مزاح
مزاح جس کو غلطی سے مذاق کہنے لگے ہیں، انسان کی ایک جبلی خاصیت ہے جو کم و بیش تمام افرادمیں پائی جاتی ہے۔ مزاح کو عربی، فارسی اور اردومیں تین مختلف القاب دیئے گئے ہیں، یعنی(۱) مطائبہ(۲) خوش منشی(۳) خوش طبعیتینوں لقب اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ مزاح کا موضوع ’’خوشی‘‘ کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔ روزانہ محنت و مشقت جو ہر انسان کا فرض ہے اس کے بعد ہر شخص ایسے مشغلے ڈھونڈتا ہے جن سے تھوڑی دیر دل بہلے اور دن بھر کی کوفت رفع ہو اور ایسے اوقات میں کوئی مشغلہ مزاح سے بہتر نہیں ہے۔ ہم اپنی زبان میں مزاح کا ترجمہ ہنسی، چہل، دل لگی، ٹھٹھول وغیرہ کر سکتے تھے۔ افسوس ہے کہ اب ہماری زبان میں یہ الفاظ صرف مزاح کے مترادف نہیں رہے بلکہ شہدپن، مسخرگی، فحش، دشنام، بے حیائی، دھول دھپا، جوتی بیزار بھی شامل ہیں۔مزاح جب تک مجلس کا دل خوش کرنے کے لئے (نہ کہ کسی کا دل دکھانے کے لئے) آ جائے، ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا یا ایک سہانی خوشبو کی لپٹ ہے جس سے تمام پژمردہ دل باغ باغ ہو جاتے ہیں۔ ایسا مزاح فلاسفہ وحکما بلکہ اولیا وانبیانے بھی کیا ہے۔ اس سے مرے ہوئے دل زندہ ہوتے ہیں اور تھوڑی دیر کے لئے تمام پژمردہ کرنے والے غم غلط ہو جاتے ہیں۔ اس سے جو دت اور ذہن کو تیزی ہوتی ہے اور مزاح کرنے والا سب کی نظروں میں محبوب اور مقبول ہوتا ہے۔ برخلاف اس کے جب وہ اس حدسے بڑھنے لگتا ہے تو دم بدم ہولناک ہوتا ہے اور آخر کو اس سے بجائے محبت کے دشمنی اور بجائے خوشی کے غم پیدا ہوتا ہے۔ وہ اخلاق کو اس طرح کھاجاتا ہے جیسے لوہے کو زنگ یا لکڑی کو گھن۔ مزاح کرنے والا ایسا بے دیدہ ہو جاتا ہے کہ خدا اور رسول پر بھی اس کی ایک آدھ پھبتی ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ وہ ایسا کذاب ہو جاتا ہے کہ بری خبریں جن کو سن کر خاص یا عام لوگوں کو رنج ہو، نہایت خوشی سے اڑاتا ہے۔ وہ ایسا بے غیرت ہو جاتا ہے کہ اس کو سخت سے سخت گالی پھبتی ناگوار نہیں گزرتی۔ وہ ایسا مفسد ہو جاتا ہے کہ باتوں باتوں میں لڑائی کرادینی اس کے نزدیک ایک کھیل اور معمولی بات ہوتی ہے۔ غرض تمام دنیا کے عیب مزاح کی زیادتی سے انسان میں پیدا ہو جاتے ہیں۔مزاح کے بڑھنے کے مختلف اسباب ہوتے ہیں مگر ہم یہاں وہ خاص سبب بیان کرنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے مزاح کسی خاص قوم میں رفتہ رفتہ تمسخر اور استہزا، فحش و دشنام کے درجہ کو پہنچ کر انسانی خصلت سے ایک قومی خصلت بن جاتا ہے اوراس قدرعام ہو جاتا ہے کہ اس کی برائی اور عیب نظروں سے ساقط ہو جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل ہنسی اور چہل میں جو امتیاز ہماری قوم کو حاصل ہے وہ تمام ہندوستان میں کسی قوم کو حاصل نہیں ہے۔ جتنے ضلع پھکڑ بولنے والے اور پھبتیاں کہنے والے پیدا ہوتے ہیں اسی قوم میں پیدا ہوتے ہیں۔ جتنی گالیاں ایک مسلمان شریف زادہ کو یاد ہوتی ہے کسی کو نہیں ہوتیں۔ تمام ہندوستان میں جتنے پنچ اخبار ہیں ان کے ایڈیٹر، پروپرائٹر (مالک) اور کارسپانڈنٹ (نامہ نگار) اسی قوم کے زندہ دل ہیں۔ ہندوستانی امیروں اور امیرزادوں کی مجلس میں جتنے مسخرے اور رونقِ محفل پاؤگے اسی قوم کے پاؤگے۔ واعظوں میں جتنے لطیفہ گو اور بذلہ سنج دیکھوگے اسی قوم کے پاؤگے۔فحش اور بے حیائی کی کتابوں میں ایک بھی ایسی نہ ہوگی جس کا مصنف مسلمان نہ ہوگا۔ مناظرہ کی کتابیں اسی قوم کے عالموں کی ایسی نکلیں گی جن میں ستم ظریفی کاپورا پورا حق ادا کیا گیا ہو۔ شاعرو ں میں کوئی ہاجی، ہزل گو، ریختی گو اور گندہ دہن ایسا نہ ہوگا جو قوم کا مسلمان نہ ہو۔ داستان کہنے والوں میں صرف ایک شخص ایسا سنا گیا ہے جو اصل میں قوم کا مسلمان نہیں لیکن آخر اس کو بھی مسلمان ہونا پڑا۔ الغرض اس قوم کی فصاحت، ذہانت اور فضیلت جس قدر مزاح میں صرف ہوتی ہے ویسی کسی اور کام میں نہیں ہوتی۔ یہاں نہایت تعجب کے ساتھ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کمینہ خصلت اسی کے حصہ میں کیوں آتی ہے ؟ شاید اس کا یہ جواب دیا جائے کہ تنزل کے زمانے میں ایک قوم کے فضائل رذائل کے ساتھ بدل جاتے ہیں اور تمام کمینہ خصلتیں اور سفلہ عادتیں خاص وعام میں خواہ مخواہ پیدا ہو جاتی ہیں۔ لیکن غور کرنے کے بعد یہ جواب کافی معلوم ہوتا ہے کیونکہ ابھی یہ بات غیر منفصل ہے کہ قومی تنزل اخلاق کے بگڑنے کا باعث ہوتا ہے یا اخلاق کا بگڑنا قومی تنزل کا باعث ہوتا ہے۔ پس وہی سوال اب بھی باقی رہتا ہے۔البتہ ایک اور جواب ہمارے خیال میں آتا ہے جو غور کے قابل ہے۔ ادنی تو جہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مزاح کو جس قدر تعلق زبان اور الفاظ سے ہے ایسا اور کسی سے نہیں۔ خاص خاص صورتوں کے سوا ہمیشہ ہنسی اور چہل الفاظ ہی کے پیرایہ میں کی جاتی ہے۔ اس زمانے میں جبکہ انسان کی اخلاقی تعلیم طفولیت کی حالت میں تھی اور اس منہ زوری اور بدلگامی کا چنداں انسدادنہ ہوا تھا، ضرور ہے کہ مزاح اور ظرافت ان قوموں میں زیادہ رواج پایا ہوگا جن کی زبان میں اس کی زیادہ قابلیت تھی۔ جہاں تک ہم کو معلوم ہے کہہ سکتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے میں عرب کی زبان اس وقت کی تمام زبانوں کی نسبت اس بات کی زیادہ قابلیت رکھتی تھی، اس میں الفاظ کثرت سے تھے جو دو معنی رکھتے ہوں اور دونوں ایک دوسرے کی ضدہوں۔ جیسے مولی کہ آقا اور غلام دونوں کو کہتے ہیں۔ اس میں ایسے الفاظ بھی بکثرت تھے جو بہت سے مختلف معنوں کے لئے وضع کئے گئے ہوں۔ جیسے عین کہ آنکھ، چشمہ، ذات اور سونے کو کہتے ہیں۔ اس میں مترادف الفاظ بھی بے شمار تھے۔ یعنی ایک ایک معنی کے لئے کئی لفظ مستعمل ہوتے تھے جیسے اسد، لیث، غضنفر وغیرہ۔اس وقت عرب میں شاعری کا زور بھی اس قدر تھا کہ دنیا کی کسی زبان میں نہ تھا اوراس سبب سے مجاز کنایہ اور استعارہ کا وہاں سب جگہ سے زیادہ برتاؤ تھا۔ یہ تمام باتیں جو اوپر بیان کی گئیں ایسی ہیں جو اہل زبان کو مزاح کی طرف خود بخود مائل کرتی ہیں کیونکہ مزاح میں زیادہ تر ایسے ہی لفظوں کا استعمال ہوتا ہے۔ مزاح میں جو خوشی متکلم اور مخاطب کو حاصل ہوتی ہے وہ ایک طبعی بات ہے۔ اگر اس کی مزاحمت نہ کی جائے تو ضرور رفتہ رفتہ وہ حد اعتدال سے متجاوز ہو جاتا ہے اور تمسخر و استہزا بلکہ فحش و دشنام تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔عرب کا بھی ایسا ہی حال ہوا۔ جس وقت خدا تعالیٰ نے خاتم النبیین کو مبعوث فرمایا اس وقت یہ ذمیم خصلت ان میں حد سے زیادہ پھیلی ہوئی تھی۔ ان کے ہاں سب وشتم وقذف کا کچھ عیب نہ تھا۔ ان کے مرد مردوں سے اور عورتیں عورتوں سے تمسخر و استہزا کرتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو برے ناموں اور برے القاب سے یاد کرتے تھے، ان کے اشعار میں ہجو اور فحش کثرت سے ہوتا تھا۔ چنانچہ بہت سی آیتیں قرآن میں اوربہت سی حدیثیں صحاح میں ایسی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مزاح، سخریت، استہزا، سب، لعن، قذف، فحش، بذاءت، لمز اور تنابز بالالقاب ان کے ہاں شدت سے رائج تھا۔ آں حضرت ؐ کی پاک تعلیم سے جیسا کہ آگے ذکر کیا جائےگا چند روز میں یہ تمام برائیاں نیست و نابود ہو گئیں اور صر ف اس قدر مزاح باقی رہ گیا جو سوسائٹی کے لیے باعث زینت ہے۔خلافت راشدہ کے زمانے میں بھی یہی حال رہا بلکہ جو لوگ صاحب ہیبت و وقار تھے وہ اس پسندیدہ مزاح کو بھی پسندنہ کرتے تھے۔ چنانچہ ایک بارحضرت عمر فاروقؓ کے سامنے چند صحابہ کے نام لئے گئے جو اس وقت خلافت کے لائق سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے ہر ایک کی نسبت کچھ کچھ اعتراض کئے اور حضرت علیؓ کے نام پر صرف یہ کہاکہ ھور جل کثیرالدعابۃ یعنی ان کے مزاج میں مزاح بہت ہے۔خلافت راشدہ کا زمانہ گزر گیا اوراسلام میں شخصی سلطنت کی بنیاد پڑی اور وہ وقت آیا جس کی نسبت مخبر صادق ؐ نے ثم یصیر ملکا عضوضا کہا تھا تو تمام طبقات انام کو ایک خاص شخص کی مرضی اور رائے کا تابع ہونا پڑا۔ فقیہوں نے خلفا کے جذبات نفسانی پورے کرنے کے لئے شرعی حیلے تراشنے شروع کئے۔ شعرا کو فاسق و فاجر بادشاہوں کی مدح میں قصائد عزا انشا کرنے پڑے۔ مشیر اور ندیم بجائے مشورہ اور صلاح نیک کے لطائف و مضحکات سے ان کے دل لبھانے لگے۔ چونکہ مزاح اور ظرافت عرب کے خمیر میں تھی۔ گو وہ نبی برحقؐ کی تعلیم سے ایک مدت تک اس کو بھولے رہے لیکن جب زمانے کی حالت خود اس کی محرک ہوئی تو پھر اپنی اصلی خاصیت پر آ گئے، تاہم بنی امیہ کے عہدمیں بہ سبب قرب عہد رسالت کے مزاح اور ظرافت محدود رہی۔بنی عباسیہ کے زمانے میں مزاح نے خوب رونق پائی۔ بذلہ سنج مصاحبوں کی جماعت بھی سامان عیش و نشاط کا ایک جز و اعظم قرار پائی۔ بغیران کے شبستان خلافت سونا سمجھا جاتا تھا۔ سفر اور حضر میں مصاحب اور ندیم خلیفہ کے ہمراہ رہتے تھے۔ پھر جس قدر ان کی فتوحات بڑھتی گئیں یہ رنگ بھی ان کے ساتھ پھیلتا گیا۔ مگر امویہ اور عباسیہ کے اخیر زمانے تک ظاہراً فحش اور ہزل نے مسلمانوں میں چنداں رواج نہ پایا تھا۔البتہ ایران میں جاکر بعض اسباب ایسے جمع ہوئے کہ مزاح حداعتدال سے بہت بڑھ گیا۔ چنانچہ سعدی 1 شیرازی کے مطائبات اور انوری و شفائی 2 کے اہاجی و ہزلیات اور سب سے زیادہ فارسی مصطلحات کی کتابیں اس کی گواہ ہیں۔ وہاں ہنسی اورچہل اس درجہ کو پہنچ گئی تھی کہ اصحاب فضیلت اس کی مشق بہم پہنچاتے تھے، تاکہ اس کے ذریعہ سے تقرب سلطانی حاصل کریں۔ وہاں فحش اورہزل کا نام ’’مطائبہ‘‘ رکھا گیا تھا۔ چنانچہ ’’مطائبات سعدی‘‘ مشہور ہیں۔ وہاں لفظ ظرافت جس کے معنی عربی میں زیر کی اور دانائی کے ہیں، ہنسی اورچہل کے معنوں میں مستعمل ہونے لگا تھا (جیسا کہ آج کل ہندوستان میں بھی مستعمل ہے) یعنی وہی لوگ بڑے لائق و فائق سمجھے جاتے تھے جو ہنسی اور چہل میں کمال رکھتے تھے۔ یہی رنگ ’’چغتائیہ‘‘ کے عہد میں فارسی زبان کے ساتھ ایران سے ہندوستان میں آیا۔اگرچہ اسلام کی سلطنت شخصیہ میں بھی بہت سے بادشاہ جن کو مہمات سے فرصت کم ملی یا جن کے مزاج میں قدرتی ہیبت اور وقار تھا، نہایت سنجیدہ گزرے ہیں، جن کے دربار میں کسی کو بےہودہ گوئی کی مجال نہ تھی۔ مگر اکثر ان کے بر خلاف تھے۔ خصوصا ًوہ جن کا ملک کئی کئی پشت سے خارجی حملوں سے محفوظ تھا اورنہایت اطمینان کے ساتھ عیش وعشرت میں زندگی بسر کرتے تھے۔ انسانی نسلوں کی قدیم سے یہ خاصیت رہی ہے کہ جن کو دولت یا سلطنت ور اثتاً بغیر سعی و کوشش کے ہاتھ لگی ہے اور بغیر کسی مزاحمت کے وہ اپنی حالت پر چھوڑ دیے گئے ہیں، انہوں نے کبھی اس عطیہ غیبی کی کچھ قدر نہیں کی۔ وہ اس کی نگہداشت اور محافظت سے غافل ہوکر عیش وعشرت میں ایسے منہمک ہوئے کہ دنیا و مافیہا کو فراموش کر دیا۔ جب وہ عیش کرتے کرتے تھک جاتے ہیں تواس میں کوئی نئی اختراع کرنی چاہتے ہیں اور جب اس نئی اختراع سے بھی طبیعت سیر ہو جاتی ہے تو اسے اور آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ اب ان کی حالت چوپاؤں اور جانوروں سے بھی بدتر ہو جاتی ہے اور ان کے تمام فضائل مبدل بہ رذائل ہو جاتے ہیں۔ان کی جرأت بے حیائی ہو جاتی ہے، ان کی سخاوت اسراف ہو جاتی ہے، ان کی شجاعت بے رحمی ہو جاتی ہے، ان کی اوالوالعزمی بوالہوسی ہو جاتی ہے، ان کے مذاق ایسے فاسد ہو جاتے ہیں کہ جولذت روح کو پند و حکمت سے ہونی چاہئے وہی لذت ان کو فحش اور ہزل سے حاصل ہوتی ہے۔ جب خود مختار بادشاہوں کی ایسی حالت ہو جاتی ہے تو ملک کے خاص وعام کو وہی روپ بھرنا پڑتا ہے جو ان کے درخور مزاج ہو۔ خصوصاً وہ فرقہ جو مذہب وملت کی رو سے بادشاہ کا ہم قوم ہوتا ہے اورجس کو بہ نسبت اور قوموں کے تقرب اور حضوری کا زیادہ موقع ملتا ہے یا زیادہ امید ہوتی ہے اس کو دربارداری اور مصاحبت کی وہ تمام لیاقتیں پورے اور اکمل طور پر حاصل کرنی پڑتی ہیں جو بادشاہ کے نزدیک لیاقتیں سمجھی جاتی ہیں۔اگربادشاہ کو گانے بجانے کا شوق ہے توہزاروں بھلے مانس گانا بجانا سیکھتے ہیں۔ اگر اس کی طبیعت حسن پرستی اور ہواؤ ہوس کی طرف مائل ہے تو ہزاروں اہل علم غزل، واسوخت اور مثنوی لکھنے میں کمال بہم پہنچاتے ہیں۔ اگروہ خود پسند اور خوشامد پسند ہے تو شعرا کو بھاٹ بننا پڑتا ہے اور قصیدہ گوئی میں یدطولی حاصل کرتے ہیں۔ اگر اس کی ہنسی اور چہل سے رغبت ہے تو ہزاروں سنجیدہ اور متین آدمی مسخرہ پن اختیار کرتے ہیں۔ یہی حال ’’خاندان چغتائیہ’’ 3 کے آخری دور میں ہوا۔ ہنسی اور ٹھٹھول کی چشم بددور اوپر ہی سے بنیاد جمتی چلی آتی تھی یہاں تک کہ عالمگیر 4 جیسے روکھے اور متشرع بادشاہ کے دربار میں بھی نعمت خاں 5 جیسا ظریف اور بذلہ سنج موجود تھا۔محمد شاہ 6 کے عہد میں ظرافت یہاں تک بڑھی کہ منجربہ تمسخر واستہزا ہو گئی۔ بادشاہ ملک کا انتظام اوروں پر چھوڑ کر آپ ہمہ تن عیش وعشرت میں مشغول ہو گیا اور اس کو ناچ رنگ اور شراب و کباب کے سوا کوئی شغل نہ رہا۔ تمام اعیان سلطنت بادشاہ عہد کی طبیعت کا میلان دیکھ کراسی رنگ میں رنگ گئے۔ امیروں میں باہم نوک جھونک ہونے لگی۔ مردوں میں نواب امیرخاں 7 اور عورتوں میں نور بائی 8 ایک ایک پر پھبتیاں کہتے تھے۔ یہاں تک کہ برہان الملک 9 اور آصف 10 جاہ جیسے سنجیدہ آدمیوں پر بھی ان کے وار چلتے تھے اور ان کو بھی کبھی کبھی اپنی وضع کے خلاف جواب دینا پڑتا تھا۔ یہ رنگ رفتہ رفتہ خاص وعام میں پھیل گیا اور تمام امرا کی مجلسوں میں مسخرہ پن ہونے لگا اور اس طرح محمدشاہ رنگیلے کی بدولت تمسخر اور استہزا اعلیٰ سے ادنیٰ تک تمام طبقوں میں پھیل گیا۔پھرجب نواب سعادت علی خاں کے ساتھ دہلی کی زبان لکھنؤ میں گئی تو زبان کے ساتھ ہی ساتھ یہ رنگ بھی وہاں پہنچا اور لکھنؤ میں اس نے اور بھی ترقی پائی۔ وہاں کے اکثر کار فرما ایسے ہوئے جو تعیش و کامرانی میں محمدشاہ پر بھی سبقت لے گئے۔ ان کے ہاں بھی مسخرہ پن کا بازار خوب گرم رہا۔ یہاں تک کہ نواب سعادت علی خاں 11 ثانی جیسے مدبر اور ہوشمند کو بھی سید انشاء اللہ خاں 12 بغیر چین نہ آتا تھا۔چونکہ مزاح اور زبان جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے لازم و ملزوم ہیں اور ظاہر ہے کہ دہلی اور لکھنؤ کو زبان اردو کے لحاظ سے تمام ہندوستان پر ترجیح ہے، اس لئے یہ دونوں شہر ہنسی اور چہل کے لحاظ سے بھی اور شہروں سے بالاتر رہے۔ ان تمام خرابیوں پر بھی جب تک مسلمانوں میں تھوڑی بہت تعلیم و تربیت رہی تب تک تمسخر و استہزا نے ایک حدمعین سے تجاوز نہیں کیا اور شرفا اور خواص کی مجالس میں زیادہ تر بذلہ سنجی اور لطیفہ گوئی ہی پرقناعت رہی مگرجب نکبت اور ادبار کی گھٹا چاروں طرف چھا گئی اوربے علمی و جہالت کا بازار گرم ہوا تو شریف زادوں کو وہ صحبتیں ملنے لگیں جہاں گالی گلوج، دھول دھپا اور جوتی پیزارہی کا نام دل لگی تھا، رفتہ رفتہ یہ لچپن اور بے حیائی ادنی سے اعلیٰ تک تمام خاندانوں میں وبائے عام کی طرح پھیل گئی اور اس کی برائی کا خیال کم ہوتے ہوتے تقریبا ًتمام قوم کے دل سے بالکل جاتا رہا۔پہلے ساری مجلس میں ایک آدھ آدمی بذلہ سنج ہوتا تھا کیونکہ اس وقت بذلہ سنجی کے لئے ذہانت اور جودت طبع کے علاوہ کسی قدر علم وفضل بھی درکار تھا۔ چنانچہ محمدشاہ کے دربار میں صرف نواب امیر خاں ہی ایک ایسا شخص تھا جو اس خدمت سے عہدہ بر آ ہوتا تھا۔ آج کل ہر مجلس میں ایک کثیر مجمع ظریفوں کا ہوتا ہے کیونکہ اب بات بات میں محل بے محل فحش اور ہزل بکنا ہی داخل ظرافت سمجھا جاتا ہے اور اعلیٰ درجہ کی ظرافت چند باتوں پر منحصر ہے مثلاً کوئی ایسا فحش بکنا جو حضار مجلس نے پہلے کم سنا ہو، فحش کی بھری ہوئی واہی تباہی نقلیں بیان کرنی، کوئی ایسا لفظ بولنا جس کے سننے سے شرم آئے، کوئی ایسی حرکت کرنی جسے دیکھ کر ہنسی آئے، کسی دوست کے جھوٹے سچے عیب ظاہر کرنے، کوئی ایسی بات کہنی جس سے مجلس میں بیٹھے ہوئے آدمیوں میں سے کسی ایک کادل دکھے اور باقی سب لوگ ہنسیں۔ کسی نئے آدمی پر جس سے شناسائی نہ ہو کوئی پھبتی کہنی، کسی کی صورت دیکھ کر خواہی نخواہی قہقہہ لگانا، کسی مقدس آدمی کوجس کا نام ہمیشہ تعظیم سے لیا جاتا ہو گالی سے یاد کرنا، کوئی ایسی خبراڑانی جسے سن کر سب کو رنج ہو، کوئی ایسی عجیب روایت کرنی جو عادتاً محال ہو۔غرض ہنسنے ہنسانے، دل دکھانے یا بے حیائی کا نام ’’ظرافت‘‘ رکھا گیاہے، چونکہ غریب اور محنتی آدمیوں کو دو چار گھڑی ہنسنے بولنے کی مہلت بہت کم ملتی ہے، اس سبب سے فحش و دشنام اور بےہودہ باتیں زیادہ تر آسودہ اور مرفہ الحال لوگوں میں سنی اور دیکھی جاتی ہیں۔ اس ذمیم خصلت کی بدولت اردو زبان نے جوکہ خاص مسلمانوں کی زبان کہلاتی جاتی ہے بہت کچھ وسعت پیدا کر لی ہے۔ غالباً دنیا میں کوئی زبان ایسی نہ ہوگی جس میں ہماری زبان کی برابر گالیاں اور فحش اور بے شرمی کے الفاظ اور محاورات بھرے ہوئے ہوں۔ ایک فاضل انگریز نے انہیں دنوں میں اردو زبان کی ایک ڈکشنری انگریزی میں لکھی ہے۔ جس پر انگریزی اخبار نویسوں نے یہ اعتراض کیا تھا کہ اس ڈکشنری کو فوربس اور شیکسپئر پراس کے سوا کوئی ترجیح نہیں ہے کہ اس میں ہزاروں گالیاں اور فحش محاورے ایسے ہیں جو ان میں نہیں ہیں لیکن مصنف نے ایک مختصر جواب دے کر سب کو ساکت کر دیا۔ اس نے کہا،’’فوربس اور شیکسپئر صرف لغات اردو کی ڈکشنریاں ہیں اور ہماری کتاب لغات اردو کے سوا ہندوستانیوں کی طبیعت کا بھی آئینہ ہے جس میں ان کے اخلاق اور خصائل و جذبات نہایت عمدہ طور سے نظر آتے ہیں۔‘‘ اگرچہ مصنف نے اس مقام پر ’’ہندوستانیوں‘‘ کا عام لفظ لکھا ہے مگر حقیقت میں اس کتاب سے زیادہ تر مسلمانوں ہی کے اخلاق ظاہر ہوتے ہیں، کیونکہ جہاں تک ہم کو معلوم ہے اس میں فحش اور بے حیائی کے وہی الفاظ ہیں جو مسلمانوں کی بول چال سے مخصوص ہیں اور خاص انہیں کی سوسائٹی میں وضع ہوئے۔ افسوس ہے کہ یہ ذمیم خصلت اب اس درجہ کو پہنچ گئی ہے کہ واعظ جو اپنی مجلس وعظ کو گرم کرناچاہے اس کو ضرور ہے کہ آیتوں اور حدیثوں کے ضمن میں کچھ تمسخر کی چاشنی بھی دیتا رہے۔ اخبار کا مالک جو اپنے پرچہ کو رونق دینی چاہے اس کو اس کے سوا کچھ چارہ کار نہیں کہ اپنے اخبار کو ’’پنچ‘‘ بنائے۔ مصنف جو کئی کتاب لکھ کر اس کے حق تصنیف سے فائدہ اٹھانا چاہے اس کا فرض ہے کہ اپنی کتاب کی بنیاد ہنسی اور ٹھٹھول پر رکھے۔شاعر جو مشاعرہ کو گرم کرنا چاہے اس کی تدبیر یہی ہے کہ فحش اور ہزل سے اس کی غزل کا کوئی مصرع خالی نہ ہو۔ اہل مناظرہ کی بڑی فتح یابی یہ ہے کہ ان کی تحریر میں اعتراض اور جواب کی جگہ فریق مخالف پر نری پھبتیاں اور آوازے توازے ہوں۔ دنیا کی تمام قوموں کی تفریق مذہب و ملت کے لحاظ سے کی گئی ہے جیسے ہندو، مسلمان، پارسی، یہودی اور عیسائی وغیرہ۔ پس جو اچھی یا بری خصلت کسی خاص قوم کے ساتھ مخصوص ہو جاتی ہے اس سے یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس قوم کی مذہبی تعلیم کا متقضایہی ہوگا اور اس سے صاف ظاہر ہے کہ جو قوم خوش نصیبی سے کسی نیک خصلت میں ضرب المثل ہو جاتی ہے وہ نہ صرف اپنی قوم کو بلکہ اپنے مذہب کو بھی نیک نام کرتی ہے اور جو قوم بدنصیبی سے کسی بری خصلت میں انگشت نما ہو جاتی ہے وہ نہ صرف اپنی قوم بلکہ اپنے مذہب کو بھی بدنام کرتی ہے۔اسلام نے انسان کی تہذیب اور اصلاح میں کوئی دقیقہ فر و گزاشت نہیں کیا، اس نے مزاح کوصرف وہیں تک جائز رکھا ہے جس سے خوشی حاصل ہوتی ہو اور اخلاق پر برااثر نہ پڑتا ہو۔ آں حضرت فرماتے ہیں کہ ’’میں بھی مزاح کرتا ہوں مگر کوئی بات بے جا نہیں کہتا۔‘‘ آپ خود بھی کبھی کبھی مزاح فرماتے تھے اور اگر کوئی دوسرا شخص کوئی لطیف مزاح کرتا تھا تو مسکراکر خاموش ہو جاتے تھے لیکن ہر وقت یا بہت مزاح کرنے کو ناپسند کرتے تھے اور سخریت و استہزا کی سخت ممانعت کرتے تھے۔ یعنی کسی کی حقارت یا پردہ دری کرنی جس پر لوگ ہنسیں یا کسی کی نقل اتارنی یا کوئی اور ایسی بات کرنی جس سے دوسرا شخص ذلیل ہو اور فحش اور سب و لعن کو نہایت مبغوض سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ بتوں کو بھی سب کرنے سے منع فرماتے تھے۔ ایک بار چند آدمی کفار کے ان مقتولوں کو جوبدر میں مارے گئے تھے برائی سے یاد کر رہے تھے، آپ سن کر ناراض ہوئے اور ان کو سخت ممانعت کی۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ طعن کرنے والا، لعنت کرنے والا، فحش بکنے والا اور بےہودہ گو مومن نہیں ہے۔آپؐ کی ممانعت کا طریقہ ایسا مؤثر تھا کہ جس کو ایک مرتبہ نصیحت کی وہ ساری عمر کے لئے اس برائی سے باز آگیا۔ کتب احادیث میں اکثرمثالیں ایسے لوگوں کی موجود ہیں جنہوں نے صرف آپ کی ایک بار کی ممانعت پرتمام عمرفحش وغیرہ زبان سے نہیں نکالا۔ مثلاً ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ ’’اپنے ماں باپ کو گالی دینا گناہ عظیم ہے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا کہ ’’حضرت ایسا کون ہوگا جو اپنے ماں باپ کو گالیاں دیتا ہوگا؟‘‘ فرمایا، ’’جو شخص کسی کو ماں باپ کی گالی دے کراس سے اپنے ماں باپ کو گالیاں دلواتا ہے حقیقت میں وہی ان کا گالیاں دینے والاہے۔‘‘ اسلام کی یہ تعلیم عرب میں اس قدر پھیلی کہ فحش اور بے شرمی کی باتیں وہاں سے گویا بالکل مفقود ہو گئیں۔ قرآن میں ایسی چیزوں کے بیان میں جن کے نام لینے سے نفرت یا شرم آتی ہے مجاز اور کنایہ برتا گیا۔ مثلا جائے ضرور کے لئے غائط کا لفظ بول اگیا ہے جس کے معنی گڑھے یا نشیب کی زمین کے ہیں جہاں عرب حاجت ضروری کے لئے جایا کرتے تھے یا مثلاً ہمبستری کے لئے ملامست، مس، اور ایتان وغیرہ کے الفاظ استعما ل کئے گئے ہیں جن کے معنی چھونے یا آنے وغیرہ کے ہیں۔