مزید کچھ نہیں بولا میں ہو گیا خاموش
مزید کچھ نہیں بولا میں ہو گیا خاموش
اس اہتمام سے اس نے مجھے کہا خاموش
اب ایسے حال میں کیا خاک گفتگو ہوگی
کہ ایک سوچ میں گم ہے تو دوسرا خاموش
سو یوں ہوا کہ لگا قفل نطق و لب پہ مرے
میں تم سے مل کے بہت دیر تک رہا خاموش
جب اہتمام سے روندا گیا وجود مرا
تو سامنے وہ کھڑا تھا گریز پا خاموش
میں جانتا ہوں مری سر کشیدگی کا سبب
سو مجھ سے بات نہ کر میرے ناصحا خاموش
سماعتوں میں نئی گونج کس نے رکھی ہے
کہ ہر طرف سے اٹھی ایک ہی صدا خاموش
میں ایک دشت تمنا میں نیم زندہ ہوں
حواس باختہ گھائل برہنہ پا خاموش