موج دریا کو پئیں کیا غم خمیازہ کریں

موج دریا کو پئیں کیا غم خمیازہ کریں
رگ افشردۂ صحرا میں لہو تازہ کریں


دل کے محبس میں کریں ذات کا ماتم کب تک
آؤ باہر تو چلیں وقت کا اندازہ کریں


خوں ہے اک دولت دل لوٹ ہی لیں اہل فلک
چہرۂ‌ داغ قمر پر تو نیا غازہ کریں


انگلیاں سرد ہیں پھونکیں تو انہیں ہوش میں لائیں
اپنے سینوں پہ لکھیں حرف وفا تازہ کریں


شیشہ تھا اک غم دل ٹوٹ کے ساحل پہ گرا
منتشر ریت کے ہر ذرے کا شیرازہ کریں


گرگ احساس سے بچنے کی تو کوئی نہیں راہ
سگ تخیل پہ بند آنکھ کا دروازہ کریں