پر لگی تھیں انھیں ساتھ لیے ہوئے اپنی انانیت کے سہارے زندگی کے خارزار میں مردانہ وار نکل کھڑے ہوئے۔ میرؔ دیوانے تو نہیں تھے مگر دیوانگی کا دورہ ان پر پڑ چکا تھا۔ ایک گہرے اور طوفانی عشق نے ان کے دل و دماغ پر شدید اثر کیا تھا۔ باپ اور چچا سے انھیں چند اخلاقی اور متصوفانہ تصورات ملے تھے۔ وہ اعصاب زدہ Neurotic ضرور تھے۔ زندگی کی تلخ حقیقتوں سے وہ یکسر بے نیاز تو نہیں ہوسکتے تھے لیکن اپنے تخیل کی طلسم کاری سے اس پر پردہ تو ڈال سکتے تھے۔ دہلی کی معاشرت نے انھیں جو کچھ دیا تھا اس کو سینے سے لگائے جب وہ لکھنؤ پہنچے تو لکھنؤ کی جنت سے ان کی نگاہیں خیرہ تو کیا ہوتیں، ہاں ان پر ایک حقارت کی نظر تو ڈال سکتے تھے۔ ضرورت امرا کی طرف جانے پر مجبور کرتی تھی مگر اپنے کو لیے دیے تو رکھ سکتے تھے۔ دہلی کی تباہی و بربادی میں انسانیت اور تہذیب کی جو بربادی ہوئی، اس کا احساس تو رکھ سکتے تھے۔ صدیوں کے ریاض سے تہذیب کی جو جنت بنی تھی اس کے مٹنے سے اخلاق و اقدار کا جو نقصان ہوا، اسے تو محسوس کر سکتے تھے۔ جو خزانہ زمانے کے ہاتھوں لٹ گیا تھا اس کی قدر و قیمت کا اندازہ تو لگا سکتے تھے۔ میرؔ کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ان نکتوں کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ رہی میرؔ کی شاعری تو اگرچہ اس کی اہمیت اور قدر و قیمت کے متعلق اختلاف نہیں ہے مگر خصوصیات کے تعین اور ان کے مدارج کے متعلق بے شمار جزوی اختلافات ہیں۔ تذکروں کی تنقید بیشتر تعارف، تحسین یا تنقیص سے آگے نہیں بڑھتی۔ اس غبار میں حقائق کی کرنیں ضرور ہیں مگر اس زمانے کے تہذیبی اور اخلاقی معیاروں نے تنقید کو تقریظ اور تجزیہ کو تاثرات کی ایک دلدل بنا دیا ہے۔ میرؔ کی سادگی، ان کی قنوطیت، پست و بلند، ان کی آہ اور مرزا کی واہ کو اب لوگ بے سمجھے بوجھے دہرا دیتے ہیں۔ میرؔ پر لکھنے والوں میں پہلی معنی خیز تنقید مولوی عبدالحق کی ہے۔ انھوں نے ان کے غم کو ان کے ماحول کے انتشار سے مربوط کیا ہے۔ اس کے بعد وحید الدین سلیمؔ نے میرؔ کے کلام کی اصلیت اور ان کے بیان کے جادو پر زور دیا مگر میرؔ کی سادگی، قنوطیت اور جذباتیت کا اتنا ڈھنڈورا پیٹا جا چکا تھا کہ یہ خیالات ادبی تاریخ کا جزو بن گئے۔ اس یک رخی تصویر نے بیسویں صدی کی اس نسل کو جو جذبات سے آگے بڑھ کر فکر کی کارفرمائی اور غالبؔ کی ذہنی رو سے خاصی مانوس ہوچلی تھی، میرؔسے بے گانہ رہنا سکھایا۔ پھر سماجی تنقید نے اپنے جوش میں کبھی اس عشق کی مذمت کی جو ایک آزار ہے۔ کبھی جذبات کی مستی کو خطرہ قرار دیا اور کبھی حسن وعشق کے رنگ محل کو حقائق سے فرار بتایا۔ میرؔ کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہوئے اس کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے اس نسل نے میرؔ کو اپنے دل سے قریب نہ ہونے دیا۔ میرؔ کے دیوان کی جگہ تو الماری کے سب سے اونچے خانے میں محفوظ تھی مگر اس کا مطالعہ چنداں ضروری نہ رہاتھا۔ صرف اس کا احترام کافی تھا لیکن سماجی تنقید کی ابتدائی طفلانہ کوششیں جب کم ہوئیں اور اس میں توازن آیا تو کلاسکس کو دوبارہ دریافت کیا گیا۔ عبد الحق اور وحید الدین سلیم کے بعد میرؔ کی عظمت کا احساس دلانے میں جعفر علی خاں اثرؔ اور مجنوںؔ کا بھی ہاتھ ہے۔ اثر نے میرؔ پر متعدد قابل قدر مضامین لکھے اور جو لوگ غالبؔ پرستی کے جوش میں میرؔ کو محض جذبات کا شاعر سمجھتے تھے، ان پر یہ حقیقت واضح کی کہ بڑی شاعری میں جذبہ اس طرح گھل مل جاتا ہے کہ بعض اوقات یہ محسوس نہیں ہوتا کہ کون سی چیز کہاں شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے۔ افسوس ہے کہ جعفر علی خاں اثرؔ نے ان بکھرے ہوئے موتیوں سے کوئی مالا نہیں بنائی پھر بھی مزا میر کے نام سے انھوں نے میرؔ کا جو انتخاب شائع کیا، اس کے مقدمہ میں میرؔ کی حسن کاری کو بڑی خوبی سے واضح کیا ہے۔ مولوی عبد الحق نے میرؔ کی سادگی کو سب سے زیادہ اہمیت دے کر خلط مبحث بھی کیا۔ سادگی یا رنگینی بہ ذات خود کوئی بڑی چیز نہیں۔ سادگی خیال کی ترسیل میں مدد دیتی ہے۔ رنگینی اسے کیفیات کے ایک لطیف غبار میں پیش کرتی ہے۔ سادگی یا رنگینی سے پہلے خیال کی ندرت اور اظہار کی کیفیت ضروری ہے۔ یہ کیفیت جب سادگی لیے ہوتی ہے تو زیادہ عام فہم ہوتی ہے لیکن غالبؔ کے یہاں ان کے بہترین اشعار وہی نہیں رہیں جو سادہ ہیں۔ ادھر کچھ عرصے سے میرؔ کی جو پرستش ہوئی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نئی نسل کے پاس حقائق نے صرف کچلے ہوئے خواب چھوڑے ہیں اور جس کے صنم کدے کئی بار ویران ہو چکے ہیں، میرؔ کی آواز میں ایک جانی پہچانی کیفیت محسوس کرتی ہے۔ اس نسل کے پاس زخموں کی جو کائنات ہے وہ میرؔ کی ’’چشمِ خوں بستہ‘‘ سے اور ان کے عشق کے آزار سے اسے کچھ قریب کر دیتی ہے مگر اس کی مقبولیت میں بھی میرؔ کے ساتھ انصاف نہیں کیا جاتا ہے بلکہ میرؔ کے ایک من مانے بت کی پرستش ہو رہی ہے۔ ہر دور اپنی ذہنی پرواز اور حدود فکر کے مطابق اپنے ماضی کی تشریح اور تفسیر کرتا ہے۔ در حقیقت یہ الگ الگ تصویریں میرؔ کی تمام خصوصیات کی آئینہ دار نہیں ہیں۔ میرؔ کی شاعری بھی ایک بت ہزار شیوہ کی طرح ہے۔ وہ ہمیں جو بصیرت عطا کرتے ہیں اس کی کئی تہیں ہیں۔ سطحی ذہن رکھنے والے میرؔ کے دردناک اشعار سے اس دور کے درد و داغ کا جو اندازہ لگاتے ہیں، اس میں اس نکتہ کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ میرؔ کا مقصد محض ماحول کی عکاسی نہیں۔ گو اس کے کلام میں اس ماحول کی روح جلوہ گر ہے۔ میرؔ اس لیے بڑے شاعر نہیں کہ وہ ماحول کے مصور ہیں۔ وہ اس لیے بڑے شاعر ہیں کہ ان کے اشعار اس بھرپور احساس سے لبریز ہیں جو زندگی کی گہری بصیرت سے حاصل ہوتا ہے۔ جو واقعات اور حالات کی نشان دہی نہیں کرتا بلکہ ان کے پیچھے جو ذہنی دنیا ہے اس کا دروازہ ہمارے لیے کھول دیتا ہے۔ میرؔ کے مطالعے میں ہمیں اس نکتے کو ملحوظ رکھنا ہے کہ ان کے ذریعے سے ہم اس دور کے ذہن کی گہرائیوں تک پہنچ سکتے ہیں اور اس محشر جذبات کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو ہماری تہذیبی بساط پر رونما ہوا تھا۔ میرؔ اس لیے بڑے شاعر ہیں کہ ان کی کرن نہ صرف ماضی کے دھندلکے کو چیر کر ہمیں ایک جیتی جاگتی تصویر دکھا دیتی ہے بلکہ ان کی یہ تصویر ہمارے حال اور مستقبل دونوں میں رہبری اور رہنمائی کر سکتی ہے۔ میرؔ کی رفاقت سے ہم اسی لیے منہ موڑ کر نہیں بیٹھ سکتے۔ میرؔ کی شاعری کی اہمیت کے اسباب ظاہر ہیں۔ ان کے خیالات میں گہرائی، جذبات میں خلوص اور اظہار میں کیفیت ہے۔ یوں تو ان کی نظر انتخابی ہے یعنی زندگی کے بعض مخصوص پہلوؤں کی زیادہ کامیاب مصوری کرتے ہیں مگر اس انتخاب میں بھی قوس قزح کی دل آویزی اور رنگا رنگی ہے اور وہ اپنی ذاتی زندگی اور اپنے ماحول دونوں میں کئی بڑے بڑے طوفانوں سے گزرے ہیں۔ ابتدائی تربیت نے انھیں ایک نظام اخلاق، ایک شیوۂ زندگی اور ایک آئین مجلسی عطا کیا۔ جوانی نے انھیں ہر قسم کے تجربات سے آشنا کیا مگر یہ تجربات ان کے مزاج کو بدل نہ سکے۔ ان کے مخصوص میلان کو اور استوار کر گئے۔ میرؔ کی زندگی میں ان کے عشق اور دور جنوں دونوں کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کےاثر سے وہ عمر بھر اعصاب زدہ رہے۔ اسی لیے ان کی شاعری کی سمت کو سمجھنے کے لیے ان کی شخصیت کے پیچ و خم کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ میرؔ کے یہاں عشق کا تصور ایک دھندلا سا دیا نہیں ہے بلکہ ایک شعلۂ بے باک ہے جس کی آنچ اس کی ہڈیوں تک کو جلائے دیتی ہے۔ اس مادی عشق کا سلسلہ ’’اسرار و معارف‘‘ سے بھی مل جاتا ہے کیونکہ یہی اس زمانے کا ذہنی سرمایہ تھے مگر اس میں ہماری گوشت پوست کی دنیا اور اس کے تند و تیز جذبات کی ساری گرمی موجود ہے۔ یہ عشق ایک وضع داری بن کر زندگی کی ایک خاص شکل میں نمودار ہوتاہے اور وہ بصیرت عطا کرتا ہے جس کے فیض سے واعظ اور ناصح کی منافقت، دیر و حرم کی حدبندی، دولت کی رعونت، تعیش کی سطحیت واضح ہو جاتی ہے۔ یہی دردمند انسانیت کی وہ آواز بن جاتا ہے جو ہر جبر و قہر کے خلاف ہے اور صداقت، حسن، انصاف اور صحت ذہنی کی امین ہے۔ میرؔ کے فن پر توجہ اور ان کی فکر کی طرف سے بے نیازی نے ان کے جوہر کو نمایاں نہ ہونے دیا، حالانکہ فن کی بہار فکر کی حنابندی کے بغیر وجود میں میں نہیں آتی۔ میرؔ کا فن اس لیے برگزیدہ اور بلند پایہ ہے کہ ان کے آئینۂ فکر میں پرخلوص تجربات کا جوہر ہے اور یہ تجربات ذاتی ہوتے ہوئے بھی ایک عمومی رنگ رکھتے ہیں۔ میرؔ کا عشق گو جنسی ہیجان کا نتیجہ ہے مگر یہ جنسی ہیجان نہ ہوتا تو میرؔ کی شاعری میں جنسی جذبہ ایک ترفع حاصل نہ کر پاتا۔ شاعری جنسی ہیجان کا نام نہیں ہے، جنسی ہیجان کے ترفع کا نام ہے۔ جب اس ترفع میں اخلاقی اقدار شامل ہو جاتے ہیں تو یہ ایک تہذیبی صفت بن جاتا ہے۔ شخصی اور ذاتی ناکامیاں اور محرومیاں ایک دور کی ناکامیاں اور محرومیاں ہوجاتی ہیں۔ ذات کائنات کی مظہر ہو جاتی ہے۔ شاعری زندگی کا آئینہ ہی نہیں اس کی شمع بن جاتی ہے اور اس شمع کی روشنی دیر تک اور دور تک ہماری رفاقت کر سکتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کچھ تو میرؔ کی شخصیت کے پیچ و خم کو پوری طرح نہ سمجھنے کی وجہ سے کچھ ان کی الم پسندی کو قنوطیت کہہ کر اور کچھ غزل کے رمز و ایما کے آداب کو نہ سمجھنے کی وجہ سے میر کی شاعری کے کئی اہم پہلو واضح نہیں ہونے پائے۔ نشریت، سادگی، قنوطیت، سوز و گداز جیسے الفاظ سے میرؔ کے رنگ کی پوری طرح ترجمانی نہیں ہوتی۔ ان الفاظ کی اہمیت ضرور ہے مگر میرؔ کی عظمت میں ان کا بنیادی حصہ نہیں ہے۔ یہ صرف اس عظمت کو اور واضح کرتے ہیں۔ ادب کے طالب علم کا فرض ہے کہ میرؔ کی نفسیات، اس دور کی تاریخ اور اس تہذیبی بساط کی یہ خصوصیت نظرانداز نہیں کرنی چاہئے کہ یہ اشراف کے پرستار ہوتے ہوئے بھی عوام اور عوام کی زبان سے اپنا رشتہ مضبوط رکھتی تھی اور دربار سے تعلق کے باوجود خانقاہ یا بازار سے منہ موڑنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ میرؔ کی شاعری اس لیے بھی ہماری بہت بڑی دولت ہے کہ ان کے یہاں ہمارے تینوں تہذیبی ادارے بازار، خانقاہ اور دربار اس طرح ملے جلے نظر آتے ہیں کہ اس دور کی تمام سماجی حقیقیتیں اس نگار خانےمیں جلوہ گر ہو جاتی ہیں۔ میرؔ کے یہاں پست و بلند پر ہمارے نقادوں نے بڑا زور دیا ہے اور اسی وجہ سے ان کے بہتر نشتر مشہور ہیں۔ پست و بلند کی یہ اصطلاح بڑی گمراہ کن ہے۔ اس سے کون بڑا شاعر بچا ہے۔ شیکسپیرؔ، گوئٹےؔ، کالی داسؔ، امراء القیسؔ۔۔۔ پھر ہمارے یہاں سوداؔ، نظیرؔ، غالبؔ، حالیؔ، انیسؔ، اقبالؔ سب ہی کے یہاں کم و بیش یہ دھوپ چھاؤں مل جائے گی۔ پست و بلند سے کسی نے بہت برے اشعار اور بہت اچھے اشعار مراد لیے ہیں۔ کسی نے پستی کو ابتذال کے مضمون میں استعمال کیا ہے لیکن یہ دونوں چیزیں الگ الگ ہیں۔ پہلی بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اخلاقی اعتبار سے انھوں نے پست خیالات ظاہر کیے ہیں۔ دراصل پست وبلند کے اخلاقی اور جمالیاتی تصور میں فرق کرنا چاہئے۔ اخلاقی اعتبار سے میرؔ کے یہاں جو خیالات قابل اعتراض ہیں، وہ اس دور کی عام کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں اور صرف میرؔ کو اس وجہ سے قابل ملامت بنانا صحیح نہیں۔ شاہ حاتمؔ سے لےکر نظیرؔ، مصحفیؔ، انشا ؔ اور جرأت تک یہ نشیب و فراز ملتا ہے۔ شرفا کی زندگی عام بدمذاقیوں سے مبرا نہیں تھی اور عام اخلاقی قوانین کے پیچھے عقیدہ تو تھا مگر استقامت نہیں تھی۔ سماج میں جب کوئی بڑی ہل چل رونما ہوتی ہے تو یہ کیفیت اکثر نظر آتی ہے۔ رہی وہ پستی جو پھیکے پن یا سپاٹ پن کے مترادف ہے تو اسے پستی کے بجائے کسی اور نام سے یاد کرنا چاہیے۔ میرؔ نے ساری عمر شعر کہے۔ یہی ان کا سب سے بڑا مشغلہ تھا۔ وہ اپنے آپ کو دہراتے بھی ہیں اور کہیں کہیں ان کے اشعار کلام موزوں ہی رہ جاتے ہیں لیکن ان کے یہاں شروع سے آخر تک ایک لہجہ اور آواز ہے۔ آوازوں کا تصادم یا کش مکش نہیں ہے۔ یہ بالکل الگ بات ہے کہ جس طرح غالبؔ نے اپنے کلام کا انتخاب کیا تھا، اسی طرح میرؔ کے بھی کلام کا انتخاب ہوتا تو ان کی عظمت کا نقش اور گہرا ہوتا۔ نشریت، تغزل، سہل ممتنع، یاسیت، یا قنوطیت ان میں سے کسی اصطلاح سے میرؔ کے مجموعی رنگ کی ترجمانی نہیں ہوتی۔ نشریت یا تغزل یا سہل ممتنع میرؔ کی کچھ خصوصیات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ قنوطیت کی اصطلاح یقیناً غلط ہے۔ اس پر بحث آگے آئےگی۔ الم پسندی اور الم پرستی میں فرق کرنا چاہیے۔ در اصل میرؔ اور غالبؔ جیسے بڑے شاعروں کے رنگ کو ایک اصطلاح میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ کبھی کبھی دریا کوزے میں نہیں سماتا۔ میرے نزدیک میرؔ کے یہاں ایک دردمند انسانیت کی فریاد اور ایک حساس اور خود دار روح کا خاموش گریہ ملتا ہے۔ میرؔ کے رنگ کو اگر ہم چاہیں تو شبنمی کہہ سکتے ہیں۔ میرؔ کے یہاں وہ مسائل یا سوالات ڈھونڈنا بے کار ہے جو غالبؔ کے یہاں ملتے ہیں۔ غالبؔ کے دور پر آنے والے زمانے کی پرچھائیاں پڑ رہی تھیں۔ میرؔ کا چمن خزاں دیدہ تھا۔ نئے نظام کی آمد نے غالبؔ کے دور کے سامنے جو مخصوص الجھنیں پیدا کی تھیں، میرؔ کے زمانے میں ان کا احساس نہیں ہوا تھا۔ زندگی کے متعلق جو سوالات غالبؔ کے ذہن میں آتے تھے اور اس کی وجہ سے ان کے یہاں جو فکر و فلسفہ ملتا ہے، وہ میرؔ کے یہاں تلاش کرنا بے کار ہے۔ میرؔ کے سامنے تو ایک لٹتی ہوئی جنت، ایک لٹتی ہوئی بساط اور ایک جاتے ہوئے کارواں کا ماتم ہے اور اس ماتم کے پیچھے انسانیت کی چند ایسی قدریں ہیں جو نہ صرف اس دور کو بصیرت عطا کر سکتی تھیں بلکہ آج بھی ہمارے ذہن کا اجالا ہو سکتی ہیں۔ ہماری مشرقی تنقید ہمارے تہذیبی تصور کا عطیہ ہے جس میں جاگیردارانہ دور کی تمام خصوصیات جلوہ گر ہیں۔ اس کا تہذیبی تصور شہروں اور ان کی ایک مخصوص ہماہمی تک محدود تھا۔ اس کے فن کا تصور زبان کے ایک ادھورے شعور کا غماز ہے۔ تنقیدی شعور تو تخلیقی شعور کے ساتھ ساتھ چلتا ہے مگر تنقیدی کارنامے ہر دور میں تخلیقی کارناموں کے پیچھے چلے ہیں۔ چنانچہ ہمارے تذکرے اور تنقید، زبان اور فن کے خواص پسند تصور سے عرصے تک آزاد نہ ہو سکے۔ میرؔ کم اور نظیرؔ زیادہ اس تصور کا شکار ہوئے۔ مگر میرؔ اور نظیرؔ میں جو تعلق ہے اسے بھی نظرانداز نہ کرنا چاہئے۔ میرؔ کی غزلوں میں ہماری مشترکہ تہذیب و تمدن کا وہی جلوۂ صد رنگ ملتا ہے جو نظیرؔ کی نظموں میں پہنچ کر ایک مخصوص آہنگ اور لے اختیار کر لیتا ہے اور نظم کے فارم کی سہولتوں کی وجہ سے زیادہ روشن ہو جاتا ہے۔ آزادؔ نے غلط نہیں کہا تھا کہ نظیرؔ کے کچھ اشعار میرؔ سے پہلو مارتے ہیں۔ نظم، غزل کے مقابلے میں راست گفتاری سے زیادہ کام لیتی ہے۔ اگر ہم ٹلیرڈ کی اصطلاحوں کو تسلیم کرلیں تو ہم کو نظم میں بلاواسطہ شاعری اور غزل میں بالواسطہ شاعری ملتی ہے۔ غزل کا ابہام، اس کے رمز و ایما، اس کی ماورائے سخن بات، نہ کہنے کے انداز میں بہت کچھ کہہ دینا، ہر حقیقت پر نقاب ڈال دینا اور ہر نقاب میں حقیقت کی کرن دیکھنا، نقاد کی مشکلات میں اضافہ کردیتا ہے۔ غزل گو شاعر کے یہاں فلسفہ ڈھونڈنا بے کار ہے۔ اس کے یہاں فلسفیانہ میلانات مل سکتے ہیں۔ وہ تنظیم اور تعمیر کے پھیر میں نہیں پڑتا۔ اس کی ہر تصویر اپنی جگہ مکمل ہوتی ہے لیکن تصویر میں ایک نگار خانے کی شان پیدا کرنا اور اشاروں میں داستان کی بلاغت سمو دینا اسے آتا ہے۔ چونکہ غزل بڑے ریاض کا ثمرہ ہے اس لیے اس پر تنقید بھی ریاض چاہتی ہے۔ یہاں حکم لگانے سے پہلے ذہنی ہمدردی درکار ہے۔ فیصلے سے پہلے ترجمانی کی ضرورت ہے۔ تنقید میں غزل کی روایات کے حسن و قبح کا سوال اتنا اہم نہیں۔ ان روایات سے واقفیت ضروری ہے۔ اسی ناواقفیت نے ہمیں اپنی کلاسیکی شاعری سے پوری طرح مستفید نہ ہونے دیا۔ اگر ہم اس کا کچھ عرفان رکھتے ہوتے تو شاید اس طرح اسے ماننے سے انکار نہ کیا کرتے۔ ہمارے فکر میں ہم آہنگی اور ہمارے فن میں ہمواری کی جو کمی ہے اس کا یہی راز ہے۔ شاعری کو ترنم، معنی اور کنایہ کا مجموعہ کہا گیا ہے۔ اچھی شاعری میں یہ تینوں اجزا اس طرح وصل ہو جاتے ہیں کہ کوئی چیز نہ علاحدہ سے ذہن میں کھٹکتی ہے نہ کانوں کو ناگوار گزرتی ہے، نہ کوئی متضاد ذہنی رو پیدا کرتی ہے۔ متضاد ذہنی رو کی ایک مثال ذم کا پہلو ہے۔ شاعرانہ ترنم اور خالص ترنم میں فرق یہ ہے کہ یہاں ترنم کے ساتھ معنی کا رابطہ بھی ہے۔ اگر معنی میں ترنم نہیں تو اشعار ذہن میں ہل چل نہیں پیدا کرتے، نہ جذبات کو متاثر کرتے ہیں۔ میرؔ نے قیامت کے ہنگامے، شور انگیزی یا جادو کی پُڑی پر جو فخر کیا ہے وہ اسی مترنم معنی آفرینی کی وجہ سے ہے۔ میرؔ کے دور میں شاعر موسیقی سے نابلد نہیں ہوتے تھے۔ وہ فنون لطیفہ کے مشترک جوہر کا احساس ضرور رکھتے تھے۔ ان کی طویل اور چھوٹی بحریں دونوں بڑی مترنم ہیں۔ میرؔ کو الفاظ کے ترنم کا بھی پورا پورا احساس ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس کی خاطر قواعد کی بھی پروا نہیں کرتے۔ میرؔ کے معنی آفریں ترنم میں جو تحت الشعوری زیر و بم، جو تصویروں میں لپٹی ہوئی تصویریں ہیں اور جو نگار خانہ آباد ہے، وہ ایک تفصیلی اور سائنٹفک جائزہ چاہتا ہے۔ خوش قسمتی سے ہمیں جدید نفسیات سے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں، وہ یہاں بہت مفید ہو سکتی ہیں۔ علم نفسیات شاعری کی قدر و قیمت متعین کرنے میں ہمیں کوئی مدد نہیں دے سکتی لیکن شاعر کی شخصیت، اس کے تخیل، اس کے لاشعور، اس کی محرومیوں اور اس کی سرشاریوں، اس کے جذباتی محوروں اور ذہنی الجھنوں کو سمجھنے میں ضرور مدد دے سکتی ہے۔ اس سلسلے میں میرؔ کی شخصیت اور شاعری کے مطالعے سے بہت دل چسپ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ میر کے کسی شعر پر نظر ڈالیے تو یہ بات آئینہ ہو جاتی ہے کہ الفاظ معلوماتی اظہار نہیں بلکہ تاثراتی اظہار ہیں۔ بشریات کے ماہروں نے الفاظ کو جذباتی علامات کہا ہے۔ مالی توسکیؔ اس بنیاد پر شعر کو ’’آوازوں میں چلن‘‘ کہتا ہے۔ جب الفاظ نظروں یا کانوں سے گزرتے ہیں تو ان کے معلوماتی پہلو سے زیادہ تیز اور صریح ان کا جذباتی پہلو اور اس کے روابط ہوتے ہیں۔ یہ جذبات آفرینی ہی شاعر کی قادر الکلامی کو ظاہر کرتی ہے۔ بڑی شاعری جذبات بھی برانگیختہ کرتی ہے اور ان کا تنقیہ بھی کرتی جاتی ہے، اسی لیے میں میرؔ کو تنقیہ کا بادشاہ سمجھتا ہوں۔ اس اصطلاح کو تنگ نظری کی وجہ سے المیہ سے مخصوص کر لیا گیا ہے، حالانکہ خود ارسطو کی نظر المیہ کے ادبی پہلو پر زیادہ ہے، اس کے فنی پہلو پر کم ہے۔ میرؔ کے یہاں یہ تنقیہ اتنا عام ہے کہ ان کی مایوسی اور ناکامی، یاس و حرماں اور رنج وغم بھی ان کو قنوطی نہیں بنا پاتے۔ ان کے ان تین اشعار پر غور کیجئے۔ نامرادانہ زیست کرتا تھامیرؔ کا طور یاد ہے ہم کومرے سلیقے سے میری نبھی محبت میںتمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیاکھا گیا ناخنِ سر تیز جگر دل دونوںرات کی سینہ خراشی میں ہنر ہم نے کیاان اشعار میں زیست کرنا، محبت میں سلیقے نباہ اور رات کی سینہ خراشی میں ہنر قابل غور ہیں۔ میرؔ کا سب سے محبوب موضوع عشق ہے۔ ان کی عشقیہ شاعری میں جسم کی مستی بھی اور روح کی آنچ بھی، لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ وہ نہ تو جسم کے پیچ و خم میں اسیر ہو کر رہ جاتے ہیں اور نہ محض حسن سے ایک روحانی رشتہ کافی سمجھتے ہیں۔ اگر میرؔ کے یہاں صرف شباب کے ہیجان کی داستان ہوتی تو اتنی اہمیت نہ تھی۔ میرؔ کے یہاں یہ ایک وضع جنون بن گئی ہے اور اس وضع جنون میں عاشقی ہی نہیں زندگی کی کچھ بڑی قدریں بھی شامل ہیں۔ کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ اعلیٰ درجے کی عشقیہ شاعری محض عشقیہ نہیں ہوتی، کچھ اور بھی ہوتی ہے۔ ’’دل پُرخوں کی اک گلابی‘‘ جو شخص عمر بھر شرابی رہے اس کی مستی زندگی میں کچھ معنی رکھتی ہے۔ یہ ایک تہذیب قدر بن جاتی ہے۔ ایلیٹ نے اپنے ایک مضمون میں شاعری کی تین آوازیں بتائی ہیں۔ ایک اپنی آواز، دوسری خطابی آواز اور تیسری کسی کردار موقع یا واقعہ کی ترجمانی۔ ہمارے یہاں آپ بیتی اور جگ بیتی کے دور رنگ تسلیم کیے گئے ہیں۔ یہ تقسیم سمجھانے کے لیے ہے اور اس کا ریاضیاتی تصور غلط ہوگا۔ میرؔ کے یہاں شاعری کی پہلی آواز ہے مگر اس پہلی آواز میں دوسری آواز کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔ میرؔ کی داخلیت تمام تر داخلی نہیں ہے۔ گرد و پیش کی کرنیں میرؔ کے ذہنی آئینے میں آکر کچھ نئے خطوط اور رنگوں کی حامل ہو جاتی ہے۔ رنگوں کے اس دل آویز کرشمہ کے ساتھ گرد و پیش کی کرنوں کا احساس بھی ضروری ہے۔ فکر کے معنی چونکہ ہم نے کسی نہ کسی فلسفہ طرازی کے سمجھ لیے ہیں اور کسی شاعر کے کلام میں ذہنی گہرائی ڈھونڈنا ایک محبوب مشغلہ ہو گیا ہے، اس لیے بعض اوقات میرؔ کے یہاں جو افکار ایک لطیف سادگی اور بے ساختگی کے ساتھ آئے ہیں، ان کی اہمیت کو ہم نظرانداز کر دیتے ہیں۔ میرؔ یا غالبؔ یا اقبالؔ ان معنوں میں مفکر نہیں ہیں جن معنوں میں افلاطونؔ، کانٹؔ اور ہیگلؔ وغیرہ ہیں اور نہ ان کی فکر کی گہرائی ہمارے لیے بہ ذات خود اہمیت رکھتی ہے جب تک کہ یہ افکار شاعرانہ اظہار کے سانچے میں نہ ڈھل جائیں۔ میرؔ کے یہاں چونکہ افکار کے ساتھ شاعرانہ اظہار بھی ملتا ہے، اس لیے اظہار کا حسن بعض اوقات فکر کی لطیف تابانی کی طرف سے توجہ ہٹا دیتا ہے۔ غالبؔ اور اقبالؔ نے افکار کو اظہار بنانے میں جو پاپڑ بیلے وہ میرؔ کو نہیں بیلنے پڑے۔ غالبؔ اور اقبال کو پتھر نچوڑنے پڑے۔ میرؔ کے جذبے کی آنچ سے پتھر خود پگھل گئے۔ اس لیے حسن بیان کے لحاظ سے میرؔ اب بھی سب سے اچھے ماڈل ہیں۔ اچھا معمار وہ ہے جو اپنے مسالے کو ماہرانہ طور پر استعمال کرے۔ مسالے کی فراوانی لازمی طور پر تعمیر کی خوبی کی ضمانت نہیں ہوتی۔ رنگوں کی کثرت کی بہ جائے رنگوں کا چابک دستی سے استعمال زیادہ قابل قدر ہے۔ جس طرح فکر کو محدود معنوں میں لینے کی وجہ سے ہم میرؔ کے میلانِ فکری پر پوری توجہ نہیں کر سکے، اسی طرح فن کے محدود تصور نے میرؔ کے فن کی عظمت بھی واضح نہ ہونے دی۔ میرؔ کے یہاں ہندی بول چال کی بنیاد پر فارسی تراکیب کا خوش نما محل ہے مگر پوری تعمیر میں اجزا کی موزونیت اور ہم آہنگی کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ میرؔ نے در اصل انشاؔ کو یہ کہنے کا موقع دیا کہ لفظ خواہ کسی زبان کا ہو جس طرح ہماری زبان میں بولا جاتا ہے اسی طرح صحیح ہے۔ انہوں نے فارسی اور ہندی کی اضافت کو جائز رکھا۔ انھوں نے جامع مسجد کی سیڑھیوں کا محاورہ برتا جہاں تیغ و سناں اور طاؤس و رباب گلے ملتے ہیں اور قواعد سے زیادہ چلن کی حکومت تھی۔ ناسخؔ نے میرؔ کے آداب فن کو نظرانداز کرکے اردو زبان و ادب کو بڑا نقصان پہنچایا۔ دوسرے الفاظ میں انھوں نے دیہات اور قصبات سے شہروں تک پھیلے ہوئے لسانی مواد سے کام لینے کے بجائے شاعری کو ایک مخصوص مصنوعی اور بے مقصد شہریت کا آئینہ دار بنا دیا جس کے پاس نہ چلن کی فضا تھی نہ محنت کا آب ورنگ اور نہ کسی گہرے عقیدے کی گرمی۔ فن کے اچھے تصور میں صرف زبان کی قدرت ہی نہیں اس کا مناسب و موزوں استعمال بھی شامل ہے۔ میرؔ کے فنی شعور کا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے غزل اور مثنوی دونوں کے آداب کا لحاظ رکھا۔ ان کی غزل کہیں قصیدہ نہیں ہوپاتی اور مثنویاں مختلف موضوعات کا بے جوڑ سلسلہ نہیں معلوم ہوتیں۔ میرؔ کے زمانے میں اردو زبان وسیع بھی ہوگئی تھی اور مالا مال بھی۔ زبان کو وسعت دینے کا خیال عام تھا۔ حفاظت کا تصور اس وقت پیدا نہیں ہوا تھا۔ وسعت کا یہ تصور صوفیوں، درویشوں اور عوام کا لایا ہوا اور تہذیبی قدروں کے بڑھنے اور پھیلنے کا ثبوت ہے۔ حفاظت دربار اور امرا کے خواص پسند تصور سے وابستہ ہے۔ میرؔ کے سامنے اگرچہ زیادہ تر فارسی ادب کی روایات تھیں مگر ان کا رشتہ اپنی سرزمین اور اپنی عام زندگی سے بھی تھا۔ اس عام زبان میں ادبی عظمت میرؔ کےاثر سے آئی ہے۔ یوں تو ادبی کارنامے میرؔ سے بہت پہلے ملنے لگتے ہیں اور جنوبی ہند میں ولی تو ایک سلسلے کے خاتم اور دوسرے کے بانی ہیں مگر شمالی ہند میں عام زبان کے ادبی حسن کو سب سے زیادہ میرؔ نے آشکارا کیا اور ان کے بعد نظیرؔ نے۔ میرؔ ٹھیٹھ بول چال کے الفاظ جس بے تکلفی اور روانی سے استعمال کرتے ہیں وہ ان کا ہی حصہ ہے۔ پھر وہ ہندی اور فارسی کے الفاظ کو اس خوبی سے ملاتے ہیں کہ وہ بے جوڑ نہیں معلوم ہوتے۔ فارسی ترکیب کے استعمال کے باوجود میرؔ کبھی ثقیل نہیں ہوتے۔ ان کے لہجے کی خوش آہنگی اور شیرینی کبھی ماند نہیں پڑتی۔ ان کے اضافتوں کے پہاڑ بھی روئی کے گالے معلوم ہوتے ہیں۔ اگر میرؔ کی سادگی کا موازنہ میرؔ سوز سے کیا جائے تو میرؔ کی صناعی اور چابک دستی کا پتہ چلتا ہے۔ میرؔ سوز اپنی سادگی میں سپاٹ ہو جاتے ہیں۔ میرؔ کی سادگی میں پُرکاری ہے۔ میرؔ سوز کے یہاں سرد راکھ ہے تو میرؔ کے یہاں وہ لاوا جو تن تک کو جلا دیتا ہے۔ ہر شاعر کی طرح میرؔ کے یہاں بھی بعض اصطلاحات اور ترکیبیں بار بار آتی ہیں۔ دِوانہ، لہو، جنوں، دلِ پُرخوں، آزار جیسے الفاظ کی تکرار بھی کچھ معنی رکھتی ہے۔ امپسنؔ کا یہ خیال بھی اہمیت رکھتا ہے کہ شاعر کے یہاں کچھ کلیدی الفاظ Key-words بھی ہوتے ہیں جن سے ہر شاعر کی روح کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ یہ کلیدی الفاظ کچھ روایتی بھی ہوتے ہیں یا اپنے دور کی آئینہ داری کرتے ہیں مگر کچھ اس شاعر کی انفرادیت کے مظہر ہوتے ہیں۔ میرؔ اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کہ ان کے کچھ اپنے کلیدی الفاظ ہیں جو بعد کی روایت بن گئے ہیں۔ اول و دوم درجہ کے شاعروں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اول درجہ کا شاعر کچھ کلیدی الفاظ رکھتا ہے۔ جن کی وجہ سے اس کی شاعری میں ایک جدت، تازگی اور طرفگی کا احساس ہوتا ہے۔ دوسرے درجہ کے شاعر روایتی کلیدی الفاظ کو کامیابی سے برت لینا کافی سمجھتے ہیں۔ اوپر کہا گیا ہے کہ میر کے یہاں فارسی تراکیب کے استعمال میں بڑا سلیقہ ملتا ہے۔ وہ صرف فارسی تراکیب پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ فارسی کے محاوروں اور فقروں کا نہایت آزادی اور بے تکلفی سے ترجمہ بھی کر لیتے ہیں۔ ان ترجموں میں فارسی مفہوم سے زیادہ وسعت پیدا کرکے وہ ہماری زبان کو مالا مال کردیتے ہیں۔ وہ عجمی لے کی خاطر ہندی لے کو نہیں چھوڑتے اور نہ بعض شعرا کی طرح فارسی تراکیب سے خواہ مخواہ پرہیز کرتے ہیں۔ وہ اس گر سے واقف ہیں کہ دوسری زبانوں سے نہ صرف تلمیحات اور رمز و ایما کے سانچے لیے جا سکتے ہیں بلکہ الفاظ اور فقروں کو بھی سلیقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس سے زبان کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ میرؔ کی زبان اپنی حزنیہ لے کے باوجود بڑی جان دار زبان ہے۔ اس میں اپنے پورے سرمائے سے کام لیا گیا ہے۔ شاعروں کے لیے وہ بہت اچھے رہنما ہیں۔ الفاظ پر قدرت رکھتے ہوئے بھی وہ الفاظ کی بازی گری یا شعبدہ بازی کے قائل نہیں۔ وہ ایک اسٹائل یا اسلوب کے مالک ہیں۔ مگر اسٹائل کے شہید نہیں ہیں۔ انھوں نے تغزل کے لب و لہجہ کو اس طرح متعین کر دیا ہے کہ اس سے انحراف آسان نہیں ہے۔ وہ ہر لفظ کے صحیح استعمال، اس کی آواز، اس کی گونج اور تھرتھراہٹ، اس کے ذہنی اثرات اور ضمنی ارتعاشات کو جانتے ہیں۔ پھر وہ الفاظ کی چمک دمک کو قابو میں رکھنے اور جذبات کی تھرتھراہٹ کو نمایاں کرنے کے راز سے واقف ہیں۔ ان کے الفاظ میں گرج اور کڑک نہیں ملتی۔ دل کشی، دل آسائی اور دل آویزی جا بہ جا نظر آئےگی۔ وہ نرم اور کرخت آوازوں کے فرق کو سمجھتے ہیں۔ ان کا جادو اپنا کام کر جاتا ہے مگر اس جادو کے پیچھے جو صناعی ہے وہ جلد نظر نہیں آتی۔ یہی فن کا اعجاز ہے۔ اپنے جذبات کی تہذیب کرنے کے بعد ہی انھوں نے جرأتؔ کو ان کی ’’چوما چاٹی‘‘ پر متنبہ کیا تھا، حالانکہ چوما چاٹی کے اشعار ان کے یہاں بھی ملتے ہیں۔ اردو شاعری پر میرؔ کے جو احسانات ہیں، ان کا احساس عام ہے مگر ان کا عرفان کم ملتا ہے۔ میرؔ کے دور میں جو اخلاقی، سماجی اور تہذیبی قدریں مسلم تھیں، وہ بہرحال ہندوستان کے جاگیردارانہ دور کاعطیہ تھیں۔ میرؔ کی شاعری کی خصوصیات کو ہم اٹھارہویں صدی کے ہندوستان کی تاریخ اور اس کے پس منظر کی روشنی میں ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اس میں اس مشترک تہذیب کا جادو اور جمال ہے جو مغلوں کے دور کا عطیہ ہے۔ اس میں وہ تصوف ہے جو ایران اور وسط ایشیا کے تمدنی اثرات کے بیج بو کر ایک پوری فصل تیار کر چکا تھا۔ اس تصوف کے پیچھے ایک فلسفۂ زندگی تھا جسے سہولت کے لئے ہم عینیت یا آئیڈیل ازم (Idealism) کہہ سکتے ہیں۔ میرؔ بہرحال اپنے دور کی پیداوار ہیں لیکن ان کی شاعری کی اپیل آفاقی ہے، وہ اپنے اظہار میں اپنے دور سے بلند بھی ہو جاتے ہیں اور ذہن انسانی کے ایسے سربستہ رازوں سے بھی پردہ اٹھاتے ہیں جو ہر دور کے لیے کشش رکھتے ہیں۔ کارگہ شیشہ گری کا کام صرف میرؔ کے زمانے میں ہی نازک نہیں تھا، آج بھی نازک ہےاور اگرچہ آج سانس آہستہ لینے کا زمانہ نہیں ہے پھر بھی اس شعر کو پڑھ کر تھوڑی دیر کے لئے ہم سانس روک لیتے ہیں اور ہمیں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ موجودہ دور کے سارے کمالات کے باوجود جسم و جان کا رشتہ ایک ڈورے سے بھی زیادہ نازک ہے اور زندگی ایک پل صراط کی طرح ہے جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے۔ میرؔ کے یہاں زندگی کے جبر و قہر اور انسان کی معذوری کا جو تذکرہ ہے اس کی وجہ سے بعض لوگ میرؔ کو قنوطی کہنے لگتے ہیں۔ میرؔ نے زندگی کے جبر و قہر کا احساس رکھتے ہوئے بھی انسان کی عظمت کا ترانہ گایا ہے۔ یہ صاحب نظر جو مقدور سے زیادہ مقدور رکھتا ہے، جس کے لیے برسوں مہر و مہ کی آنکھیں لگی رہی ہیں، جو خاک کے پردے سے اس وقت نکلتا ہے جب فلک برسوں گردش کر لیتا ہے، جو گرمِ سخن ہوتا ہے تو اس کے گرد ایک خلق ہے اور جس کی خاموشی میں بھی ایک عالم نکلتا ہے۔ وہی میرؔ کا ہیرو ہے، میرؔ اس سستی رومانیت سے بلند ہیں جو اپنے خواب وخیال کی مستی کی وجہ سے سنگین حقائق کا احساس نہیں رکھتی۔ انھیں زندگی کی سنگین اور دل دوز حقیقتوں کا پورا پورا احساس ہے۔ زندگی ان کے نزدیک ایک گھمبیر اور عظیم شے ہے اور انسانی زندگی کے صحرا میں اس قطرۂ شبنم کی طرح ہے جو خارِ بیاباں پر رکا ہوا ہے۔ میرؔ کی شاعری میں قطرۂ شبنم اور بیاباں دونوں کا احساس ملتا ہے۔ مشرقی فلسفے میں جو ترک دنیا اور فنا کی تعلیم ملتی ہے وہ اس قنوطیت سے مختلف ہے جس کا اظہار شوپنہار، ہابس، ہارڈی یا وجودیت Existentialism کے بعض علم برداروں میں ملتا ہے۔ مشرقی فلسفے میں روحانیت اور مغربی فلسفے میں مادیت کی جلوہ گری ہے۔ روحانیت کے خیال کے مطابق مادے کی کثافتوں کو دور کر کے روح کے جلوے کو جلا دینا عین مقصدِ زندگی ہے۔ مگر اس کی وجہ سے کائنات ایک بے مقصد وجود اور زندگی ایک بے سود مظاہرہ نہیں ہوتی، بلکہ یہ پردۂ ظلمات ہے جس سے گزر کر آبِ حیات ملتا ہے۔ مغرب میں قنوطیت فطرتِ انسانی کوایک اندھی مشیت کا کھلونا سمجھتی ہے۔ مشرق میں جبریت اور بے ثباتی دنیا کی تعلیم دنیاکو مقصود بالذات سمجھنے سے روکتی ہے اور اس کی نیرنگیوں سے نگاہوں کو خیرہ نہیں ہونے دیتی۔ بعض اوقات تصوف نے قنوطیت کو بھی شہ دی ہے مگر تصوف کےوہ افکار جن سے میرؔ نے بھی غذالی، اپنے اخلاقی نصب العین کی وجہ سے قنوطیت کے اسرار نہیں بن پاتے۔ اردو میں قنوطیت کے سچے پرستار صرف فانیؔ ہیں۔ ہاں قنوطی رنگ کے اشعار میرؔ اور غالبؔ کے یہاں بھی مل جائیں گے۔ پھر فانیؔ کی قنوطیت بھی اس دور کے بہت سے سستے رجائیوں سے زیادہ وقیع اور تہہ دار ہے۔ میرؔ نے شاعری کو جو لب و لہجہ دیا ہے اور صلابت کی بہ جائے لطافت پر توجہ، آواز میں گونج اور گرج کی بہ جائے نرمی پر اصرار، جذبات کے تند و تیز بہاؤ کی بہ جائے ضبطِ فغاں اور سازِ زیر لبی پر جو زور دیا ہے وہ بڑی بھرپور اور مستقل کیفیت رکھنے والی شاعری کا ہے، یہ ظاہر ہے صرف انھیں چیزوں کو فن کی شاعری کی مستقل قدریں نہیں کہا جا سکتا۔ میرؔ کے زمانے میں سیاسی انتشار، بدامنی اور نراج نے صراحت کی بہ جائے کنائے اور وضاحت کی بہ جائے اشارے میں پناہ لی۔ تہذیبی معیاروں نے آہستہ روی اور نازک خرامی سکھائی۔ شرافت کے آداب نے نرمی اور ملائمت پر اصرار کیا۔ اس طرح فن میں جو لطیف چاندی اور پرسرار دھندلکے کی کیفیت آئی اسے فن کی ابدی خصوصیت سمجھنا غلطی ہوگا۔ فکر میں تبدیلی کے ساتھ فن بھی بدلتا ہے مگر بدلتے ہوئے بھی یہ اپنا ایک تسلسل قائم رکھتا ہے اور نیا فن پرانے فن سے بالکل بے نیاز کبھی نہیں ہوتا۔ تجربے میں در اصل روایت نئے نئے روپ اختیار کرتی ہے اور نئی بجلیوں میں کتنے برسے ہوئے بادلوں کی کہانی دہرائی جاتی ہے، اس لیے ادب میں روایات یکسر بے کار نہیں ہوتیں۔ در اصل روایات کا اصل مفہوم ہی یہ ہے کہ چاہے ان کی صحت باطل ہو جائے مگر ان پر اعتماد باقی رہے۔ چاہے ان کا وزن ختم ہو جائے مگر وقار نہ جائے۔ اس لیے میرؔ نے غزل کو جو لب و لہجہ دیا ہے اور تغزل کو جو آداب سکھائے ہیں، انھیں کسی زمانے میں ترک نہیں کیا جا سکتا اور کسی نہ کسی وقت میرؔ سے آداب فن سیکھنے کے لیے ہر ایک کو ان کے در پر آنا پڑتا ہے۔ غالب بھی ساری دنیا کی سیر کرکے میرؔ تک پہنچے۔ انیسویں صدی کے آخر کے لکھنؤ میں اگرچہ غالبؔ کے خیال اور میرؔ کی زبان کی ایک میکانکی تقسیم ہو گئی مگر وہ میرؔ کی طرف متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ دوسری جنگِ عظیم، ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کے بعد ’’دل کی جراحتوں کے جو چمن کھلائے گئے‘‘ ان میں میرؔ کا رنگ فطری طور پر آیا اور جب تک غمِ جاناں اور غمِ دوراں کا ’’نشتر سر تیز‘‘ موجود ہے ’’میر کا ہنر‘‘ بھی زندہ ہے۔ جدید شاعری میں سرگوشی کی جو کیفیت ہے، وہ میرؔ کے ساز زیر لبی کی ہی باز آفرینی ہے۔ اسی لیے عاشقی اور زندگی کے تصورات میں انقلابی تبدیلیوں کے باوجود میرؔ کے فکر وفن سے ہم کبھی بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ برنارڈ شا نے ایک جگہ کلاسیکی ادب کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ مدت گزر جانے کے بعد کلاسیکل شعرا اور ادیبوں کی تصانیف کا رنگ محل افکار پارینہ کا ایک کھنڈر رہ جاتا ہے مگر ان کا طرز تعمیر اور تعمیر کی فضا کبھی برباد نہیں ہوتی۔ ہر دور کی فضا اور طرز تعمیر کا یہ احساس نہ ہو تو نئی تعمیر میں کجی اور ناہمواری آجاتی ہے۔ ہر زمانے کے شاعر اور ادیب، وہ تہذیبی اقلیت ہوتے ہیں جو اپنے دور کی تمدنی اکثریت کے پیشوا کہے جا سکتے ہیں۔ ہر آنے والا تمدن پچھلے تہذیبی کارناموں کی بصیرت کے سہارے آگے بڑھتا ہے، اس لیے انیسویں صدی کے تہذیبی معیار بیسویں صدی کے تمدن کے لیے بالکل فرسودہ نہیں ہوئے۔ ہاں بیسویں صدی کی تہذیب کے لیے فرسودہ ہو سکتے ہیں۔ شعر و ادب تصور کو تاثر بناتا ہے۔ اس تاثر میں زندگی کی توانا قدروں کا جتنا احساس ہوتا ہے اتنا ہی بڑا ادب معرض وجود میں آتا ہے۔ میرؔ کی شاعری میں غزل کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ غزل میں انداز نظر، حجابِ سخن، اشارے کی بلاغت اور کنائے کی تاثراتی جنت سب کچھ ہے۔ غزل نہ شاعری کی آبرو ہے، نہ پوری شاعری ہے، جس طرح شاعری میں رمز و ایما کی اہمیت ہمیشہ رہےگی اور رمز و ایما بدلتے بھی رہیں گے، اسی طرح رمز و ایمائیت کی جس صنف میں سب سے زیادہ اہمیت ہے، وہ صنف بھی باقی رہےگی۔ غزل کے ذریعے سے ذہنی قیادت کا وہ کام نہیں لیا جاسکتا جو نظم کے ذریعے سے ممکن ہے۔ ہاں اس کے ذریعے سے دلوں میں وہ خاموش طوفان بپا ہو سکتے ہیں جو بعض اوقات کسی آتش فشاں سے زیادہ ہلچل پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ طوفان شاعری کی تمام اصناف میں ہمارے لیے نمونہ اور مثال نہیں بن سکتے، جس طرح میرؔ کی عاشقی زندگی کی آبرو ہوتے ہوئے ساری زندگی نہیں بن سکتی، جس طرح زندگی ایک بتِ ہزار شیوہ ہے، اسی طرح شاعری بھی ہزار داستان ہے۔ بات کہنے کے بہت سے انداز ہوتے ہیں مگر شیوہ کار آگہی ہر انداز میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ وحدت اور کثرت کا تصور ادب میں بھی ناقابل تردید حقیقت ہے۔ میرؔ کی شاعری میں ہمیں آفاقی عناصر ملتے ہیں۔ آفاقی عناصر مثبت اور منفی دونوں قدروں کے احساس سے بنتے ہیں۔ ان قدروں پر ہر دور میں ایمان لانے کی ضرورت نہیں۔ ان کی اہمیت کا احساس کافی ہے۔ میرؔ انسانیت کے لیے ایک نظامِ اخلاق ضروری سمجھتے ہیں۔ فرد کے جنون کو آزار مانتے ہوئے بھی وہ اس آزار کی عظمت کو ظاہر کر دیتے ہیں۔ میرؔ کے دور میں عشق کے آداب ہی زندگی کو ایک بے معنی چکر سے آزاد کرتے تھے۔ یہ عشق فرد کو جذبات کی تہذیب اور سماج کو خیالات کی تہذیب سکھاتا رہا۔ فرد کو نفسانیت، تعیش اور زرپرستی سے بچانے کی کوشش کرتا رہا اور سماج کو تنگ نظری، منافقت اور ظاہر پرستی سے روکتا رہا۔ میرؔ کے یہاں عاشقی قدر اعلیٰ ہے۔ غالبؔ کے یہاں زندگی، کیونکہ غالبؔ نے قدیم نظام کے رخنوں کو دیکھ لیا تھا اور ایک صحت مند تشکیک کے ذریعے سے قدیم نظام اخلاق سے بلند ہو کر زندگی کی عظمت کو واضح کر دیا تھا۔ اقبال کے یہاں آکر صرف زندگی ہی نہیں بلکہ باعمل زندگی قدر اعلیٰ بن جاتی ہے مگر غالبؔ و اقبالؔ کو بھی میرؔ ہی کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ادب اپنے دور کی پیداوار ضرور ہوتا ہے مگر کوئی بڑا ادیب سماج کے دھارے پر تنکے کی طرح نہیں بہتا۔ وہ کسی نہ کسی طرح اس دھارے کی سمت اور رفتار پر اثر ڈالتا ہے۔ اس کے لیے اپنے ماحول کا فرد ہوتے ہوئے اسے ماحول کو ذرا دور سے یا بلندی سے یا پیچھے ہٹ کر دیکھنا بھی ہوتا ہے، چاہے وہ نیا ماحول پیدا کرنے کے لیے ہو یا کسی جاتی ہوئی قدر کو باقی رکھنے کے لیے۔ میرؔ، سوداؔ، دردؔ اور سوزؔ کے مطالعے سے ان سب کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔ سوداؔ اپنے دور کے نالہ ونغمہ دونوں کے آئینہ دار ہیں، ان کے کلام کے مطالعہ کے بعد ہمارے دل میں وہ ٹیس نہیں اٹھتی جس کے درد میں کیفیت ہوتی ہے اور جس کی کیفیت زندگی کے لیے ایک مسلسل مستی کا باعث ہوتی ہے۔ دردؔ کا کلام میرؔ سے پہلو مارتا ہے مگر دردؔ کا ذہنی اور تجرباتی سرمایہ محدود اور لب و لہجہ میرؔ کے مقابلے میں اس لیے کم پرسوز ہے کہ انھوں نے انسانی فطرت کو اس کے ہر رنگ میں نہیں دیکھا۔ دردؔ ہمارے محترم ہیں مگر محبوب نہیں ہو سکتے۔ سوزؔ کو جذبات کی تہذیب کا گر نہیں آیا۔ دردؔ، سوداؔ اور سوزؔ تینوں اپنے دور سے بہت بلند یا دور نہیں ہو پاتے۔ میرؔ گرد و پیش کی دنیا میں اپنے خونِ جگر کا ایک باغ لگا کر اس میں محو ہو جاتے ہیں۔ آب حیات کے لطیفے سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہ ہوگا کہ میرؔ کو مطالعۂ حیات کی حاجت نہ تھی۔ میرؔ کو فوٹو گرافی کی ضرورت نہ تھی۔ انھیں تجربوں کو تخیلی لباس دینا تھا۔ انھیں تخیلی پیکروں میں قدروں کا احساس پیدا کرنا تھا۔ ان کی نگاہ میں کون و مکاں کے جلوے تھے مگر وہ خود خلوت پسند تھے۔ یہ خلوت پسندی بھی فنکار کے لیے ضروری ہے مگر فنکار انجمن میں رہتے ہوئے بھی خلوت میں رہتا ہے مگر اس کے معنی مردم بیزاری کے نہیں لینا چاہیے۔ اس خلوت پسندی کی وجہ سے میرؔ کی زندگی میں بہت سی محرومیاں آئیں مگر ہر دور میں زندگی کی یہ محرومیاں شاعری کی کامرانیاں ثابت ہوئی ہیں۔ خوابوں کے نگار خانوں کی توسیع کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ میرؔ کا کمال یہ ہے کہ ان کے خواب معنی خیز حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور یہ اشارے اس نرمی اور دل آسائی کے لہجے میں کیے گئے ہیں کہ ان کی اپیل آج بھی باقی ہے۔ اردو شاعری اور اس کے اسالیب سے جذباتی وابستگی آج کافی نہیں ہے کیونکہ جذباتیت کے پاؤں نہیں ہوتے اور وہ سختی اور سستی کی تاب مشکل سے لا سکتی ہے۔ ہمارے لیے قدروں کے اس رنگ محل کا علم ضروری ہے جو صدیوں کے فکر و فن اور تہذیبی جد و جہد کا مرہون منت ہے۔ میرؔ اسی لحاظ سے اپنے ہم عصروں سے زیادہ ہمیں بصیرت عطا کر سکتے ہیں کہ ان کے یہاں نہ فن پر بہت سے پردے ہیں اور نہ فکر میں زیادہ پیچ و خم۔ اس قدر خلوت پسند اور لیے دیے رہنے کے باوجود زندگی اور اس کے عام مظاہر سےایک ایسا رشتہ رکھتے ہیں کہ ان کے مرد معقول ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔ حرف و حکایت شکر و شکایت ہے اک وضع و وتیرہ پرمیرؔ کو جا کر ہم نے دیکھا ہے مردِ معقول کوئیپھر میرؔ کا فن بھی اپنے اعجاز کے باوجود ترسیل اور ابلاغ کے لحاظ سے عام فہم ہے اور سہل ممتنع کی پرانی اصطلاح کا سب سے اچھا نمونہ۔ میرؔ کے یہاں ابلاغ کا یہ احساس نہایت واضح ہے۔ شعر میرے ہیں سب خواص پسندپر مجھے گفتگو عوام سے ہےبڑی شاعری کے متعلق ایلیٹ نے بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ادب کیا ہے۔ اس کا فیصلہ تو صرف ادبی معیاروں سے ہی کیا جا سکتا ہے مگر ادب میں بڑائی کے تعین کے لیے صرف ادبی معیار کافی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر یہ معیار کون سے ہوںگے۔ ظاہر ہے کہ یہ معیار وہ ہوں گے جو زندگی میں بڑائی کا باعث ہوتے ہیں۔ بڑائی صرف گہرائی یا بلندی کا نام نہیں ہے اور زندگی میں صرف خیال کی بلندی یا خلوص کی گہرائی سے نہیں ناپی جاتی، اس کے لیے میرے نزدیک وہ معیار ضروری ہیں جو انسانیت کے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ جب انسانیت صرف وظیفہ لب بن جائے تو آدمیت کی طرف اشارہ بھی ضروری ہو جاتا ہے مگر یہ طے ہے کہ انسان آدمی سے بڑا ہے۔ آدمیت بھی ایک معیار ہے مگر بڑا نہیں۔ انسانیت کے اندر ایک اخلاقی تصور ہے۔ انسان کی ایک پہچان تو یہ ہے کہ وہ صرف اپنی ذات کا پجاری نہیں ہے بلکہ اسے دوسروں کے دکھ درد کا بھی احساس ہے۔ وہ جنت میں بیٹھے ہوئے سمومِ نجد کی لپٹ محسوس کرتا ہے، وہ اپنی خاطر نہیں، دوسروں کی خاطر جی سکتا ہے۔ اس کے نزدیک زندگی سود وزیاں سے بلند ہے اور کبھی جاں ہے اور کبھی تسلیم جاں، یہ انسانیت ملکوتیت نہیں ہے۔ یہ آدمی کا نقطۂ عروج ہے۔ یہ خدا کی ساری مخلوق سے محبت کرتی ہے اور اس کے نزدیک جو لوگ مذہب، مقام رنگ و نسل کی بنا پر بعض لوگوں سے امتیازی سلوک کرتے ہیں یا بعض کے ساتھ زیادتی روا رکھتے ہیں، وہ انسانیت کے مقام بلند تک نہیں پہنچ پاتے۔ اس انسانیت کے لیے میرؔ نے اپنے زمانے کی مروجہ اصطلاح عشق سے کام لیا ہے جو آدمی کو خود غرضی اور ذاتی مفاد کے دائرے سے نکال کر ایک بڑے مقصد، مشن یا مسلک سے آشنا کرا دیتا ہے اور جس کی گرمی سے بے مقصد زندگی میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے جو آخر زندگی کے لیے ایک روشنی بن جاتی ہے، اس عشق پر میرؔ نے جابجا زور دیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں،اے آہوانِ کعبہ نہ اینڈو حرم کے گردکھاؤ کسی کے تیر کسی کا شکار ہوشرابِ عشق میسر ہوئی جسے یک شبپھر اس کو روزِ قیامت تلک خمار رہادور بیٹھا غبار میرؔ اس سےعشق بِن یہ ادب نہیں آتاسخت کافر تھا جس نے پہلے میرؔمذہب عشق اختیار کیااسی عشق کی وجہ سے آدمی کو فوقیت حاصل ہے۔ آدمِ خاکی سے آدم کو جِلا ہے ورنہآئینہ تھا یہ ولے قابلِ دیدار نہ تھاہیں مشتِ خاک لیکن جو کچھ ہیں میرؔ ہم ہیںمقدور سے زیادہ مقدور ہے ہماراسر کسی سے فرد نہیں ہوتاحیف بندے ہوئے خدا نہ ہوئےمت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوںتب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیںماہیتِ دوعالم کھاتی پھرے ہے غوطےیک قطرہ خونِ دل یہ طوفان ہے ہمارامیرؔ کی یہ انسان دوستی کسی خاص مذہبی یا سیاسی مسلک کی پابند نہیں ہے، یہ ایک وضع ایک اسلوب ہے، ایک مزاج ایک طرزِ فکر ہے، یہ نہ خوابوں میں پناہ لیتی ہے، نہ حقائق کی سنگینی سے چور چور ہوتی ہے، یہ حقائق کے ساتھ دل آویزی بھی اور ایک مستی عطا کرتی ہے جس کا نشہ کبھی زائل نہیں ہوتا۔ اسے کسی مذہبی یا اخلاقی یا سیاسی طرز فکر کا نام دینا بھی درست نہ ہوگا کیونکہ اس طرح اس کی آفاقی اپیل محدود ہو جائےگی۔ بقول اصغرؔ، جو کچھ کہا تو ترا حسن ہوگیا محدودبڑائی کا ایک پہلو اور بھی ہے، یہ زندگی کی بصیرت ہے، زندگی بڑی پیچیدہ ہے، تہذیب کے آغاز سے اسے نظریوں اور فارمولوں کے ذریعہ ناپنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مادیت، روحانیت، عینیت، تاریخی مادیت، اثباتیت، وجودیت وغیرہ اسی کوشش کا ثبوت ہیں لیکن نفسیات کی جدید معلومات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ انسان کی عقلیت جو بڑی قابل قدر ہے اس کی جبلتوں پر ابھی مکمل فتح نہیں پا سکی ہے، اس کے جذبات اب بھی تہذیب کے بنائے ہوئے قوانین سے متصادم ہوتے رہتے ہیں، اس کا دل اب بھی اس کے دماغ کی حکومت سے باغی ہو جاتا ہے۔ وہ اب بھی نامعلوم اتھاہ اور بے پناہ پر اسرار اور گمبھیر طوفانی طاقتوں میں گھرا ہوا ہے اور اس لیے جہاں اس کی فتح قابل قدر ہے وہاں اس کی شکست بھی ناقابل اعتنا نہیں بلکہ اس معرکے میں فتح وشکت کے معنی بدل جاتے ہیں اور صرف جد و جہد یا کش مکش کی اہمیت رہتی ہے۔ فطرتِ انسانی کی اس بو قلمونی کا احساس میرؔ کے کلام میں بھی گہرا ہے، اسی لیے میرؔ کے کلام سے ہمیں زندگی کی خاصی بھرپور بصیرت ملتی ہے۔ ظاہر ہے کہ بصیرت آج کی زبان میں نہیں ہے، میرؔ کی زبان اور اصطلاحات میں ہے مگر ان میں اتنی تہہ داری اور آبداری ہے کہ میرؔ کی بات کو ہم نہ صرف سمجھ لیتے ہیں بلکہ اس کے جادو کو محسوس بھی کر لیتے ہیں، یہ اشعار دیکھیے، عشق ہمارا آہ نہ پوچھو کیا کیا رنگ بدلتا ہےخون ہوا دل باغ ہوا پھر درد ہوا پھر غم ہے ابدل کی تہ کی کہی نہیں جاتی نازک ہے اسرار بہتانچھر تو ہیں عشق کے دو ہی لیکن ہے بستار بہتاب کے بہت ہے شورِ بہاراں ہم کو مت زنجیر کرودل کی ہوس ٹک ہم بھی نکالیں دھو میں ہم کو مچانے دووجہِ بے گانگی نہیں معلومتم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیںہر اک سے ڈھب جدا ہے سارے زمانے کا بھیبنتی ہے جس کسو کی یک طور پر بنے ہےہم طورِ عشق سے تو واقف نہیں ہیں لیکنسینے میں جیسے کوئی دل کو ملا کرے ہےکنارا یوں کیا جاتا نہیں پھراگر پائے محبت درمیاں ہوکچھ میں نہیں اس دل کی پریشانی کا باعثبرہم ہی مرے ہاتھ لگا تھا یہ رسالہمیرؔ نے اپنی ایک رباعی میں کہا ہے،ہرصبح غموں میں شام کی ہے ہم نےخون نابہ کشی مدام کی ہے ہم نےیہ مہلتِ کم کہ جس کو کہتے ہیں عمرمر مر کے غرض تمام کی ہے ہم نےبڑی شاعری اس خوننا بہ کشی کی داستان ہے، اس مرمر کے عمر تمام کرنے کے نام ہے، ہاں، اس خوننا بہ کشی، اس مر مر کے عمر تمام کرنے کے بہت سے نام ہیں، زندگی کے اس بستار کو عشق کے دو انچھر میں سمو لینا قطرہ میں دجلہ دیکھنا اور دکھانا میرؔ کا کمال ہے۔ ان کی عظمت کا راز اسی کمال میں ہے، اسی سے ان کا مطالعہ سدا بہار ہے بلکہ جب جب زندگی کسی نازک موڑ پر آئے گی اور مرمر کے زندگی کرنا ایک نئی معنویت حاصل کرےگا، میرؔ کی عظمت کو نئے سرے سے دریافت کیا جائےگا۔
حاشیے
(۱) Obligue (۲) Vocal Custom خصوصاً بحریں جہاں حروف علت کی آوازوں سے زیادہ سے زیادہ کام لیا گیا ہے۔