عرب کے لئے جوکہ لطف زبان اور استعارہ و کنایہ پرجان دیتے تھے، یہ ایک نہایت عمدہ تعلیم تھی۔ چنانچہ اسی بنا پران کے ہاں صدہا استعارے ایسے لفظوں کی جگہ مستعمل ہونے لگے۔ جیسے وقاع کے لئے لمس، مسیس، مس، دخول، صحبت وغیرہ اور بول و براز کے لئے قضائے حاجت، تغوط، تبرز وغیرہ اور عورتوں کے لئے فی الحجر، من ورءالستر، ام الاولاد وغیرہ۔ اس قسم کی تہذیب عرب میں ایسی پھیلی تھی کہ جتنا بدن کپڑوں سے اکثر ڈھکا رہتا ہے اس کا نام لینا خلاف شرم و حیا سمجھا جاتا تھا۔ ایک بار خلیفہ عمربن عبدالعزیز کی بغل میں کچھ نکلا، لوگ عیادت کو گئے اور پوچھا، ’’من این خرج؟‘‘ خلیفہ نے جواب میں صاف طور پر بغل کا نام نہ لیا بلکہ یہ کہا، ’’خرج من باطن البدن۔‘‘ مزاح و ظرافت بھی عرب میں خلفائے امویہ کے عہد تک بہت کم رہی، لوگ اس وقت اپنی اولاد کو مزاح سے بھی ایسا ہی منع کرتے تھے جیسے اور برائیوں سے۔بہرحال اسلام نے اس بات میں ہدایت و ارشاد کا پورا پورا حق ادا کر دیا تھا اور ایک ایسی قوم سے جس کی سرشت میں ظرافت اور مزاح پیدا کیا گیا تھا، اس کو گویا بالکل نیست و نابود کر دیا تھا۔ لیکن بد نصیبی سے وقتا فوقتا ایسے اسباب جمع ہوئے کہ یہ خصلت مسلمانوں میں بڑھتے بڑھتے انتہا کے درجے کو پہنچ گئی اور جس قوم کو نبی برحق نے اس سے ہمیشہ کے لئے پاک کرنا چاہا تھا وہ داغ بدنامی بن کر ہمیشہ کے لئے ان کی پیشانی پر لکھی گئی ہے اور پورا ہوا وہ جو کلام الہی میں ارشاد ہوا تھا کہ، یعنی اے نبی تو اپنے پیاروں کو ہدایت نہیں کرسکتا، بلکہ خدا جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔یورپ کی قوموں نے جس طرح اور تمام اخلاقی برائیوں کی اصلاح کی ہے اسی طرح انہوں نے اس برائی کو بھی مٹایا ہے۔ ان کے ہاں فحش اور ہزل اس طرح مفقود ہوا ہے کہ لغت کی کتابوں میں اس کا پتہ نہیں لگتا۔ انہوں نے مشرقی کتابوں کے ترجمے جو اپنی زبانوں میں کئے ہیں ان میں جہاں فحش و ہزل کا موقع آ گیا ہے وہاں اس مطلب کو ایسے لطیف پیرایہ میں ڈھال کر لکھا ہے جس میں فحش باقی نہ رہے اور مدعا بخوبی ادا ہو جائے۔ ان کی مجلسوں میں یا ان کی تحریروں میں اگر مزا ح کی باتیں ہوتی ہیں تو اس قدرلطیف اور دقیق ہوتی ہیں کہ ہم لوگ اس کو مشکل سے مزاح کہہ سکتے ہیں۔ جنگ روم و روس کے آغاز میں ایک نہایت لطیف مطائبہ وزیر ہند اوران کی لیڈی کا کسی اخبارمیں نقل کیا گیا تھا۔ اس کو سن کر ہمارے ایک مسلمان دوست سخت متعجب ہوئے اور فرمانے لگے کہ اس میں کون سی بات ظرافت کی ہے۔ان کی ہنسی اورچہل کا سب سے بڑا نمونہ پنچ اخبار ہوتے ہیں جن میں وہ حد سے زیادہ ظرافت خرچ کرتے ہیں، مگران کی ظرافت ہمیشہ کسی نہ کسی غرض پرمبنی ہوتی ہے۔ نری ظرافت ہی نہیں ہوتی مثلاً، کسی قانون کی اصلاح ہو، گورنمنٹ کی کوئی غلط پالیسی بدل جائے، کسی باب میں قوم کو غیرت دلائی جائے۔ ایسی ظرافت ہمارے نزدیک عین حکمت ہے اور ہماری قوم کے بعض رفارمر جو کبھی کبھی مزاح کے پیرایہ میں کوئی مضمون لکھتے ہیں گووہ بالفعل ناعاقبت اندیشوں کو ناگوار گزرتے ہیں لیکن بہت جلد وہ زمانہ آنے والاہے کہ ان کی نہایت تعظیم کی جائےگی اور ان کے دلدوز فقرے اور دل شکن طعنے شفیق استاد کی زد و کوب سے زیادہ قدر کے لائق سمجھے جائیں گے۔حاشیے(۱) شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی اعلیٰ پایہ کے شاعر، مدرسہ نظامیہ بغداد کے طالب علم ابن جوزی کے شاگرد اور شیخ شہاب الدین سہروردی کے مرید تھے۔ اپنی آنکھوں سے بڑے بڑے انقلابات دیکھے اوران سے بے انتہا متاثر ہوئے۔ بغداد انہیں کے سامنے تباہ ہوا۔ عمرکابڑا حصہ ایشیا اور افریقہ کی سیاحت میں گزرا۔ پاپیادہ ۱۴مرتبہ حج کئے۔ فارسی غزل کے پیغمبر اور یورپ میں مشرق کے شیکسپئر تسلیم کئے جاتے ہیں۔ گلستاں بوستاں کی تصنیف نے ان کے نام کو غیر فانی بنا دیا ہے جن کے سیکڑوں ترجمے دنیاکی مختلف زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ ۵۷۱ھ ۱۱۷۵ء میں پیدا ہوئے اور ۶۹۱ھ ۱۲۹۲ء میں وفات پائی۔(۲) شفائی شمس الدین حسین ابن حکیم ملا شفائی اصفہان کا رہنے والا تھا۔ تھوڑی سی عمر میں بہت سے علوم حاصل کرلئے اور فلسفے میں خاص دستگاہ رکھتا تھا۔ مدت تک طباعت کرتا رہا۔ چنانچہ اس کی قرابا دین اب تک مشہور ہے۔ شاہ عباس اس کی بہت تعظیم کرتا تھا۔ ہجوگوئی اس کی طبیعت پر زیادہ غالب تھی لیکن آخر عمر میں اس لغوگوئی سے توبہ کر لی تھی۔ اس کی وفات ماہ رمضان ۱۰۳۰ھ میں واقع ہوئی۔ تصنیفات میں سے مثنوی دیدہ بیدار، نمکدان حقیقت، مہر و محبت اور ایک دیوان موجود ہے۔(۳) خاندان چغتائیہ۔ اس خاندان نے ماورالنہر، کاشغر، بلخ، بدخشاں وغزنی وغیرہ پر ۶۲۴ھ ۱۲۲۷ء سے ۷۷۱ھ ۱۳۷۰ء تک ۱۴۷سال حکومت کی۔ اس خاندان کا بانی چنگیز خاں کا بیٹا چغتائی تھا۔(۴) محی الدین اورنگ زیب عالمگیر ہندوستان کے زبردست شہنشاہوں میں سے تھا۔ سلطنت مغلیہ کوجتنا عروج اس کے وقت میں ہوا، اتنا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور اس کے بعد تو انحطاط شروع ہو گیا۔ نہایت دیندار، متشرع محنتی، جفاکش، منتظم، منصف مزاج، عادل اور بارعب شہنشاہ تھا۔ ۱۰۶۸ھ ۱۶۵۷ء میں تخت دہلی پر متمکن ہوا اور ۱۱۱۸ھ ۱۷۰۶ء میں انتقال کیا۔(۵) نعمت خاں۔ مرزا محمدنام، عالی تخلص اورنعمت خاں خطاب تھا۔ شیراز سے آکر عالمگیر کا داردغہ مطبخ اورصرف خاص کا دیوان مقرر ہوا۔ ۱۱۲۰ھ ۱۷۰۸ء میں وفات پائی۔ وقائع نعمت خاں عالی اس کی مشہور کتاب ہے۔(۶) محمدشاہ خان مغلیہ کے دورانحطاط کے بد قسمت بادشاہوں میں سے تھا۔ اسی کے عہد میں نادر شاہ نے دہلی پرحملہ کیا۔ ۱۷۱۵ء میں تخت پر بیٹھا اور ۱۷۴۸ء میں مر گیا۔(۷) امیرخاں۔ عمدۃ الملک خطا ب تھا اور محمدشاہ کے خاص الخاص مقربین میں سے تھا۔ الہ آباد کا صوبہ دار مقرر کیا گیا۔ مگر تھوڑے عرصے کے بعد واپس بلا لیا گیا۔ کیونکہ بادشاہ اس کو اپنے سے جدا کرنا پسند نہ کرتا تھا۔ نہایت حاضر جواب اور بےباک تھا۔ اس کی بےباکی آخر رنگ لائی جب بادشاہ کے حضور میں بھی بےباکی اور گستاخی سے پیش آنے لگا تو ایک روز ناخوش ہوکر بادشاہ نے ایک شخص کو اشارہ کیا اور اس نے ۲۶ دسمبر ۱۷۴۰ء کو ایک خنجر سے اس کا کام تمام کر دیا۔(۸) نور بائی۔ دربار محمد شاہ کی مشہور طوائف تھی۔ نادرشاہ اس کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا مگر قسمت تھی کہ بچ گئی۔(۹) برہان ملک۔ اصلی نام محمد امین عرف سعادت خاں تھا۔ خراسان کے تاجروں میں سے تھا۔ محمدشاہ کے زمانے میں ہندوستان آیا اور اودھ کی صوبیداری پر فائز ہوا۔ ۱۷۳۹ء ۱۱۵۲ھ میں وفات پائی۔ اودھ کے نواب اسی کی اولاد میں سے تھے۔(۱۰) آصف جاہ۔ فرماں روایان حیدرآباد کے مورث اعلیٰ اور دربار مغلیہ کے زبردست امرا میں سے تھے محمد شاہ کے وقت میں حیدرآباد کے صوبیدار مقرر ہوئے اور ۳۰ برس تک نہایت کامیابی کے ساتھ صوبہ دکن میں حکومت کی۔ ۱۱۶۱ھ ۱۷۴۸ء میں وفات پائی۔(۱۱) سعادت علی خاں ثانی۔ وزیراعلی بن آصف الدولہ کے بعد ۲۱ جنوری ۱۷۹۰ء کو اودھ کے تخت پر بیٹھا۔ ۱۷برس تک حکومت کرنے کے بعد ۱۱ جنوری ۱۸۱۴ء کو فوت ہو گیا۔(۱۲) سید انشاء اللہ خاں۔ میر ماشاء اللہ خاں کے بیٹے اعلیٰ درجہ کے ظریف الطبع شاعر تھے۔ دربار لطافت ان کی مشہور کتاب ہے۔ بمقام لکھنؤ ۱۲۳۲ھ ۱۸۱۷ء میں وفات پائی۔