مظلوم افغانیوں کو امریکہ نے انتہا پسند کیسے بنایا؟

افغانستان سے امریکی انخلا کے دوران  میڈیا میں  یہ سوال گونج رہا تھا کہ ہم نے بیس سال افغانستان میں  کھربوں ڈالر اور ہزاروں جانیں گنوا کر  کیا حاصل  کیا؟؟ افغانستان تو آج بھی اسی ٹوٹی پھوٹی حالت میں ہے جیسے آج سے بیس سال قبل تھا۔  لیکن یہ غلط ہے ۔ کیونکہ افغانستان  اب اس سے کہیں بدتر حالت  میں ہے  جس میں  وہ آج سے بیس سال قبل تھا۔ ہم تو اسے دہشت گردوں کی اماج گاہ بننے سے روکنے آئے  تھے لیکن یہ آج پہلے سے بڑھ کر انتہا  پسندوں اور دہشت  گردوں سے  خطرے میں ہے۔

 میں نے  (بوسنیا میں) نسل کشی سے بچ جانے کے بعد بطور ماہر تعلیم بارہا دیکھا ہے کہ انتہائی روادار مسلمان بھی    خود پر ہوتے مظالم  دیکھ کر بنیاد پرستی کا شکار ہو   جاتا ہے۔

میں نے برسوں  اپنے ہی لوگوں یعنی  بوسنیا ہرزگوینا میں بنیاد پرستی کے رجحانات کا مطالعہ کیا ہے۔ بوسنیائی مسلمانوں کو طویل عرصے سے دنیا کی سب سے زیادہ روادار مسلم کمیونٹی سمجھا جاتا  تھا۔ لیکن آج، بوسنیائی باشندوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد نے  ان رجحانات کو اپنانا شروع کر دیا ہے جو القاعدہ ، داعش (ISIS) یا  بوکو حرام کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

انتہا پسندی، دراصل  احساس، تعلق، پہچان اور عزت  سے محروم افراد کی جانب سے ، بے صبری کے ساتھ، گمراہ کن، طاقت ور ہونے  کے راستے کی تلاش کا نتیجہ ہے۔ 

آج سے  تقریباً تین دہائی قبل 1992 سے 1995 کے آخر  تک بوسنیا جہنم کی مانند تپتا رہا۔ 1992 میں جب سربین فوج نے حملہ کیا تو

ہمارے پاس اپنے دفاع کے لیے کوئی ہتھیار نہیں تھے لہٰذا سربیائی افواج نے حملہ کیا اور مقامی سربوں کی مدد سے ملک کے بیشتر حصے پر تیزی سے قبضہ کر لیا۔ اس دوران، امریکہ اور یورپ نے بوسنیائی باشندوں کے خلاف نسل کشی، جنگی جرائم اور اجتماعی عصمت دری کو اپنی آنکھوں کے سامنے  ہوتے ہوئے خاموش تماشائی بننے کا فیصلہ کیا۔ ہزاروں اموات، بہت سی عصمت دریاں  اور مہینوں کے ناقابل برداشت مصائب کے بعد، نیٹو بالآخر تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے آگے بڑھا۔ لیکن پھر، اس نے ملک کا آدھا  حصہ ان سربیوں کو دے دیا، جنہوں نے یا تو نسل کشی کی تھی یا خاموشی سے اسے ہوتا دیکھ رہے تھے۔

نسل  کشی اور اس کے مرتکب افراد کو انعام کے طور پر سربرینکا نوازنے کے فیصلے نے کچھ بوسنیائی باشندوں پر بنیاد پرستی کا اثر ڈالا ہے۔ اور میری تحقیق نے مجھے دکھایا کہ یہ رجحان آج تک جاری ہے۔

اگر بوسنیا کے مسلمان، جو تاریخی طور پر اپنی رواداری، برداشت اور دوسرے مذاہب کو برداشت کرنے  کے لیے مشہور ہیں، بنیاد پرست بن سکتے ہیں، تو پھر اس کا شکار کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ تشدد   سہنے کا تجربہ بنیاد پرستی کے پنپنے کے لیے  ایک اہم عنصر ہے۔  صدمہ مکمل طور پر ایسے شخص کو بدل کر رکھ دیتا ہے جو شدت سے اپنے درد، نقصان،  اور صدمے کا  مداوا چاہتا ہے۔

یہ میں نے خود محسوس کیا ہے۔ اپنے آبائی شہر بیہاک میں بلیو برج پر سرب توپ خانے کے حملے میں بچ جانے کے بعد، میں نے اقوام متحدہ کی کار کو دیکھا۔ میری عمر صرف 17 سال تھی۔ مجھے یقین تھا کہ وہ مدد کرنے آ  رہی ہیں۔ لیکن میری اور  دوسرے متاثرین کی  مدد کے لیے رکنے کے بجائے وہ پل بھر میں  غائب ہو گئی۔ اس لمحے میں نے محسوس کیا کہ دنیا واقعی سڑکوں پر پھیلے   بوسنیائی باشندوں کی لاشوں تک کی پرواہ نہیں کرتی۔ اس دوران میں نے ایک لڑکی کی مدد کرنا چاہی۔ اس کا چہرہ دھماکے سے اڑ چکا تھا۔ اسے دیکھ کر میرے اندر  غصے اور نفرت کے جذبات بھڑک اٹھے۔  ان دہشت اور صدمے کے لمحات کے دوران ، میں نے  کچھ کر گزرنے کی ایک زبردست  تحریک محسوس کی۔  - کچھ  بھی ایسا جو اس بات کو یقینی  بناتا کہ یہ میرے یا ان لوگوں کے ساتھ دوبارہ کبھی نہیں ہوگا جن سے میں پیار  کرتی ہوں۔ خوفناک خیالات ،جن سے  پہلے میں بالکل ناواقف تھی، میرے سر  میں گونجنے لگے۔  میں سوچنے لگی کہ اگر ہم اپنے قاتلوں کو یا  ان کے معصوم بچوں کو ذبح کرکے جواب دیں تو کیا ہوگا؟ کیا یہ جائز ہوگا؟ کیا یہ انہیں ہمارے خلاف نسل کشی کرنے سے روک دے گا؟

