موسم رنگ بھی ہے فصل خزاں بھی طاری
موسم رنگ بھی ہے فصل خزاں بھی طاری
دیکھنا خون کے دھبے ہیں کہ ہے گلکاری
اس سے ہر طرح سے تذلیل بشر ہوتی ہے
باعث فخر نہیں مفلسی و ناداری
انقلابی ہو تو ہے فقر بھی توقیر حیات
ورنہ ہے عاجزی و بے کسی و عیاری
شعلۂ گل کی بڑھا دیتی ہے لو باد بہار
تہ شبنم بھی دہک اٹھتی ہے اک چنگاری
لمحہ لمحہ ہے کہ ہے قافلۂ منزل نور
سرحد شب میں بھی فرمان سحر ہے جاری
تیغ و خنجر کو عطا کرتے ہیں لفظوں کی نیام
ظلم کی کرتے ہیں جب اہل ستم تیاری
حرف سردارؔ میں پوشیدہ ہیں اسرار حیات
شعر سردارؔ میں ہے سرکشی و سرشاری
شعر سردارؔ میں ہے شعلۂ بے باک کا رنگ
حرف سردارؔ میں حق گوئی و خوش گفتاری