موقع یاس کبھی تیری نظر نے نہ دیا

موقع یاس کبھی تیری نظر نے نہ دیا
شرط جینے کی لگا دی مجھے مرنے نہ دیا


کم سے کم میں غم دنیا کو بھلا سکتا تھا
پر تری یاد نے یہ کام بھی کرنے نہ دیا


تیری غم خوار نگاہوں کے تصدق کہ مجھے
غم ہستی کی بلندی سے اترنے نہ دیا


وہ تری سرخیٔ عارض کہ قریب آ نہ سکی
رنگ جس فکر کو بھی خون جگر نے نہ دیا


حسن ہم درد ترا ہم سفر شوق رہا
مجھ کو تنہا کسی منزل سے گزرنے نہ دیا


کتنی خوش ذوق ہے تیری نگۂ بادہ فروش
خالی رہنے نہ دیا جام کو بھرنے نہ دیا