میں ہر سرب، ہر عیسائی، ہر امریکی سے نفرت کر  سکتی  تھی، کیونکہ انہوں نے میرے صدمے ، میری تکلیف میں حصہ ڈالا تھا۔ اس سب کے باوجود میں نے پرتشدد راستہ اختیار نہیں کیا۔ میں صدمے سے نکل کر ایک مختلف راستہ منتخب کرنے کے قابل  تھی۔ اس لیے  نہیں کہ میرے اندر کچھ ایسا خاص موجود  تھا، بلکہ اس لیے کہ میں کافی خوش قسمت  تھی کہ مجھے تعلیمی مواقع اور مضبوط خاندانی تعلقات  ملے۔ 1996 میں، نسل  کشی اور سرب محاصرے میں 1,000 دنوں سے زیادہ زندہ رہنے کے بعد، میں امریکہ ہجرت کر  گئی اور مجھے آزادی سے اپنی تعلیم جاری رکھنے کا موقع  مل گیا۔ میرے والدین، اساتذہ اور سرپرستوں نے مجھ میں لچک پیدا کی   ۔ بنیاد پرستی کے خلاف اس حفاظتی جال نے مجھے  بچا لیا اور مجھے عدم تشدد کے راستے پر ڈال دیا۔ لیکن کیا  ہوتا اگر مجھے یہ سب میسر نہ آتا۔ میں ایک نوعمر  تھی جس کے سامنے اس کے پیاروں پر ستم ڈھائے گئے۔ دنیا اس وقت تماشائی بنی رہی۔ میں صدمے اور تکلیف کی حالت میں تھی۔ کوئی سہارا، صدمے سے نکلنے کا کوئی قابل عمل راستہ نہیں تھا؟ میں بھی  انتہا پسند ہو  سکتی  تھی۔

افغان بھی بوسنیا  کے باشندوں سے مختلف نہیں  ہیں۔ افغان کیا، ہر وہ انسان جو تشدد کا شکار ہوا ہے اسے  انتہا پسندی کے خطرے کا سامنا ہے۔

آج، افغان صدمے اور تشدد کا شکار ہوئے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ایک بیرونی طاقت نے انہیں دھوکہ دیا ہے جو مبینہ طور پر ان کی مدد کے لیے آئی تھی، لیکن آخر کار ان کی حالت بدتر ہو گئی۔ وہ 10 لاکھ بچوں کے ساتھ معاشی بدحالی میں زندگی گزار رہے ہیں اور بھوک کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ان کے پاس تعلیمی مواقع بھی بہت محدود ہیں ۔ لاکھوں افغان بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں اور انہیں اچھے مستقبل کی بہت کم امید ہے۔

2001 سے اب تک امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں لاکھوں افغان شہری مارے گئے۔ بین الاقوامی این جی او،  سیو  دی چلڈرن (Save the Children)کے مطابق افغانستان میں گزشتہ 20 سالوں کے دوران تقریباً 33,000 بچے شہید اور معذور ہوئے ہیں یعنی اوسطاً ہر پانچ گھنٹے میں ایک بچہ۔ جیسا کہ حال ہی میں اس سال اگست  میں ہوا، ایک امریکی فضائی  حملے میں - ایک ہی خاندان کے 10 افراد مارے  گئے۔ بعد میں، یہ انکشاف ہوا کہ جس خاندان پر حملہ کیا گیا، اس کا "دہشت گرد" گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

افغانیوں کی نظر میں، یہ متاثرین صرف اعداد و شمار نہیں ہیں، اور انہیں  کولیٹرل ڈیمج  (collateral damage)کے  طور پر نہیں لکھا جا سکتا۔ وہ باپ، مائیں، بیٹے اور بیٹیاں ہیں جو امریکی بموں سے ، یا امریکی موجودگی کی وجہ سے مارے گئے ۔ ان شہادتوں  میں سے ہر ایک   ، افغانیوں کے دل پر ایک داغ ہے۔ یہ بات، جزوی طور پر یہ بتاتی ہے کہ کیوں طالبان نے اتنی آسانی سے قابل پر قبضہ کر لیا۔ 

20 سال کے قبضے کے بعد امریکہ اس سال افغانستان سے نکل چکا ہے۔ اور افغانوں کو ایک بار پھر  انتہا پسند ہونے کے خطرے کا سامنا ہے، شاید اس سے بھی زیادہ جو وہ 2001 سے پہلے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں  ایسے حالات پیدا نہیں  کیے جن  سے  لوگوں کو وہ تعاون حاصل  ہو  جو انہیں اپنے صدمے سے باہر نکلنے کے لیے تعمیری راستہ  تلاش کرنے میں مدد فراہم کر سکے۔ اور وہ ہو بھی ایسا صدمہ جسے پیدا کرنے میں امریکہ نے  اگر بنیادی کردار نہیں تو اہم کردار لازماً  ادا کیاہو۔

اگر مغرب کی افغانستان  میں مداخلت  سے کوئی سبق سیکھنا چاہیے تو وہ یہ ہے کہ وہ لوگ، جن کو اپنے صدمے  سے نکلنے کی کوئی  مدد ، امید یا  حمایت نہیں ملتی وہ وہ  انتہا  پسندی کا آسان ہدف بن جاتے ہیں۔

متعلقہ عنوانات