موت انسان کے جینے کا بدل ہوتی ہے

موت انسان کے جینے کا بدل ہوتی ہے
زندگانی میں ہی پوشیدہ اجل ہوتی ہے


اے مرے کاتب تقدیر ذرا یہ تو بتا
تیری تحریر بھی کیا رد و بدل ہوتی ہے


تم اگر چاہو تو وہ خون بھی دے سکتا ہے
ایک مظلوم کی ہر بات اٹل ہوتی ہے


شعر گوئی کی اذیت بھی اذیت ہے عجیب
قوت فکر ہر اک شعر پہ شل ہوتی ہے


خون جلتا ہے مرے جسم کا پہلے آتشؔ
تب کہیں جا کے مری ایک غزل ہوتی ہے