میکینک کہاں گیا

دل پر لگنے والی چوٹ گہری تھی، من میں اترنے والا گھاؤ شدید تھا۔ اس کی آنکھیں جھکی تھیں۔ پاؤں کے انگوٹھے سے وہ زمین کرید رہاتھا۔ آنکھیں اٹھانا اس تربیت کے خلاف تھاجواس کی طبیعت اورمزاج کا بچپن سے حصہ تھی۔ وہ آنکھیں اٹھاکر باپ کے سامنے گستاخی کامرتکب نہیں ہوناچاہتاتھا۔ باپ اسے تھپڑ دے مارتاتو وہ سہہ جاناآسان تھالیکن باپ کی آنکھ میں اتراغصہ اس کے وجودکوریزہ ریزہ کر گیا۔ اپنے وجودکے ریزے چن کردوبارہ سانس بحال کر کے وہ کہیں نکل جاناچاہتاتھا لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا۔ باپ کے غصے کو سہتے سہتے وہ جیناتوسیکھ گیا لیکن مجروح عزتِ نفس کی کرچیاں رات میں اس کے لیے باعث آزار ہوجاتیں وہ سونے کو بسترپرلیٹتاتوپورے بستر پر عزتِ نفس کی کرچیاں کانٹوں میں بدل جاتیں۔
اس نے کن اکھیوں سے ماں کودیکھا۔ ماں کے چہرے پرراکھ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس کی آنکھ میں آنسو اُترے لیکن وہ ماں کے لیے ان کوپی گیا۔ اسے خبر تھی اس کے آنسوماں کی پوری رات کی نیند چھین لیں گے۔ وہ نہیں چاہتاتھا کہ اس کی ماں کی نیندمیں کوئی رخنہ پڑے۔ اسے باپ بھی بہت اچھا لگتاتھا لیکن؟وہ سوچتا، قصورشایدکسی کابھی نہیں نکلتا۔ لیکن یہ روزکی ڈانٹ کیوں میرامقدرہے؟اس کے اندربہت سے چہرے بسے ہوئے تھے۔ ان چہروں میں ایسے چہرے اسے بہت بھاتے جن پر مسکراہٹ کا موسم رہتاتھا۔ ایک چہرہ مسجد کے مولوی صاحب کاتھا۔ نورانی چہرے والے مو لوی صاحب سے اسے محبت اور گہری عقیدت تھی۔ ان کے لہجے کی ملائمت اسے کئی دن شانت رکھتی، دھیمالہجہ، بردباری، تحمل، اندازِ گفتگو میں ٹھہراؤ۔ وہ سوچتا میراباپ ایساکیوں نہیں؟اسے جمعہ کا وہ خطبہ یادتھا جو اس کے وجودمیں تحلیل ہوگیا۔ مولوی صاحب نے زور دے کر سمجھایاتھا کہ والدین کے سامنے اولاد کی آواز پست رہناچاہیے۔ اف تک کی ممانعت بھی اس کے ذہن میں محفوظ تھی۔ وہ کالج سے گھر لوٹتے ہوئے راستے میں ہی ریزہ ریزہ ہوجاتا۔ وہ آدھا ادھوراگھرمیں سہماہواداخل ہوتا۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے ہی سماعت پرانگارے برسنے لگتے۔
’’یہ نالائق ہے پرلے درجے کا، غبی، کندذہن، اس کی کھوپڑی میں بھس بھرا ہے، اس نے میرے خواب مٹی میں ملادیے ہیں۔‘‘
’’دھیرے بولیں..... ہمسائے؟‘‘
’’تو بک بک نہ کر، زبان کھینچ لوں گا تیری۔‘‘
اس کی ماں سہم گئی۔
’’بابا..... وہ..... وہ..... بات یہ ہے!‘‘
