موت دل سے لپٹ گئی اس شب

ایک خواب ہزیمت دنیا
ایک آہٹ دوام خواہش کی
ایک جوڑی قدیم ہاتھوں کی
اور آنکھوں کے بند فرغل میں
ایک خواہش ہمیشہ رہنے کی
ایک بستر پرانی یادوں کا
اور سویا ہوا دل وحشی
آہنی انگلیوں کے پنجے میں
اک گھنی تیرگی کے رستے میں
ذائقہ بھولی بسری بارش کا
ایک سایہ جھکا ہوا دل پر
دیر تک آسماں سے گرتی ہوئی
ایک مدھم صدا دریچوں میں
ایک پر شور سیل کی آواز
سانس کی سلوٹیں ڈبوتی ہوئی
کون تھا اس سمے کے آنگن میں
جاگتی رات کو تھپکتا ہوا
کون تھا رات دن کے پھیرے میں
گئی دنیاؤں سے ابھرتا ہوا
رو رہا تھا دیار غربت میں
اور معدوم کے علاقے میں
اپنی آنکھوں میں ڈال کر مٹی
خواب تکتا ہوا میں بچپن کے
ایک ہنستے ہوئے گزشتہ میں