متاع حسن و جمال و کمال کیا کیا کچھ

متاع حسن و جمال و کمال کیا کیا کچھ
چرا کے لے گئے یہ ماہ و سال کیا کیا کچھ


تو منہ سے بولے نہ بولے سنا رہے ہیں ہمیں
فسانے شب کے ترے خد و خال کیا کیا کچھ


مرے خدا نے ہے بخشا مجھے وراثت میں
مزاح و طنز و جمال و جلال کیا کیا کچھ


میں بچ گیا تری رحمت سے ورنہ مرقد میں
فرشتے کرتے نہ جانے سوال کیا کیا کچھ


سوائے اسوۂ شبیر کچھ نہ کام آیا
دھمال رقص یہ وجد اور حال کیا کیا کچھ


کرم ہے ان کا نہ ریجھا میں پھر بھی دنیا پر
تھا اس میں منصب و مال و منال کیا کیا کچھ


ہنسی کے پردے میں سلمانؔ نے چھپا لئے ہیں
مصیبت و غم و حزن و ملال کیا کیا کچھ