’’مت بھونک۔‘‘
’’آج توآپ ہتھّے سے اُکھڑگئے ہیں۔ اس معصوم کی بات توکم ازکم سن لیں۔‘‘
’’بک جوبکناہے۔‘‘
’’بابا..... میں جوپڑھتا ہوں وہ یاد نہیں رہتا۔‘‘
’’دل لگاکر پڑھے تویادرہے نا۔ اخترصاحب کے بیٹے کاداخلہ کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج لاہورمیں ہوگیا۔ وہ اپنے رحیم صاحب کی بیٹی تیری کلاس فیلوتھی وہ نشترمیڈیکل کالج ملتان میں پہنچ گئی، فیاض صاحب کا بیٹا انجینئرنگ میں چلاگیا اورتو..... تو..... دفعہ ہو جا میرے گھرسے.....!‘‘
وہ آنسوجواس نے ماں کی نیندکے ڈرسے روک رکھے تھے، دہلیزسے نکلاتو مٹی نے چُن لیے۔ وہ مسجد گیامولوی صاحب نہیں تھے۔ اسے یہ یادنہیں تھاوقت کون سا ہے۔ اس نے وضوکیادو نفل پڑھے مسجد کے صحن میں اکڑوں بیٹھاسوچتارہا میں بابا کو کیسے سمجھاؤں مجھے واقعی سبق یاد نہیں ہوتا۔ رات گئے تک جاگ کرمیں نے امتحان کی تیاری کی۔ مجھے توپاس ہونے کی بھی امیدنہیں تھی۔ یہ اللہ کا کرم ہے میں ایف ایس سی تھرڈڈویژن میں پاس توکرگیا۔
’’میں بابا کے دکھ کیسے کم کروں؟‘‘
میرا باپ خواب کیوں دیکھتاہے۔ اس اُوپروالے نے سب کو ایک جیساپیدانہیں کیا۔ قابلیت بھی ایک جیسی عطانہیں کی۔ رزق کی تقسیم بھی اپنے ہاتھ میں رکھی ہے۔ شام تک ماں مجھے گھرواپس بلواتولے گی لیکن اب اس وقت میں کیاکروں۔ کہاں جاؤں؟
نمازمغرب کے بعداس نے مولوی صاحب کواپنی کتھامن وعن سنائی۔ مولوی صاحب اس کی باتیں انہماک سے سنتے رہے.....
’’بیٹا..... تمہیں کوئی ہنرسیکھنے کاشوق ہے؟‘‘
’’جی.....‘‘
’’الیکٹرانک۔‘‘
’’کسی دکان پربات کروں؟‘‘
’’میراایک دوست ہے جی، میں اس کی دکان پر بیٹھ سکتا ہوں۔‘‘
’’تم کل سے دکان پر بیٹھنا شروع کردو لیکن کام میں لگن، دِل جمعی لازمی شرط ہے۔ اللہ کریم ہے۔‘‘
’’لیکن مولوی صاحب..... بابا.....؟‘‘
’’تمہارے بابا کو میں سنبھال لوں گا۔‘‘
(۲)
سورج ان کوارٹروں سے کنی کتراکے گزرتاتھا۔ سردیوں میں دھوپ کی قلت ہونے سے ان کوارٹروں کے مکین گلی میں نکل بیٹھتے۔ مردڈیوٹی پرجاتے تو عورتیں گھر کے کام نمٹاکر کشادہ گلی میں چارپائیاں ڈال کربیٹھ جاتیں اورکچرکچرباتیں کرتیں، سبزی کاٹتیں، کوئی نومولود کودودھ پلانے کے لیے گودمیں لیتی تو دوسری اسے یہ سمجھانانہ بھولتی کہ دوپٹہ ٹھیک کرلو، یہ گلی ہے۔ وہ نمازفجرکے بعدگھرکے چھوٹے موٹے کام نمٹاکرنکل جاتا۔ وہ کام لگن سے سیکھ رہا تھا، اس نے اپنے آپ کو پرزوں میں گم کردیا، وہ ایک ایک چیز کے بارے پوچھتا.....
