شوہروں کو زیست ہے بارِ گراں سسرال میں (مزاحیہ نظم)
شوہروں کو زیست ہے بارِ گراں سسرال میں
یاد آ جاتی ہیں سب کو نانیاں سسرال میں
دوستوں کی انتقامی کاروائی دیکھئے
لے گئے ہنستے ہنساتے بے ایماں سسرال میں
میں کہ ہوں پابستۂ تقدیر جرمِ عقد پر
مجھ سے پوچھیں شوہروں کی داستاں سسرال میں
سر بچانے کی تمنا جھوٹ کی مرہون ہے
اِک قفس کو کہہ رہا ہوں آشیاں سسرال میں
وہ سمجھتے ہیں کوئی گونگا نصیبوں پڑ گیا
آج تک کھولی نہیں میں نے زباں سسرال میں
مل گیا ہوں میں اُنہیں مشقِ ستم کے واسطے
چین لینے دیتے ہیں سالے کہاں سسرال میں
رمبا سمبا کس طرح آئے کہ جب موجود ہیں
ناچ تگنی کا نچانے سالیاں سسرال میں
ساس کو درکار کیوں ہے صرف بیگم کا مفاد
ازروئے قانون ہیں میری بھی ماں سسرال میں
ایک اسرائیل کی اسٹیٹ لگتی ہے مجھے
یوں زمیں ہے تنگ بہرِ بیکساں سسرال میں
کیا کروں سسرال والے جب مرے گھر آ بسیں
ٹھیک ہے اچھا نہیں لگتا میاں سسرال میں
جرم ایسا کون سا سرزد ہوا ہے آپ سے
آپ کیوں جائیں نصیبِ دشمناں سسرال میں
صاحبِ تکریم مجھ کو آپ ہی کہہ لیجئے
آپ نے دیکھا نہیں مجھ کو وہاں سسرال میں
میر کا دیوان پڑھ کر مجھ کو لگتا ہے ظفر
زندگی گزری ہے اِن کی بے گماں سسرال میں