موسم سنگ و رنگ سے ربط شرار کس کو تھا
موسم سنگ و رنگ سے ربط شرار کس کو تھا
لحظہ بہ لحظہ جل گئی درد بہار کس کو تھا
سرحد آسماں کے پاس جال بچھے تھے ہر طرف
کس نے کیا ہمیں اسیر شوق شکار کس کو تھا
شمس و نجوم بے کراں ہفت فلک نبرد گاہ
روشنیوں کی دوڑ میں پائے فرار کس کو تھا
چشم شفق تھی خوں نشیں چہرۂ شب تھا تیغ تیز
خواب پڑے تھے تار تار صبر و قرار کس کو تھا
آج سے پہلے ہم سبھی سمجھے تھے اس کو برگ گل
تجربۂ جلالت روئے نگار کس کو تھا
سایہ ہر شجر میں تھا رینگتے لمحوں کا ہجوم
خام خیال گردش لیل و نہار کس کو تھا
سایۂ ابلق شجر گھات میں چشم نیم وا
پاؤں جہاں تھے جم گئے ہوش فرار کس کو تھا