ایک روزدوپہر کے کھانے پراس کے دوست نے کہا’’یار!تمہاراشوق قابلِ رشک ہے۔‘‘
’’ہاںیار!میراایک تجربہ ہے.....‘‘
’’تمہیں آئے ہوئے کتنے روزہوئے ہیں، تجربہ کیسا؟‘‘
’’یار!زندگی کے بارے بات کررہاہوں.....‘‘
’’یہ عمراورتجربہ؟‘‘
’’تجربے کا عمرسے کیاتعلق؟تجربہ عمرپرمنحصرہوتاتوسترہ سالہ محمدبن قاسم کی بجائے کسی بوڑھے جہاں دیدہ جرنیل کے سپردفوجوں کی کمانڈہوتی۔ وقت سکھادیتاہے، وقت معلم ہے، کوئی لمحوں میں پالیتا ہے، کوئی عمریں رول کربھی خالی رہتاہے۔‘‘
’’یار!تم تقریرنہ جھاڑوتجربہ بتاؤ۔‘‘
’’تجربے کاتعلق چولہے سے ہے.....‘‘
’’انہی اُلٹی سیدھی سوچوں کی وجہ سے تمہاری ایف ایس سی میں تھرڈڈویژن آئی ہے۔ اب بولوبھی!‘‘
’’یار!میں نے اس زمین پرشعورکی آنکھ کھلنے پر جومنظردیکھے اس میں ایک منظر بہت کربناک تھااوروہ تھا اپنے حصے کا بوجھ ڈھونا۔ میں نے دیکھا ہے ہرانسان کواپنے حصے کا بوجھ خود ڈھونا ہوتاہے۔ اپنی زندگی کا رَتھ خودکھینچناہوتاہے، کوئی کسی کے عمربھر کام نہیں نبھا سکتا، انسان قلاش ہوتو کوئی صاحب ثروت دوست، رشتہ دار، دوچار بارتو مددکردے گا لیکن یہ جو روز کا چولہا ہے نا..... یہ خود جلاناپڑتاہے۔ ساری عمرکے لیے چولہے کاایندھن کوئی فراہم نہیں کرتا۔ سبزی، گوشت، پیاز، دوائی، جوتی، کپڑا، دوادارو، خوشی غمی کے اخراجات سب آدمی کوخود نبھانا ہوتے ہیں۔ انہیں کوئی خوشی سے نبھائے یابوجھ سمجھ کر گھسیٹے، گھسیٹناخودہی کو ہوگا۔‘‘
’’یار بات تو تیری دل کولگتی ہے۔‘‘
’’اس لیے میں اپنے پاؤں پرکھڑا ہوناچاہتاہوں۔‘‘
’’لیکن تیرے باباکے خواب؟‘‘
’’زندگی خوابوں کے سہارے بسر نہیں ہوتی ہرآدمی اپنامقدر لے کرپیداہوتاہے۔‘‘
’’تم کیاسمجھتے ہوتمہارامقدرکیاہے؟‘‘
’’مکینکی..... مجھے یقین ہے میرے اللہ نے میری روزی اسی میں رکھی ہے۔‘‘
’’اگرکہوتوساتھ والی دکان خالی ہورہی ہے بات کروں۔‘‘
’’یار!..... میں اکیلے دکان چلالوں گا کیا؟‘‘
’’یار!ہمت پکڑو۔‘‘
اس نے ہمت کی چادرکاکونامضبوطی سے پکڑلیااورچندروز میں دکان سنبھال لی۔ اس کی ماں نے جورقم بیٹی کی شادی کے لیے پس اندازکی تھی باپ سے چوری اسے پکڑائی اوروہ ٹولز اور دکان کا سامان خرید لایا۔
’’بیٹا..... کرایہ کتنا ہے دکان کا؟‘‘
’’ماں چارسو روپے.....!‘‘
’’اتنانکل آئے گاکیا؟‘‘
’’ماں دُعاکرنا۔‘‘
(۳)
’’یہ ٹیلی ویژن ہے.....‘‘ایک شخص نے کندھے پر سے کپڑے میں لپٹا ٹیلی ویژن اس کی ورکنگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’جی اسے مرمّت کرناہے چلتے چلتے بندہوگیا ہے۔ جانے کیاہوا؟‘‘
’’کل تک لے جانا.....‘‘
’’ہمیں رات تک چاہیے۔‘‘
’’اورکام بھی دینا ہے جی.....!‘‘
’’کوشش کرویار، ہم مزدورآدمی ہیں دن بھرمزدوری کرتے ہیں رات میں ایک آدھ فلم دیکھ کرسوتے ہیں یہی تواپنا رونق میلہ ہے۔‘‘
یہ اپنی نوعیت کا پہلامشکل کام تھا، تین گھنٹے کی محنتِ شاقہ کے بعداس نے فالٹ ڈھونڈ لیا، فالٹ دورکرنے کے بعداس نے ٹی وی آن کیا تواسے عجیب سی خوشی نے گھیر لیا، اسے لگا وہ ہوامیں اُڑرہاہے، اسے اپنے اندراعتماداورطمانیت اُترتی محسوس ہوئی۔
یہ میں نے ٹھیک کیا ہے۔ کیامجھے کام آگیاہے؟میں اپناکاروبارالگ سے چلا سکتا ہوں؟ میں نالائق نہیں ہوں..... کُندذہن اورغبی بھی نہیں، لیکن بابامجھے ایساکیوں کہتا ہے؟بابا بے قصور ہے قصورمعاشرے کا ہے، لوگ باباسے کہتے ہوں گے تیرابیٹانالائق ہے، بابا تو سیدھا سادہ ہے آخر کس کا جی نہیں چاہتا کہ اس کی اولاد.....؟وہ خوش تھا۔
مہینہ گزرنے پراس نے حساب کیادکان کاکرایہ، بجلی، کھانے اورچائے کاخرچہ نکال کر اسے ایک ہزار روپیہ بچ رہا۔ یہ اس کی اپنی محنت تھی، جب وہ گھرکوچلااس کے پاؤں زمین پرنہیں ٹک رہے تھے، وہ سوچتا رہا، یہ ہزارروپے ماں کے ہاتھ پررکھوں، باباکو دوں، مولوی صاحب نے میری تربیت کی ہے ان کاحق زیادہ ہے یادوست جس نے مجھے ہنردیا، اس نے ماں سے مشورہ کیا، ماں نے کہا رقم بابا کودو وہ خوش ہوں گے۔
وہ جب سے دکان پر کام کرنے لگا تھا، اس کے باپ نے اسے ڈانٹناکم کردیا تھا۔ اسے وہ رات بھی یادتھی جس میں اس کی ماں باباکی پائینتی بیٹھی سمجھانے کے انداز میں کہہ رہی تھی ’’اولاد جوان ہوجائے تو اسے مارا کرتے ہیں نہ بے جاڈانٹاکرتے ہیں، اولاد کی بھی عزتِ نفس ہوتی ہے، وہ مجروح ہوتی ہے اولاد زِچ ہوکرخودکشی کرلیتی ہے یاباغی ہوجاتی ہے۔ ہمارے بیٹے کی صحت کمزور ہے پھربھی وہ دلجمعی سے کام سیکھ رہاہے۔‘‘اس کی ماں توپڑھے لکھے لوگوں جیسی باتیں کررہی ہے۔
وہ جھجکتے ہوئے باپ کی کمرے میں داخل ہوا۔
’’بابا.....‘‘
اخبار سے نظریں اُٹھاکر اس نے بیٹے کودیکھا۔
’’کہو.....‘‘
’’بابا..... یہ ہزارروپیہ۔‘‘
’’کہاں سے آیا ہے؟‘‘
’’بابا..... میری اپنی محنت ہے۔‘‘
(۴)
(کہانی بہت طویل ہے، سارے ٹکڑے جوڑے جائیں تو کہانی ناول میں ڈھل جائے گی، کسی بھی شخص کی عمرطبعی کوناول، افسانے اورڈرامے میں ڈھالنابھی جانکاہی ہے، کہانی مکمل کرنے کے لیے ایک ایک ٹکڑا جوڑنا ضروری ہے، لباس میں پیوندلگے ہوں توبھی وہ لباس ہی کہلاتا ہے)
وہ’’کاویا‘‘پکڑے قلعی کی آمیزش سے ایک ریڈیوکے سرکٹ میں ٹانکا لگارہاتھا کہ ایک آواز پر چونکا۔ آواز کسی نے دکان کے باہر سے دی تھی۔
’’میکینک‘‘..... پکارنے والا شخص کارمیں بیٹھا تھا۔
وہ بادلِ ناخواستہ اُٹھ کر گیا۔
’’ہماراٹی وی خراب ہے گھرچل کردیکھنے کاکتنالوگے؟‘‘
’’جی میں ڈاکٹر نہیں ہوں۔‘‘
’’خوب خوب.....‘‘سفیدکنپٹیوں والاشخص ہنسا۔
’’سامان اُٹھاؤ اورمیرے ساتھ چلو۔‘‘
اس نے شاپرمیں اپنی ٹول کٹ ڈالی، ڈیجیٹل میٹر، پلاس، پیچ کس، قلعی کاٹانکا لگانے کے لیے’’کاوِیا‘‘.....!
گھراتنی مسافت پرنہیں تھا، احمدندیم قاسمی کے افسانے گھرسے گھرتک کاقالین کسی نے اس گھر میں لابچھایاتھا وہ جوتیاں اُتارنے لگا تواس شخص نے کہا۔
’’یہاں یہ تکلّفات نہیں چلتے۔‘‘
’’میکینک تمہاری چائے ٹھنڈی ہوگئی ہے پہلے چائے پی لو۔‘‘کمرہ حُسن کی آوازسے جگمگا اُٹھا۔
اس نے انگشتِ شہادت اورانگوٹھے کی مددسے چائے پرسے بالائی کی تہہ ہٹائی اُسے پِرچ کے کونے پر جمایااورٹھنڈی چائے کاگھونٹ لیا۔
ٹی وی مرمت ہونے پرمزدوری کاپوچھاگیا۔
’’پچاس روپے.....‘‘
’’صرف پچاس روپے‘‘لڑکی نے تحیرآمیزلہجے میں سوال کیا۔
’’میں ڈاکٹرنہیں ہوں۔‘‘
سفیدکنپٹیوں والاشخص پھرہنسا..... اس نے میکینک کوپانچ سو روپے پکڑائے، اس نے باقی رقم واپس کردی.....
’’عجیب میکینک ہے؟‘‘
وہ اس گھرکا فردہوگیا، پچاس روپے کی دیانت داری سے۔
زندگی اپنی رو میں بہتی رہی۔ شام وسحر کے پیمانوں میں وہ اپنی عمرکے سانس پورے کرتارہا، بازار میں اس کی دکان کووقت کے ساتھ ساتھ مرکزی حیثیت حاصل ہوتی چلی گئی، سفیدکنپٹیوں والے شخص نے اسے جس نام سے منسوب کیا تھا، وہ اس کے نام کاسابقہ لاحقہ کی بجائے مکمل پہچان بن گیا۔
’’اوئے چھوٹے بھاگ کے جا..... یہ چارچائے میکینک کی دکان پر دے آ.....‘‘
’’یارکمیٹی ڈالنی ہے توپہلے اپنے میکینک یارکوبلاؤ.....‘‘
’’چھوڑویار..... انجمن ضروربنانی ہے کیا؟جوبنانااتناہی ناگزیر ہے تو صدر میکینک کو چُن لو۔‘‘
’’وہ عزت کاسمبل بن گیا.....‘‘
گھرپرجاکر مزدوری کرنے کووہ اپنی زندگی کاحصہ نہ بناسکا، لیکن سفیدکنپٹیوں والے شخص کے ساتھ اس کی دوستی تعلق اس طوراستوار ہواکہ وہ فون آنے پر بھی ان کاکام نمٹا آتا، ایک دن وہ ان کے گھرسے Play Stationکی Cleaningکاکام مکمل کرکے نکل رہا تھا کہ نقرئی آواز اس کے پاؤں کی زنجیربن گئی.....
’’میکینک تم بڑے مغرورہو.....!‘‘
’’نہیں..... ایسی کوئی بات نہیں.....‘‘
’’تم روبوٹ ہوکیا؟ناک کی سیدھ میں آئے، کام کیا اورچلے گئے۔‘‘
’’انسان روبوٹ ہی توبن کررہ گیا ہے جی۔‘‘
’’لیکن جو پانچ سو روپے میں سے ساڑھے چارسو روپے لوٹادے وہ روبوٹ نہیں ہو سکتا..... بیٹھو..... چائے پی کے جانا.....‘‘
’’دکان پر کام کا رَش چل رہاہے.....‘‘
’’پندرہ منٹ میں چائے بن جائے گی، دوچارگاہک اورآجائیں گے..... تمہارے رزق میں اضافہ ہوجائے گا۔‘‘وہ وہیں لان میں بچھی کرسی پربیٹھ گیا..... مالی پودوں کو پانی لگا رہا تھا، مالی نے پائپ ایک کیاری سے نکال کر دوسری میں ڈالااور کھرپہ لے کرپودوں کی گوڈی کرنے لگا.....
’’یہ سب لوگ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں.....‘‘میکینک نے مالی کودیکھ کر کہا.....
’’کیسے لوگ.....؟کون سے.....؟‘‘
’’یہ جو اپنے ہاتھ سے کماکرکھاتے ہیں.....‘‘
’’اس میں توشک نہیں.....‘‘
’’میکینک تمہیں معلوم ہے آج میں نے تمہیں کیوں روکا ہے.....؟‘‘
’’کمپیوٹرمیں کوئی مسئلہ ہوگیا ہوگا۔‘‘
’’نہیں تو.....‘‘
’’آج تمہارا مسئلہ ہے.....‘‘
’’میں سمجھانہیں.....!‘‘
’’میکینک یہ بتاؤ تم ایک عرصے سے ہمارے گھرآرہے ہو.....‘‘
’’جی.....‘‘
’’پچھلے ایک دوماہ سے میں نے ایک بات نوٹ کی ہے، اس کی جستجونے تمہیں روکنے پر مجبورکیا ہے۔‘‘ایک گہراسناٹاتھا جولان میں پھیل گیا، عجیب سی چپ تھی جوپودوں کے پتوں پرگرد کی مانند جمی تھی، فضامیں پرندے اڑان بھول گئے تھے یا اس کی نگاہیں ساکت تھیں، لڑکی کے چہرے پرمحبت کاکوئی پرتونہیں تھا لیکن ایک فکرمندی تھی جو اس کی آنکھوں سے جھلکتی تھی، جھلکتی فکر مندی نے اسے بھی متفکرکردیا، یہ میرے بارے کیا سوچ رہی ہے، مان لیا میں مدت مدید سے یہاں آجارہاہوں، مجھے اس گھر کے دیوارو دَر سے اُنس ہے، ہراینٹ مجھ سے مانوس ہوچلی ہے لیکن اتنی اہمیت.....؟اوروہ بھی بازارمیں بیٹھے ایک میکینک کو.....!اس لڑکی نے اتنی تمہیدکیوں باندھی ہے..... بات کہنے میں اتنی دیر کیوں کردی جاتی ہے؟ سانسیں اپنی رفتار بھول جاتی ہیں.....
’’میکینک میری بات سن رہے ہو..... نا‘‘
(نوکرانی چائے رکھ گئی)
’’جی.....‘‘
’’میں دیکھ رہی ہوں تمہارے چہرے کارنگ زردہوچلاہے، تمہیں کیاروگ ہے؟‘‘
’’روگ توکوئی نہیں.....‘‘
’’گردوں میں درد رہنے لگاہے.....‘‘
’’مکمل چیک کرایا.....؟مثلاًالٹراساؤنڈ وغیرہ‘‘
’’نہیں جی.....‘‘
’’میں نے پاپاسے کہاہے..... تمہیں کل صبح.....!‘‘ابھی بات اس کے منہ میں تھی کہ سفیدکنپٹیوں والاشخص لان میں داخل ہوا اوران کے ساتھ بیٹھ گیا.....
’’تو..... پاپامیں اس سے کہہ رہی تھی کل صبح یہ آجائے آپ اس کامکمل چیک اپ کرا دیں.....‘‘
’’کیوں نہیں کیوں نہیں..... میکینک تم صبح خالی پیٹ آجانا..... تاکہ جو Fasting Test ہوتے ہیں ان میں پریشانی نہ ہو۔‘‘
’’جی..... ایسی کوئی بات نہیں میں دوائی لے رہاہوں آپ کا بہت بہت شکریہ..... گردے کامعمولی درد ہے آرام آجائے گا.....!‘‘
’’میکینک..... بڑوں کاکہامانتے ہیں..... بس یہ آخری فیصلہ ہے تم صبح آرہے ہو۔‘‘
(۵)
ہسپتال میں جمگھٹاتھا.....
یہ چیک اپ کے چندہفتوں بعدکی بات ہے..... وہ دکان میں کام کرنے میں مگن تھا کہ گردوں میں درد کی ٹیسیں شدیدتر ہونے لگیں، کپڑے کی دکان والے بزرگ نے دکان کا شٹر گرایا، اپنی گاڑی نکالی، شواسٹور والے نے اپنے بیٹے کودکان سنبھالنے کوکہااور کارکی پہلی سیٹ پر بیٹھ گیا، حُسنِ اتفاق ہے مولوی صاحب باربرشاپ میں بال ترشوارہے تھے..... کہ ایک لڑکے نے کہا.....
’’استادجی..... اپنے میکینک کوبڑاشدیددرداٹھاہے اسے ہسپتال لے جارہے ہیں۔‘‘
مولوی صاحب نے باربرکاہاتھ روک لیا..... اوردکان سے اٹھ آئے..... سوزِدروں رکھنے والے سارے اس کے ساتھ ہولیے..... کسی نے گھر اطلاع کی اس کابوڑھا باپ..... ماں اور بھائی پہنچ گئے..... اسے ہسپتال داخل کرلیاگیا.....
اسے بسترپرلیٹنے سے الجھن ہونے لگی یہ اس کے مزاج کاحصہ نہیں تھا، لیکن علاج ضروری تھا..... سب اس کے اردگردموجودرہے، بچپن کے دوست، مولوی صاحب، دکان دار، سفیدکنپٹیوں والا، ماں باپ..... ان سب کے درمیان موت بھی کہیں درمیان میں ہی گھوم رہی تھی کوئی بھی اسے نہ دیکھ سکا۔
موت گھومتی رہی.....!
ہسپتال کی کھڑکیوں کے شیشوں سے چھن چھن اندرآتی موت..... ہسپتال کے مین گیٹ تک جاتی پلٹتی موت، اس کے بسترپر بیٹھی اس سے سرگوشیاں کرتی موت..... موت جوازل سے ہماری رفیق ہے، کسی کو نظر نہیں آتی، موجودرہتی ہے، اس لمحے جس لمحے ہم پہلا سانس لیتے ہیں، انسان جنم لیتاہے..... انسان کے ساتھ موت جنم لیتی ہے..... موت کو بینائی نہیں پاسکتی، وہ سانس کی رفتار کے ساتھ ساتھ چلتی ہے، میکینک کے ساتھ بھی وہ چل رہی تھی، اسے معلوم نہیں تھا، کسی کومعلوم نہیں ہوتا، وقت معیّن ہے پھربھی معلوم نہیں..... میکینک کے والدکوبھی معلوم نہیں تھا..... موت وہاں ہسپتال میں تھی یانہیں..... کسی کومعلوم نہیں تھا.....
جس صبح سورج کی کرنوں سے موت دبے پاؤں اُتری میکینک کے بستر پر مسکراہٹ تھی..... خبراس وقت ہوئی جب شٹرگرے اورچھوٹے سے بازار کی سب دکانیں بندہوگئیں۔
(آخری منظر)
سورج اب بھی کوارٹروں کی اس قطارسے کنّی کترا کے گزرتاہے، سردیوں میں دھوپ کی قلّت ہونے سے ان کوارٹروں کے مکین گلی میں نکل بیٹھتے ہیں۔ مردڈیوٹی پرجاتے ہیں توعورتیں گھرکاکام نمٹاکر کشادہ گلی میں چارپائیاں ڈال کر بیٹھ جاتی ہیں اور کچرکچرباتیں کرتی ہیں.....
ان میں ایک کردارکااضافہ ہوگیاہے.....!
ایک بوڑھاشخص ٹوٹی چارپائی دروازے کے سامنے ڈالے ہرآنے جانے والے سے سوال کرتا ہے.....
’’اے بھائی..... اے بابا..... بیٹا..... اوبیٹا..... بی بی..... میری بات توسنو۔‘‘
’’میکینک کہاں گیا.....!‘‘